• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاں!تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں! اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
ایک طرز تغافل ہے سو وہ ہے ان کو مبارک
ایک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
( فیض)
27مارچ کوکراچی پہنچا توٹی وی پر مشرف کے وکلا کی طرف سے جج صاحبان پر اعتراضات اور پھر ججوں کا اچانک کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے جانا ایک گرم خبر بنا ہوا تھا اور یکے بعد دیگرے مبصرین مختلف چینلوں پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے اتنے میں تحریری آڈر آگیا اور تمام تبصرے دھرے کے دھرے رہ گئے مبصرین بغلیں جھانکنے لگے اور میڈیا کے لوگ بھی اپنی خفت مٹانے کے لئے باتیں بنانے لگے میں تھوڑا سا اس کے قانونی پہلو پرروشنی ڈال دوں یہ طے بات ہے کہ کوئی بھی ملزم یادیوانی مقدمے کا مدعی یا مدعاعلیہ اپنی مرضی کاجج نہیں چن سکتا۔جو بھی عدالت میں جج ہوتا ہے اس کو مقدمہ چلانےکااختیار ہوتا ہے یہ ضرور ہے کہ اگر کسی ملزم کوکسی جج صاحب کے بارے میں تحفظات ہوں اور اس کے دل میں خدشات ہوں کہ کسی ذاتی وجہ کی بنا پر اسے کسی جج سے انصاف کی توقع نہیں ہے تو ملزم، مدعی یا مدعا علیہ کو یہ قانونی اختیار ہے کہ وہ اخلاقیات اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے متعلقہ جج صاحب کے بارے میں تحفظات سے جج صاحب کو آگاہ کردیں۔ رسم اور مروجہ طریقہ یہ ہے کہ بڑی عدالتوں کے جج صاحبان خو دہی لکھ دیتے ہیں Not before meیعنی یہ مقدمہ میرے آگے نہ لگایا جائے۔چھوٹی عدالتوں کے سربراہ ملزم کو بتاتے ہیں کہ اگر وہ مطمئن نہیں تو وہ مقدمے کے ٹرانسفر کی درخواست سیشن عدالت میں دفعہ526ضابطہ فوجداری کے تحت داخل کرے یا دیوانی عدالت کی اپنی دفعہ ہے موجودہ کیس میں تو معاملہ ہی مختلف ہے یہ تو اسپیشل عدالت ہے اور اسکی تشکیل بھی سپریم کورٹ کے حکم سے ہوئی ہے اور سپریم کورت میں وہی چیف جسٹس تھے جن کو مشرف نے برطرف کیا تھا مجھے بھٹو صاحب کا کیس یاد ہے میں اس زمانے میں نوجوان وکیل تھا اور یہ مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار کی درخواست پر منتقل ہوا تھا وہاں مولوی مشتاق صاحب چیف جسٹس تھے بھٹو صاحب کوجج موصوف پر بہت اعتراضات تھے مگر جج نے ایک نہ سنی اور بھٹو کوپھانسی کا حکم سناکر ہی دم لیا ۔ اس فیصلے کو بعدمیں سپریم کورٹ نے تین اور چار کی تقسیم پر برقرار رکھا اور ریویو کو ڈس مس کرتے وقت سات کے سات جج یک زبان ہوگئے ۔
مجھے یاد ہے نواز شریف صاحب پر جب طیارے کے اغوا کا مقدمہ بناتھا تومیں نے ایک اردو کے اخبار میں بیان دیاتھا کہ ’’ یہ دنیا کا واحد کیس ہے جس میں ہائی جیکرزمین پر ہے اور طیارہ آسمان پر‘‘ لوگوں نے میری بات کو لطیفہ سمجھ کرٹال دیا اور دومنٹ کے لئے ہنس دیئے پھرکیا ہوا ؟ رحمت جعفری صاحب بہت اچھے جج ہیں اور میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں ۔ انہوں نے جناب شہباز شریف ، رانا مقبول، سیف الرحمن، شاہد خاقان عباسی، غوث علی شاہ، سعید مہدی کوباعزت بری کردیا جبکہ جناب نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی نواز شریف کواس سزا کی توقع ہرگزنہیں تھی ہماری وکلا کی ٹیم کے سربراہ جناب اعجاز بٹالوی مرحوم اور جناب خواجہ سلطان مرحوم تھے۔ اعجاز بٹالوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ مقدمہ پنجاب میں چلتا اور پنجاب کا کوئی جج ہوتا تو وہ سزائے موت سناتا۔ ہائیکورٹ میں اس فیصلے کے خلاف دو اپیلیں داخل ہوئیں۔ ایک اپیل مرحوم بیرسٹر عزیز اللہ شیخ نے سزا کے خلاف کی اور دوسری اپیل سرکار نے بری ہونے والے ملزمان کے خلاف مرحوم راجہ قریشی سے کروائی اس اپیل میں دوبارہ اعجازبٹالوی صاحب، خواجہ سلطان صاحب اور میں شامل تھے تین ججوں کی بینچ تھی جس کی سربراہی چیف جسٹس سید سعید اشہد نے کی۔ دوسرے جج واحد بخش بروہی صاحب تھے جبکہ تیسرے جج سرمد جلال عثمانی صاحب تھے چیف جسٹس اور واحد بخش بروہی صاحب نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ سرمد جلال عثمانی صاحب نے اختلافی نوٹ لکھ کرالگ فیصلہ دیا اور کہا کہ ہائی جیکنگ کا کیس تو نہیں بنتا مگراقدام قتل بنتا ہے کیونکہ جہاز میں موجود مسافروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ سزا برقرار رہی میں نے نواز شریف صاحب سے بہت کہا کہ اپیل دائر کرتے ہیں مگر وہ عدالتوں سے اتنا دل برداشتہ تھے کہ انہوں نے کہا ’’ چھڈو خواجہ صاحب‘‘۔ پھر وہ سعودی عرب چلےگئے واپسی پر اپیل داخل ہوئی۔ ستارے بدل چکے تھے حالات بدل گئے تھے۔ نواز شریف باعزت بری ہوگئے اب باری مشرف کی ہے۔ میں اپنے پچھلے کالم میں نیو یارک میں بیٹھ کر باریوں کا ذکر کیا تھا۔ اس وقت مشرف کے ستارے گردش میں ہیں۔ مگر اس ملک میں گردش زیادہ دن نہیں رہتی، میں فیصل رضا عابدی اور شیخ رشید کی طرح بڑی بڑی پیش گوئیاں تو نہیں کرسکتا مگر دیوار پر لکھا ہوا ضرور پڑھ سکتا ہوں اوریہی باتیں میں نے نیو یارک میںرانا رمضان ایڈووکیٹ شاہد اور لودھی صاحب کے ڈنر میں کی تھیں۔سوچااپنےقارئین کو بھی پڑھوادوں۔ تھوڑے لکھے کو زیادہ جانئے۔ جو نہیں لکھا اسے خود ہی سمجھ لیں کیونکہ تمام باتیں لکھنے کی نہیں ہوتیں۔ صوفی تبسم کی نظم سے اشعار پیش کرتا ہوں۔
چرکے وہ دیئے دل کو محرومی قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
تازہ ترین