• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ بے حد کامیاب و کامران شخص تھا۔ علم و فضل کا دھنی، اور اپنے شعبے کا سرکردہ، عزت، دولت، شہرت گویا اس کے گھر کی باندیاں تھیں۔ مگر منہ میں سونے کا چمچے والی کوئی بات نہیں تھی، غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور یہ سب ذاتی محنت سے حاصل کیا۔ پھر بڑے سے بڑا اعزاز اس کے تعاقب میں تھا۔ اسی حوالے سے برپا ہونے والی ایک تقریب میں خلق خدا اس کی کامرانیوں کا راز اس کی اپنی زبان سے جاننے کی متمنی تھی کہ وہ یہ سب کچھ کیونکر کر پائے۔ اور وہ کون سی گدڑ سنگھی تھی، جو ایک عام سے انسان کو بام عروج تک لے گئی۔ صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور دھیرے دھیرے بولتے یک لخت انکشاف کیا کہ وہ محض پانچ برس کے تھے کہ ان کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی در آئی۔ اور یہی وہ واقعہ تھا جس سے ان کی کایا کلپ ہوئی اور کامرانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مجمعے پر سناٹا چھا گیا،مکمل خاموشی گویا کہ سوئی بھی گرے تو آواز سنائی دے۔ کیونکہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کیا خاص بات تھی جس نے محض پانچ سالہ بے نوا بچے کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ موصوف قدرے توقف سے بولے ’’یہ وہ عمر تھی، جب میں نے پڑھنا سیکھا تھا‘‘۔
لوح محفوظ سے وحی کی صورت میں ہمارے آقا و مولیؐ کو آنے والا پہلا سندیسہ تو آپ کو یاد ہوگا۔ ’’اقرا‘‘ جو ہر حکم گو کی نوک زبان ہے۔
’’اقرا‘‘ یعنی ’’پڑھ‘‘ وہ پہلا حکم تھا جو رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی وساطت سے امت کے لئے بھجوایا۔ اور ہماری نافرمانی کی انتہا کہ اس کا ذکر تو نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ کرتے ہیں مگر عمل ناپید ۔ یہ بھی برحق کہ جنہوں نے اس پیغام کو مضبوطی سے پلے باندھ لیا، وہ کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ افسوس اس بات پر کہ جو مخاطب تھے وہ مخدوم رہے اور جو اسکی حقیقت کو پاگئے، وہ تسخیر کائنات کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اقرا کی روح کو اگر کسی نے سمجھا ہے، تو وہ اہل مغرب ہیں۔ بس اسپاٹ ہو، ٹرین ہو یا ٹرام، یا پھر کوئی بھی عوامی جگہ ، آپ ان کو مطالعہ میں غرق پائیں گے۔ وہ گھر سے نکلتے وقت کتاب ضرور اٹھاتے ہیں۔ بھول جائیں تو اخبار اپنا ہرگز نہیں بھولتے اور ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ چند روز پہلے ایک صاحب تشریف لائے پتہ چلا کہ افسانہ نویس ہیں اور دو مجموعے پہلے ہی نکل چکے ہیں۔ تیسرے کی ایک جلد ہمارے لئے لائے تھے۔ جو بعد شکریہ وصول کی۔ باتوں باتوں میں بریم بتیسی اور پریم پچیسی کا ذکر آگیا۔ چہرہ بلینک تھا کہ گویا بات پلے نہ پڑی ہو اور ہمارا شک درست نکلا، موصوف واقعی منشی پریم چند اور ان کی شہرہ آفاق تصانیف سے نابلد نکلے۔ طالب علموں کا معاملہ تو اور بھی گیا گزرا ہے۔ درسی کتب میں کچھ ایسے پھنس گئے ہیں کہ شوقیہ مطالعہ کا رواج ختم ہو چکا۔ رٹو طوطے 1050 میں سے 1028 نمبر تو لے لیتے ہیں مگر گردوپیش کی بنیادی معلومات سے بے بہرہ۔ سہیل وڑائچ صاحب نے لاہور کے سنٹرل ماڈل اسکول کے دسویں جماعت کے طالب علم سے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا نام پوچھ لیا تو جواب ملا جناب ! یہ تاریخ کا سوال ہے میں تو سائنس کا اسٹوڈنٹ ہوں۔
