• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو بابائے قوم نے پاکستان ایجوکیشن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’تعلیم کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کے مستقبل کا انحصاراسی بات پرہے کہ ہم اپنے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دے رہے ہیں اور انہیں مستقبل میں کس قسم کا پاکستانی بنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیں اس دنیا سے مقابلہ کرنا ہے جو کہ تعلیم کے حصول کی سمت تیزی سے رواں دواں ہے‘‘ مگر قائد کے دیگر اقوال کی طرح حکمرانوں نے ان کی اس نصیحت کو بھی مکمل بھلا دیا۔ اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے پاکستان میں کبھی کسی حکومت کی اولین ترجیح تعلیم نہیں رہی۔ حکمرانوں کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب 1956ء میں حکومت کی جانب سے پہلی تعلیمی پالیسی کی بنیاد رکھی گئی تو تعلیم کے مختلف شعبوں کے لئے 900ملین روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی مگر بجائے کہ آنے والے سالوں میں اس میں اضافہ کیا جاتا 1965ء میں اس رقم کو 900سے کم کرکے 300ملین کردیا گیا اور آنے والے سالوں میں تعلیم کے لئے مختص رقم کو مزید کم کیا جاتا رہااور تعلیمی بجٹ اپنی تنزلی کی طرف گامزن رہا۔ دنیا بھر میں جن ممالک نے بھی تعلیم کے شعبے میں نام کمایا ہے انہوں نے ہمیشہ اس کے دو شعبوں پر بھرپور توجہ دی ہے۔ ایک بنیادی تعلیم اور دوسرے اعلیٰ تعلیم۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ زبوں حالی کی شکار بنیادی تعلیم ہے۔ایک محتاط جائزے کے مطابق ملک میں 2کروڑ 90لاکھ بچے ایسے ہیں جو کہ تعلیم کے زیور سے بالکل محروم ہیں۔ 2012-13ء میں پنجاب لٹریسی ڈپارٹمنٹ کی خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پنجاب میں 5سے 7سال کے 72 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔جب کہ لاہور کی 12یونین کونسلیں ایسی ہیں جہاں پر شرح خواندگی 8فیصد سے بھی کم ہے۔جب کہ سندھ میں تو بنیادی تعلیم کے اسکولوں کی حالت بہت ہی خستہ ہے۔صوبے میں 35فیصد اسکولوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے اور 8ہزار اسکول ایسے ہیں جو کہ بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہیں۔بعض علاقے تو ایسے ہیں جہاں پر پچھلے کئی سالوں سے اساتذہ محض حاضری لگانے کے لئے بھی نہیں گئے۔پنجاب میں صورتحال سندھ کی نسبت بہتر ہے مگر پرائمری اسکولوں کی ایک بڑی تعداد بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ مجھے اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود بھی اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ نہ ہی ہم بنیادی تعلیم کے علمبردار پرائمری اسکولوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے کو صحیح سمت میں چلنے دیتے ہیں۔2002ء میں پاکستان یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو تحلیل کر کے صدارتی حکم نامے کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بلاشبہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے تعلیم کے اس شعبے میں انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ معیار تعلیم کو دنیا کی مایہ ناز جامعات کے مقابلے میں لانے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔گزشتہ پانچ دہائیوں میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی اتنی بڑی لاٹ تیار نہیں کی گئی جتنی کہ ان چند سالوں میں ہوئی مگر ترقی کا یہ سفر جلد مختصر ہو گیا۔ایچ ای سی کے بانی ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے بعد منصب سنبھالنے والے سابق چئیرمین نے ڈگریوں کے معاملے پر اس ادارے کو اتنا سیاسی بنادیا کہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت نے سب سے پہلے اس ادارے کو ہدف بنایا۔حالانکہ اگر ڈگریوں کی تصدیق کے عمل میں چیئرمین خود مداخلت نہ بھی کرتے تب بھی نتیجہ یہی نکلنا تھا اور جعلی ڈگری والے باہر ہوتے ،جیسا کہ اب ہیں۔
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ایچ ای سی میں ڈگریوں کی تصدیق کا عمل اس قدر شفاف و غیر جانبدار ہے کہ اس کی ساکھ پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی مگر شاید یہی وجوہات تھیں کہ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے حکومت سندھ نے اپنا اعلیٰ تعلیمی کمیشن بنا ڈالا، اب پنجاب اور خیبر پختونخوا بھی صوبائی ایچ ای سی کے قیام کا جلد اعلان کرنے والے ہیں۔ اس طرح ایچ ای سی جو ایک وفاق کی علامت تھا اس کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔اربوں روپے کی گرانٹ سے ملک وقوم کا مستقبل سنوارنے والے طلبہ کا ذاتی مستقبل خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ اکیسویں صدی علمی بنیادوں پر اپنی معیشت کو فروغ دینے والے ممالک اور قوموں کی صدی ہے۔اب یہ نظریہ فرسودہ ہوچکا کہ چند شعبوں مثلاً زراعت، صنعت، سرمایہ کاری کے بل بوتے پر کوئی ملک ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بن سکے۔ آج کی دنیا علم پر مبنی معیشت کے اصول پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔شاید ایچ ای سی میں مزید بہتری لاکر پاکستان بھی اس سمت میں آگے بڑھ سکتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہی ملک میں بعض طبقات اور افراد کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ اس ملک کی تقدیر کو تعلیم کے ذریعے سے بدلا جائے۔ ایسے لوگوں میں نہ صرف بعض سیاستداں بھی شامل ہیں بلکہ زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس مشن کی راہ میں کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی حائل ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کا بیڑا اٹھانے والے اس ادارے میں بھی سابقہ ادوار میں قوانین کے برعکس ایسی تعیناتیاں کی گئیں جنہوں نے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچایا بلکہ انہی کی وجہ سے آج ایچ ای سی کی ساکھ پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند افراد کو MPاسکیل میں تعینات کرکے مستقل کرنے کی بھی سفارشات کی گئیں۔ حالانکہ MPمنیجمنٹ اسکیل میں دو سال سے زائد عرصے کا کنٹریکٹ نہیں کیا جا سکتا مگر چھ ،چھ سال سے MP اسکیل پر فائز افراد کو قومی خزانے سے خطیر رقم دی جا رہی ہے۔ جس کا براہ راست خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ تعلیم جیسے حساس شعبے کے ساتھ ہونی والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ حکومتوں کی ترجیحات میں اولین ترجیح تعلیم کو ہونا چاہئے۔یہاں پر وزیراعظم کا نہ صرف یہ فرض ہے کہ وہ بنیادی تعلیم کے علمبردار پرائمری اسکولوں کی حالت پر توجہ دیں بلکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو بھی ٹوٹنے سے بچائیں اور اس کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کریں کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے جس میں ترقی سے پاکستان اعلیٰ مقام حاصل کرسکتا ہے۔بازگشت ہے کہ نئے چیئرمین ایچ ای سی کی تقرری سے متعلق کمیٹی کی سفارشات کو صرف اس لئے نظر انداز کر کے تحلیل کیا گیا کہ من پسند شخص کی تعیناتی کے لئے کمیٹی نے سفارش نہیں کی تھی۔ وزیراعظم کو ان باتوں کا نوٹس لینا چاہئے اور میرٹ کے مطابق قابل آدمی کو اس اہم ادارے کا سربراہ مقرر کرنا چاہئے اور ایسے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں جو یہ واضح کرسکیں کہ تعلیم میاں نوازشریف کی اولین ترجیح ہے۔
تازہ ترین