• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان بنیادی طور پر تلون پسند واقع ہوا ہے۔ اس کے ذہن کا اضطراب اور خیالات کی تبدیلیاں ہی اس کے کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ غاروں اور بیابانوں کی زندگی گزارنے کے بعد انسان نے کروٹیں لیں، گزرے تمام ادوار کے عمیق تجزیئے کے بعد اہلِ علم کا کہنا یہ ہے کہ ایک زمانے کی دوسرے زمانے میں تبدیلی کائنات کی ’’جدلیات ‘‘ترقی پسندی اور انسانی ذہن کی ارتقا پسندی ہی کی علامت ہے۔ اس جدلیاتی عمل کے نتیجے میں انسانی سوچ نے بھی مادی تقاضوں اور عصری ضرورتوں کے تحت حیرت خانے اور سوچ کے صنم کدے تخلیق کر ڈالے، اس کے برعکس جن ذہنوں نے مادی تبدیلیوں اور کائنات کی بو قلمونیوں کے تہہ در تہہ زاویوں پر غور نہ کیا،وہ ماورائی مابعد الطبیعاتی تصورات کو جنم دیتے ۔ ایسے اصحاب نے جتنے نظریات تراشے ان کا انسان کی زندگی سے بظاہر کوئی تعلق نہ تھا۔اس قسم کے فلاسفر عینیت پسند یعنی Idealistکہلائے۔اب جب ہم وطن عزیز کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی تاریخ ترقی معکوس کا شاہکار دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کی وجوہات من و عن وہ نہیں، جن کی جانب مذکورہ سطور میں اشارہ کیا گیا ہے لیکن بنیادی ابہام بہر صورت اسی فلسفے کے تابع دکھائی دیتا ہے مثلاً ہمارے ہاں ترقی پسند سوچ کے مقابل جو تصورات اُبھارے گئے وہ ایسے نہیں تھے کہ جو ترقی کی ضد ہوں لیکن ایسے تصورات چونکہ پیش کرنے والوں کے اخلاص سے خالی یا باالفاظ دیگر نقل تھے لہٰذا وہ درحقیقت اُس پھل کی فراہمی سے قاصر تھے جن کے داعی پیش کار تھے...ترقی پسندی کے آگے پاکستان میں جو پُل باندھا گیا اُسے اسلام کا نام دیا گیا حالانکہ اسلام ازخود ترقی پسند اور روشن خیال راہوں کی تلقین کرتے ہوئے کائنات کو مسخر کرنے کی ترغیب دلاتا ہے چنانچہ قیام پاکستان کے فوری بعد سب سے پہلا جو کام کیا گیا وہ یہ تھا کہ اسلام کو خالص نہ رہنے دیا جائے۔ یہ پہلی اور بڑی ضرورت سامراج کی تھی جو پاکستانی اسلام سے اشتراکیت کی یلغار روکنے کا متمنی تھا۔ اُس نے ایسا سو فیصد کیا اور بامراد بھی ٹھہرا...اب اسلام میں اگر سامراجی دراندازی نہ کی گئی ہوتی، تو ظاہر ہے کہ خالص اسلام کا کسی سامراجی ہدف کیلئے بروئے کار لائے جانے کا تصور بھی محال تھا، چہ جائیکہ ضیا الحق صاحب امریکہ کیلئے واحد سپر پاور کا ٹائٹل جیت پاتے!! یہ اسی نام نہادجہاد کا ثمر تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ مع اتحادی لائولشکر کے افغانستان میں وارد ہوا... اس بدعت کی ابتدا ایوب خان نے کی تھی، یحییٰ خان اورضیا الحق نے اُسے مزید فروغ دیااور پرویزمشرف کے دور میں ایم ایم اے کی مدد سے 17ویں ترمیم نے اسے نکھارا اور سنوارا...یہی وہ دور تھا جس میں طالبان کے ذریعے اسلام کو نئے زاویئے سے متعارف کرایا گیا...ایوب خان کو انہی خانوں اور خان بہادروں کی تیار کھیپ ملی،جو انگریز کے تنخواہ دار تھے۔
جنرل یحییٰ خان کے دست و باز بھی یہی جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی سیاسی رہنما تھے۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ اخلاقی دیوالیہ پن کے حوالے سے معروف جنرل یحییٰ خان سے زیادہ قریب مذہبی جماعتیں ہی رہیں۔کہنا یہ مقصودہے کہ طالع آزمائوں کی یہ پالیسی ابتدا ہی سے کارگر ثابت ہوئی ہے کہ نام اسلامی آئیڈیالوجی کا لیا جائے لیکن مفاد اپنا سامنے رکھا جائے اور جو اس طرز حکمرانی کی مخالفت کرے، اسلام مخالف ثابت کرنے کیلئے اُس پر لے پالک سیاستدانوں، مذہبی رہنمائوں، دانشوروں اور صحافیوں کے توسط سے یلغار کر دی جائے...گزشتہ 66 برس سے یہی آزمودہ نسخہ عوام کے پیشِ خدمت ہے۔ آج تھر کا واقعہ ہو یا غربت کے مارے اشرف المخلوقات کی خودکشیاں و خود سوزیاں... یہ سب ان سول،فوجی ،و مذہبی اشرافیہ اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جو وسائل سے مالا مال اس ملک کو غاروں کے دور سے آگے بڑھتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے!! ان کا مفاد جمود سے وابستہ ہے،کہ تغیر کے بعد ارتکاز دولت کا وہ منصوبہ غارت ہو جائے گا جسے یہ استحصالی عناصر اسلام کی آڑ میں چھپائے ہوئے ہیں۔ سورہ النساء میں ہے ’’اگر کائنات پر انسان کا مکمل تسلط ہو جائے تو وہ لوگوں کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا‘‘ چنانچہ آج یہی صورت ہے کہ ملکی دولت پر چند لوگوں کو موجودہ استحصالی نظام کے باعث تسلط حاصل ہو گیا ہے اور وہ حق داروں کو اُن کا حق تک دینے کیلئے تیار نہیں، سرمایہ داری اور ارتکاز دولت بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، طبقاتیت کے شکنجوں میں اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا ان عوامل کو اگر دیگر نظام ہائے معیشت سے حل نہیں کیا جاسکتا تو اسلام کے ذریعے حل کیا جائے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ زیادہ عرصہ جو لوگ اقتدار میں رہے یہ وہی تھے اور ہیں جو اسلام ہی کا نام لیتے ہیں اور اسی نام پر کرسی سے چمٹے رہتے ہیں لیکن پھر بھی غربت ہے کہ اژدھے کی صورت غریبوں کو نگلنے کیلئے بیتاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اگر اسلام سے مخلص ہوتے تو کب کے ملک کے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ اسلامی نظام نافذ ہونے کے بعد پہلی ضرب انہی استحصالی عناصر پر لگے گی۔یہاں اسلام کی حیثیت محض نعرے کی سی ہے وگرنہ جو بڑی زمینداریاں اور استحصالی نظامِ ِتجارت یہاں رائج ہے وہ ہندوازم ،برہمن فلسفہ کا نچوڑ ہے اور اس نظام کے تحفظ کیلئے وہ سب کچھ ہوتا ہے جو روح ِاسلام کے منافی ہے۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر ووٹ لینے و اقتدار میں آنے والے اور ان کے ثناخوان سادہ لوح عوام کے سامنے نام تو اسلام کا لیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں نہ صرف جدید سہولتوں سے آراستہ رہتے ہیں بلکہ انہی اغیار کے ممالک میں تعلیم، علاج کے علاوہ من چاہی عیاشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن کے خلاف یہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بنابریں جب کوئی ان کے مکروفریب اور دو عملی کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اپنے نظریاتی مخالف کو اسلام مخالف قرار دے کر اس کے خلاف شور مچانے لگتے ہیں کہ دیکھیں یہ اسلام مخالف ہے...مقصد واضح ہوتا ہے کہ قدرت کے فیاضی کے صرف وہ اور اُن کا آقا مستحق ٹھہریں۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہونے کا بنیادی سبب بھی ان کی یہی دکھاوے کی تھیوری ہے ۔یہ تھیوری گزشتہ 6دہائیوں سے ہر آمر اور آمر نما جمہوریت کے علمبرداروں کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسٹیٹس کو بلکہ ترقی معکوس کا سبب بنی ہے۔ تعلیم، شعور و ترقی کا بنیادی وسیلہ ہے اور اس شعبے کی پامالی جھوٹوں کی شعور و ترقی سے سچی دشمنی کا مظہر ہے۔ اب روز بروز طاقتور ہوتے جھوٹوں کو کون روکے گا!؟ اکژ سیاستدان تو خود اسی جھوٹ میں کسی نہ کسی حوالے سے شامل ہو کر مال و مرتبہ کے حوالے سے اگرچہ توانا لیکن کردار کے تناظر میں کمزور ہو گئے ہیں۔ البتہ وہ علمائے حق جو کہ موجودہ کرب ناک صورتحال پر رنجیدہ ہیں، کیا یہ مناسب خیال نہیں کرتے کہ وہ حجروں سے باہر آکر خدا کے خالص دین میں ملاوٹ کرنے والوں کے ہاتھ روکیں کہ حدیث شریف کی رو سے یہی ایمان کا پہلا درجہ ہے یا پھر زبان سے جوکہ دوسرا اور دل میں محسوس کرنے والوں میں مجھ سمیت کمزور ایمان کے حامل تو کروڑوں ہو سکتے ہیں۔
تازہ ترین