ہمارے ہاں کے بھی بعض لیڈروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مطالعہ کے شوقین تھے۔ مگر برصغیر میں کلاسک مثال بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہے۔ زندگی کے آخری دنوں آرنلڈ ٹائن بی کی بارہ جلدوں پر مشتمل شہرو آفاق تالیف ’’اے سٹڈی آف ہسٹری‘‘ موصوف کے زیر مطالعہ تھی۔ زیرمطالعہ جلد سائیڈ ٹیبل پر اور باقی سامنے دیوار کے ساتھ دھرے شیلف کی زینت تھیں۔ ایک صبح جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے ملازم نے سائیڈ ٹیبل والی جلد اٹھائی اور سامنے شیلف میں رکھ دی۔ سب جلدیں ایک جیسی تھیں اور بیچارہ بھول گیا کہ سائیڈ ٹیبل سے کون سی اٹھائی تھیں۔ صاحب سے معافی کا خواستگار ہوا اور زیر مطالعہ جلد کا نمبر پوچھا تاکہ اسے پھر سے بستر سرہانے رکھ دے۔ نہرو جی کا جواب سننے لائق ہے بولے،’’ مجھے تو خود پتہ نہیں کہ وہ کونسی جلد تھی اور اس ترددکی ضرورت بھی کیا ہے؟ میں تو ٹائن بی کی تحریر کے سحر سے ہی باہر نکل نہیں پایا۔
انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستان اس قدر مبحوس کر لیتی ہے کہ اپنا ہوش نہیں رہتا‘‘۔ فی الحقیقت نہرو کے پاس ’’اے سٹڈی آف ہسٹری‘‘ کی گیارہ جلدیں تھیں، بارہویں کے بارے میں اکثر پوچھتے اور پبلشر سے بھی پچھواتے۔ مگر افسوس وہ چھپ کر تیار ہوئی تو آپ سورگباش ہوچکے تھے۔
بیوروکریسی میں بھی مطالعہ کے شوقین دیکھے، مگر جن دونے متاثر کیا، ان کا تعلق فارن آفس سے تھا۔ وطن عزیز کے نامور سفارت کار آغا شاہی، جن کے نام پر اسلام آباد کی ایک معروف ایونیو بھی ہے، گھو داری کے جھنجھٹ میں نہیں پڑے تھے۔ ساری زندگی تن تنہا گزار دی۔ کس نے وجہ پوچھی تو بولے ’’یہ کام مائوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ ماں نے دو ایک بار پوچھا ’’تو ہم نے نخرہ دکھایا۔ ماں نہ رہی تو پھر کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ ’’تنہائی کا احساس نہیں ہوتا؟‘‘ کے جواب میں موصوف نے کہا تھا کہ اگر نفی میں جواب دوں تو فطرت کے منافی ہوگا۔ مگر ایک بات ضرور ہے کہ کتابوں نے مجھے اس اذیت سے بڑی حد تک بچائے رکھا اور صحیح معنوں میں بہترین رفیق ثابت ہوئیں۔ یہی بات ایک اور دائمی کنوارے فارن سیکریٹری نیاز ۔ اے نائیک بھی کہا کرتے تھے۔ راقم کو ان کا شاندار ذخیرہ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مطالعہ میں کھو کر وہ واقعی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے تھے۔ تنہائی سے خوفزدہ نہیں تھے اور کتابیں بے شک بہت اچھی ساتھی تھیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمر کے آخری حصے میں گھریلو ملازمین کے ہاتھوں بری طرح سے ایکسپلائیٹ ہوتے رہے۔ وقت آخر آیا تو بھی ان کے پاس کوئی نہیں تھا اور موت کی خبر بھی دھیرج سے نکلی تھی۔
امریکہ یونیورسٹی آف ییل میں گریجویشن کی تقریب تھی ایک خوشی کی لہر اور ایک جشن کا سماں، طلباء و طالبات ہوا میں اپنی اپنی دستار ہائے فضیلت اچھال رہے تھے کہ ایک چلایا ’’شکر ہے تعلیم مکمل ہو گئی۔ سینئر فیکلٹی ممبر رابرٹ کلے نے سنا تو کہا ’’آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ ڈگری مکمل ہوئی ے تعلیم نہیں‘‘۔ پھر پاکستانی طالب علم عبدالمنان کو مخاطب کر کے کہا ’’عبدل، انہیں وہ مہد سے لیکر لحد تک والی بات بتائو، تاکہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
(پس تحریر:گزشتہ ہفتہ کے کالم ’’ہمارا خون بھی شامل ہے اس مٹی میں، گواہ رہنا کا بیشتر مواد ’’سبز و سفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہدائ‘‘ نامی کتاب سے لیا گیا تھا، جسے ہمارے دوست جناب اعظم معراج نے نہایت محنت سے مرتب کیا ہے)
تازہ ترین