• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے اور دونوں طرف سے اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی چیزیں بھی سامنے آ رہی ہیں جن کی وجہ سے مذاکرات اور ان کے نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں ۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے پاکستان پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے۔ طالبان کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ سابق گورنر پنجاب مرحوم سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اور سابق وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو رہا نہیں کریں گے کیونکہ بیان کے مطابق پیپلزپارٹی طالبان مخالف ہے۔ یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ طالبان نے یہ کہا ہے کہ شہباز سلمان تاثیر اور علی حیدر گیلانی ان کے پاس نہیں ہیں ۔ ان خبروں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہ صرف برسراقتدار موجودہ جماعت کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنے سیاسی اور مسلکی مخالفین کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت نہیں کرنا چاہتے۔ اگر واقعتاً ایسی ہی صورت حال ہے ، جس کا تاثر مل رہا ہے تو پھر مذاکرات کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کے تناظر میں بعض حلقے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہیں کہ طالبان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے درمیان مذاکرات کی کیا ضرورت تھی کیونکہ ان کے درمیان کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں شدت پسندوں نے یہ دھمکیاں دی تھیں کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں پر حملے کریں گے۔ ان دھمکیوں کی وجہ سے مذکورہ سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکی تھیں اور ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے واضح الفاظ میں یہ بیانات دیئے تھے کہ انتہا پسند پاکستان میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں لانا چاہتے ہیں۔ عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو بعض لبرل حلقوں نے الزام عائد کیا کہ انتخابی نتائج پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ نہیں ہیں بلکہ طالبان کے مرتب کردہ ہیں۔ انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جب طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی بات کی اور دونوں طرف سے مذاکراتی کمیٹیوں کا اعلان کیا گیا تو بعض مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے یہ بھی لکھا کہ طالبان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔
مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں ہوئیں ۔ خاص طور پر فوج پر بھی حملے ہوئے۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے ایک مرتبہ مذاکرات کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ دوسری دفعہ مذاکرات شروع ہوئے تو پھر دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں، جن سے طالبان نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں سے طالبان کی لاتعلقی کے اعلان کے بعد یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ بعض عسکریت پسند گروپ مذاکرات میں شامل نہیں ہیں اور وہ نہ ہی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر لوگوں نے یہ سوال کرنا بھی شروع کر دیا کہ جب امن قائم ہی نہیں ہو سکتا تو مذاکرات کی کیا ضرورت ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ طالبان کی طرف سے اپنے مخالفین کے ساتھ صلح اور مفاہمت نہ کرنے کا عندیہ بھی ملا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حکومت اور طالبان کے مذاکرات کامیاب ہو بھی جائیں تو بدامنی کا بنیادی سبب ختم نہیں ہو گا اور امن قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ ایک طرف تو بعض عسکریت پسند گروہ مذاکرات میں شامل نہیں ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کرنے والے طالبان اپنے مخالفین کو ’’معاف‘‘ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر کوئی معاہدہ ہوا بھی تو وہ ’’ادھورے امن‘‘ کے لئے ہو گا اور وہ ادھورا امن بھی صرف ان لوگوں کے لئے ہو گا جنہیں پہلے ہی بدامنی سے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔
اگر حکومت مذاکرات کرنے والے طالبان کو ماضی کی تلخیوں اور جھگڑوں سے نہیں نکال سکتی ہے اور انہیں اس بات پر راضی نہیں کر سکتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں نہ کریں تو پھر نہ صرف مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے بلکہ لوگوں کو یہ کہنے کا بھی موقع ملے گا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات دراصل ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے اور اپنے مشترکہ مخالفین کو کمزور کرنے کے لئے ہوئے تھے۔ اس سے یہ تاثر بھی مضبوط ہو گا کہ عام انتخابات میں شروع ہونے والا مبینہ ’’اتفاق رائے‘‘ مذاکرات کے ذریعہ مزید مضبوط کیا گیا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہئے کہ اس نے جو مشکل کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اس کی نزاکت اور پیچیدگیوں کو سمجھے اور وسیع تر تناظر میں مذاکرات کا عمل آگے بڑھائے ۔
اگر طالبان کے ساتھ کسی قسم کا امن معاہدہ ہونے کے بعد بھی طالبان مخالف قوتوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہیں تو اس کا سارا الزام مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر ہی آئے گا۔اگلے روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے شام میں فوجیں یا عسکریت پسندوں کو بھیجنے کی مبینہ اطلاعات پر اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ۔ یہ واک آؤٹ حکومت کے لئے ایک انتباہ ہے ۔ اپوزیشن مسلسل خبردار کر رہی ہے کہ اگر شام اور بحرین میں فوجوں کو بھیجا گیا یا عسکریت پسندوں کو حکومت پاکستان کی سرپرستی میں روانہ کیا گیا تو اس کے بدترین اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے اور پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم کی خوفناک فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کی پوزیشن انتہائی حساس ہو گئی ہے۔ پاکستان میں بدامنی کی وجہ سے حالات پہلے ہی بہت نازک ہو چکے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ افقی اور عمودی طور پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ فرقہ وارانہ اور لسانی کشیدگی کے ساتھ ساتھ طبقاتی تضادات بھی بہت شدت اختیار کر چکے ہیں ۔ پاکستان کی سرزمین پر غیر ملکی اور پاکستان دشمن قوتوں نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لئے ہیں اور وہ تضادات اور تصادم کو ہوا دینے میں بہت آسانی محسوس کرتی ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ان ساری باتوں کے پیش نظر مذاکرات کی ایسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے کہ پاکستان میں حقیقی امن قائم ہو۔ کم از کم مذاکرات کرنے والے طالبان یہ ضمانت دیں کہ وہ صرف حکومت کے ساتھ معاہدہ نہیں کر رہے بلکہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی کھلے دل کے ساتھ مفاہمت کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر حکومت کی ساری کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوں گی۔
تازہ ترین