• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں کتنے ہی کام بند ہوئے لیکن دنیا کا بدلنا ایک روز بھی نہ رُکا۔ نسلِ انسانی کی تاریخ چھان ماری، اسے ہر لحظہ بدلتے ہی دیکھا۔ ہمارے بزرگوں نے اور اُن کے بزرگوں نے بھی اس دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلتے دیکھے ہوں گے مگر جو منظر ہم نے دیکھے، دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں، ایسے منظر ہم سے پہلے کسی نے نہ دیکھے ہوں گے ہاں ہمارے بعد ہم جانتے نہیں لیکن محسوس کر سکتے ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
پینسلین سے لے کر خلا کی تسخیر اور کمپیوٹر کی ایجاد تک دنیا نے اتنے چولے بدلے ہیں کہ اگر کہیں گزرے ہوئے لوگ دوبارہ جی اٹھیں اور آج کی دنیا کو دیکھیں تو حیرت سے دوبارہ مر جائیں۔ یہ تو خیر سامنے نظر آنے والی چیزیں ہیں۔ اِن کا بدلنا تو اِن کے مقدر میں تھا لیکن جس شے کے بدلنے کو بیان کرنا دوبھر نہیں، ناممکن ہے اور وہ ہے انسان کی فکر۔ اس کا سوچنا، اس کا سمجھنا اور خیالات کی گتھیوں کو سلجھانا یہ سب ایسا بدلا ہے کہ قیاس کرنا دشوار ہے۔ بات تو بدلی ہی ہے، بات کہنے کے ڈھنگ کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں محسوس نہ ہو کیونکہ یہ تغیّر اچانک ایک صبح نہیں آیا، دبے پاؤں آیا ہے۔ ہاں، ایک بات ماننی ہو گی۔ فکرِ انسانی نے اپنا چولا نئی نئی ایجادات ہی کی بدولت تبدیل کیا ہے۔ جب اظہار کے طور طریقے تبدیل ہوئے تو اس کے پیرائے بھی بدلے گئے۔ اس بات کو سمیٹا جائے تو آنکھ کی پتلی میں سما جائے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اصل میں کیا بدلا ہے، لفظ بدل گیا ہے۔لفظ جہاں بھی ہو، کاسۂ سر میں یا زبان پر ، اس کی شباہت تو وہی رہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ سے کچھ ہو گیا ہے اور سچ پوچھئے تو سارا کا سارا معاملہ لفظ ہی کا ہے۔ یہی فکر کا اکلوتا محور ہے اور یہی اظہار کا واحد وسیلہ۔ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا انقلاب سیاست کے میدانوں میں نہیں، ذہن کے کارخانوں میں آیا ہے۔ دنیا بدلی ہو یا نہ بدلی ہو، دنیا والے یقیناً بدل گئے ہیں۔ ان کی ترجیحات بدل گئیں، ان کے فیصلے ، ان کے اقدامات اور ان کی تدبیریں پہچانی نہیں جاتیں۔ اس کا سب سے واضح اظہار ادب اور صحافت میں نظر آتا ہے۔ اب اور طرح کا ادب تخلیق ہو رہا ہے اور نئی قسم کی صحافت انسان کے ذہن میں نئے انداز کی رائے پیوست کر رہی ہے۔ ادب میں تجربے کے رجحان نے سر اٹھایا ہے، یہ پرندہ اب پاؤں ٹکانے کے لئے نئے انداز کی شاخ ڈھونڈ رہا ہے۔ اب رہ گئی صحافت، جو اپنے اس نام سے بھی محروم ہوگئی ہے اور میڈیا کہلائی جانے لگی ہے اس کے میدان کو ایسی وسعت نصیب ہوئی ہے کہ پہچان میں نہیں آتی۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں جب اخبار اور اخباری صنعت ہی کو میڈیا تصور کیا جاتا تھا۔ اس میں ریڈیو بھی اپنا تھوڑا بہت کردار ادا کرتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران دنیا کی بڑی طاقتوں کو احساس ہوا کہ اخبار کی وادی تو بہت تنگ ہے، سیاسی سرحدیں اس کا راستہ روک سکتی ہیں۔ اس وقت ان پر یہ بھید کھلا کہ ریڈیو اپنے شہر یا اپنے ملک والوں ہی کی نہیں، دور دراز آبادیوں کی رائے بھی بدل سکتا ہے۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کمپیوٹر کی شکل میں ایک ایسا سیلاب آنے کو ہے جو انسانی ذہن کو تلپٹ کرکے رکھ دے گا۔ آج سوشل میڈیا کے نام سے ایک ایسا انسانی مکالمہ شروع ہوا ہے کہ اس کے اثرات کا ہمیں ابھی پوری طرح ادراک بھی نہیں۔ ساری دنیا ایک دوسرے سے بات کر رہی ہے۔ گھر گھر بلاگ لکھے جا رہے ہیں۔ ایک عالم میں گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ آگے چل کر اس کے فکر انسانی پر کس غضب کے نقوش ثبت ہوں گے۔
اس سیلاب میں ہمارا جو مال اسباب بہے گا ہم ادب کو اس سے جدا نہیں رکھ سکتے۔ وہ دن گئے جب ہمارے شعر پر فارسی کی چھاپ تھی اور ہماری کہانی پر فرانس، روس یا لاطینی امریکہ کا سایہ تھا۔ اس میں بھی الیکٹرانک میڈیا کا دخل بڑھے گا۔ شعر اب گھروں یا ادبی جریدوں میں قید نہیں رہے گا۔ ویسے بھی ادبی رسائل کی جگہ اخباروں کے ادبی صفحات نے لے لی ہے اور فیس بُک پر شعر کہا جا رہا ہے اور سراہا جا رہا ہے۔یہی حال افسانے کا ہے۔ تحقیق میں محو لوگ جانتے ہیں کہ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کتب خانہ اٹھ کر ہمارے گھر میں آنے لگا ہے۔ اعلیٰ ادب اب انٹرنیٹ پر دستیاب ہے اور اسی تعلق سے تنقید کا میدان اگرچہ پہلے بھی تنگ تھا، اب بھی کشادہ ہوتا نظر نہیں آتا لیکن ایک ایجاد آس بندھاتی ہے اور اس کا ذکر یہاں لازمی ہے اور وہ ہے اردو کتابت کی دنیا میں آنے والا زبردست انقلاب۔ یہ زبان جو کاتب کہلائے جانے والے خطّاط کے رحم و کرم پر شرمندۂ طباعت ہوا کرتی تھی، مقام ِ شکر ہے کہ اسے اُس سے آزادی ملی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ برصغیر میں ادبی جریدوں اور مجلّوں کی چھپائی اس افراط سے ہو رہی ہے کہ یقین نہیں آتا۔ اسی کے نتیجے میں تخلیقی ادب ، تحقیق اور تنقید کے لئے نئے نئے راستے ہموار ہوں گے اور ادب تازہ دم ہو کر ہمارے ہاتھوں میں پہنچے گا۔یہ صورت حال کتنی خوش آئند ہے، اس سے کتنی امیدیں وابستہ کی جانی چاہئیں ، اس کے بعد ادب اور ابلاغِ عامہ کے سبزہ زاروں میں کیسی کیسی فصلیں اگیں گی، یہ جاننے کے لئے ہمیں شاید زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ اب دنیا کے بدلنے کی رفتار ذرا زیادہ ہی تیز ہوگئی ہے، اتنی کہ اس برق رفتاری سے خوف بھی آنے لگا ہے۔
تازہ ترین