• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بدلتاہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ کے مصداق ملکی حالات میں بڑی تیزی کے ساتھ بہتری نظر آرہی ہے۔ حکومت، طالبان مذاکرات بتدریج کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مذاکرات مخالف قوتوں کے لئے بھی یہ ناقابل یقین ہے کہ ان کی توقع کے برعکس حکومت اور طالبان کیسے بات چیت پر آمادہ ہو گئے ہیں؟اور یہ مذاکرات کاسلسلہ ابھی تک رکا کیوں نہیں، آگے کیسے بڑھ رہاہے؟یہ محض اللہ رب العزت کافضل وانعام ہے کہ جب اخلاص اور نیک نیتی سے کوئی کام کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اورنصرت بھی اس کے شامل حال ہوجاتی ہے لیکن یہ بات ایمان اور یقین کی پختگی کی ہے۔ اپنے آپ کو ’’عقل کُل‘‘سمجھنے والے اور مغربی فلسفے کی لاٹھی سے قوم کو ہانکنے والے ہمارے بعض دانشوروں کو یہ حقیقت ابھی سمجھ نہیں آرہی۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کے مثبت نتائج قوم کے سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔ملک میں امن وامان کی حالت بہتر ہوئی ہے۔واقفان حال کاکہنا ہے کہ طالبان ،حکومت براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں مستقل امن کے قیام کیلئے ایک بڑا ’’بریک تھرو‘‘ جلد ہونے والا ہے۔دونوں طرف سے غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کیساتھ ساتھ جنگ بندی میں توسیع بھی ہوجائے گی۔ طالبان کیساتھ حکومت کا خفیہ براہ راست مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکاہے۔آئندہ آنے والے دنوں میں مزید کامیابیاں حاصل ہوں گی لیکن اس وقت حکومت کو انتہائی احتیاط اور ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔نوازشریف حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں دانشمندانہ اور حکیمانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔گزشتہ پانچ سال کی زرداری حکومت کے دوران ایسی کوئی سنجیدہ پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ 23مارچ کواس مرتبہ یوم پاکستان کے موقع پر چھ سال بعد اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ ممکن ہوسکی پاکستانی عوام نے اس پر سکھ کاسانس لیا ہے۔پشاور میں بھی آٹھ سال بعد یوم پاکستان پر سرکاری سطح پرکھلے عام بھرپور تقریب کا انعقاد کیاگیا۔حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے تسلسل کی بدولت ملک امن کے حقیقی قیام کی طرف رواں دواں ہے۔حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے براہ راست مذاکرات کیلئے لائحہ عمل ترتیب دے دیا گیا ہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت حکومتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کی شرکت سے واضح ہوگیا ہے کہ فوج مذاکراتی عمل میں حکومت کے شانہ بشانہ موجود ہے۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کاکہناہے کہ نوازشریف طالبان سے مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں ایک دو روز میں قوم کو خوشخبری ملے گی۔ طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے میڈیا کو بتایا کہ طالبان سے مذاکرات میں پہلی ترجیح مستقل امن کا قیام یا کم ازکم جنگ بندی میں توسیع کرانا ہے۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں کی جانب سے اخلاص اور فراغ دلی سے مسئلے کے حل کی طرف پیشرفت ہورہی ہے۔
فریقین کے درمیان ایک ماہ کی جنگ بندی ہوئی تھی امید کی جارہی ہے کہ جنگ بندی کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ اس سے مستقل امن کے قیام کی راہ نکلے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور طالبان دونوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ آئے روز بم دھماکے جو پاکستان کا معمول بن چکے تھے اس میں بڑی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ امن کے قیام کے لئے یہ ایک اچھی علامت ہے۔ حکومت کو اس موقع پر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور طالبان کے غیر عسکری قیدیوں کو رہا کر دینا چاہئے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے اس سے قیام امن میں مددملے گی۔طالبان کو بھی جواباً یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے صاحبزادوں اور دیگر افراد کو انسانی ہمدردی کے طور پر رہاکر دینا چاہئے۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن سے مذاکراتی عمل کو تقویت پہنچے گی۔ وزیر اعظم نوازشریف نے ہیگ میں جوہری سلامتی کے بارے میں سربراہ کانفرنس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری پر یہ واضح کیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں۔ نوازشریف کا یہ کہنا تھاکہ مسئلہ کشمیر پرثالثی کے معاملے میں بھارت تیار نہیں، امریکہ اپنا کردار ادا کرے۔ قبائلی علاقوں میں گزشتہ 4ماہ سے امریکی ڈرون حملے نہیں ہوئے۔اس کا نتیجہ ہے کہ حالات معمول پر آرہے ہیں۔ وزیراعظم کو دوٹوک انداز میں امریکہ کو باور کراناچاہئے کہ اب پاکستان پر کوئی ڈرون حملہ برداشت نہیں کیا جائیگا۔ طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران ہی نہیں بلکہ اب ڈرون حملوں کو مکمل طور پر بند ہونا چاہئے۔ ابھی حال ہی میں روس نے پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کی چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2004ء سے 2013ء تک ہمارے قبائلی علاقوں پر 350 امریکی ڈرون حملے کئے گئے۔ ان حملوں میں 3000سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ ان مرنے والوں میں اکثریت بچوں،خواتین اور بے گناہ لوگوں کی تھی۔ یورپی یونین ڈرون حملوں پر قرارداد پاس کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس سلسلے میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو اس پر گہری نظر رکھنا ہوگی کہ کوئی بیرونی قوت اس سارے امن عمل کو سبوتاژ نہ کردے۔جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کاتعلق ہے بھارت کشمیر پر ثالثی پر بھی تیار نہیں اور نہ ہی دوطرفہ مذاکرات سے اس نے آج تک اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تقسیم ہند کے اصولوں پر صحیح طور پر عملدرآمد ہوجاتا تو آج کشمیر کاقضیہ نہ ہوتا۔اب وزیراعظم نوازشریف نے امریکہ سے اپناکردار اداکرنے کامطالبہ کیا ہے دیکھنایہ ہے کہ امریکہ اس بارے میں اپنا حقیقی کردار اداکرسکے گا یامحض بیان بازی سے کام لے کر بھارت کی پشت پناہی جاری رکھے گا؟
پاکستان کو آزادخارجہ پالیسی تشکیل دینی چاہئے۔امریکہ پر انحصار ہمیں کم سے کم کرنا ہوگا۔سعودی عرب نے’’تحفے‘‘کے طور پر پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کیا دیئے ہیں کہ ہرطرف شور مچاہوا ہے۔سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ممالک ہے اور اس کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔پاکستان میں زلزلہ ہو یا سیلاب کسی بھی قدرتی آفت کے موقع پر سعودی حکومت نے کبھی پاکستانی عوام کو تنہانہیں چھوڑا۔ حتیٰ کہ ایٹمی دھماکوں کے تاریخی موقع پر جب مغربی دنیا ہمارے خلاف تھی اس نے نازک اور کٹھن حالات میں ہماری کھل کر مدد کی۔نوازشریف حکومت کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ ایک طرف مذاکراتی عمل کے نتیجے میں امن کی بحالی ہو رہی ہے دوسرا اس کا اہم اور کامیاب پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب،چین اور ترکی کیساتھ تعلقات میں مزید استحکام پیداہواہے۔اس وقت یہ تینوں ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے جن’’دانشوروں‘‘نے سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں ملنے سے آسمان سرپر اٹھایاہواہے انہوں نے کبھی امریکہ سے ملنے والی’’امداد‘‘پر نکتہ چینی نہیں کی۔امریکی غلامی توانہیں قبول ہے کہ امریکہ ہمیں ہرسال بھیک کی صورت امداد دے چاہے ہماری سلامتی اور خودمختاری دائو پر لگ جائے۔اب تو وزیر اعظم نوازشریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کاکسی بھی اسلامی ملک کے خلاف فوج بھیجنے اور لشکر کشی کاارادہ نہیں۔ اسلامی ممالک کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بڑی متوازن ہے۔ تمام مسلمان ملکوں کیساتھ ہمارے اچھے اور مضبوط تعلقات ہیں۔ مالی طور پر مستحکم اور خوشحال اسلامی ملکوں کو آپس میں باہمی تجارت کو فروغ دینا چاہئے۔ یورپی یونین کی طرح ایک مضبوط اسلامی بلاک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلم ملکوں کے درمیان چھوٹے موٹے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ تجارت اور مشترکہ کرنسی کا نظام اگر قائم ہو جائے تو اسلامی دنیا معیشت کے میدان میں اپنا لوہا منوا سکے گی اور کشمیر، فلسطین سمیت عالم اسلام کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔
تازہ ترین