• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے پر غور اور آئندہ چار برس میں تعلیمی بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کا چار فی صد کرنے کا اعلان بلاشبہ ملک کے روشن مستقبل کے لیے نیک فال ہے۔ گزشتہ روز وزارت تعلیم و تربیت کے زیراہتمام کانفرنس سے اپنے خطاب ، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے گورڈن براؤن اور عالمی بینک کی ایم ڈی مس سیری ملیانی اندروتی سے بات چیت میں وزیر اعظم نے بجاطور پر تعلیم پر کیے جانے والے اخراجات کو خرچ نہیں بلکہ مستقبل کے لیے سرمایہ کاری قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ حکومت آئندہ تین سال میں شرح خواندگی کو 58 فی صد سے بڑھا کر100 فی صد تک لے جانے کا عزم رکھتی ہے۔انہوں نے خواتین کی تعلیم کو خصوصی اہمیت دینے کا اعلان بھی کیا جو بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے۔ خواتین کی تعلیم نئی نسل کی بہتر پرورش اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔بلاشبہ علم ہی وہ وصف ہے جس نے انسان کو فرشتوں سے ممتاز کیا اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا سبب ٹھہرا۔ قافلہ انسانی کے رہبر اعلیٰؐ پر رب کائنات کی جانب سے نازل کی جانے والی پہلی وحی کا آغاز ’’اِقراء‘‘ یعنی پڑھو کے حکم سے ہوا۔ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم کا حصول نبی پاکؐ نے فرض قرار دیا اور ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس راہ میں کسی مشکل کو خاطر میں نہ لانے کی ہدایت یہ کہہ کر دی گئی کہ ’’علم حاصل کروخواہ چین جانا پڑے‘‘ ۔علم و حکمت کو مومن کی میراث قرار دیا گیا اور تلقین کی گئی کہ یہ جہاں سے بھی ملے حاصل کرو۔ مسلمانوں نے جب تک ان ہدایات پر عمل کیا دنیا کی قیادت ان کے پاس رہی۔ روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپرپاورز ان کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکیں۔انہوں نے تحقیق اور تجربے کے ذریعے تمام شعبو ں میں علمی ترقی کی راہیں ہموار کیں۔ لیکن جب علم کی روایت سے روگردانی اختیار کی گئی اور مسلمانوںکے علمی کاموں کی بنیاد پر مغرب نے اس سفر کو آگے بڑھانا شروع کیا تو عروج اور غلبہ اس کا مقدر بنا اور مسلم دنیا غلامی کے اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی۔ انگریزوں نے آدھی دنیا پر حکومت کی تو اس کا اصل سبب ان کا مستحکم تعلیمی نظام اور ان کے ترقی یافتہ تعلیمی ادارے ہی تھے۔ جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہوجانے کے بعد تعلیمی ترقی کے ذریعے ہی نہایت مختصر مدت میں دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے میں کامیابی حاصل کی۔ مسلم دنیا بھی تعلیم کے فروغ کے راستے ہی سے ازسرنو عزت و سربلندی اور ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ملائشیا اور ترکی نے تعلیم کے فروغ کو اہمیت دی تو ان کے لیے ترقی کی راہیں کشادہ ہوگئیں۔ پاکستان انتہائی باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال ہے۔ تعلیم کے ذریعے ان صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا گیا ہوتااور تعلیم کے شعبے کو قرارواقعی اہمیت دی گئی ہوتی تو آج ہمارا شمار دنیا کی بڑی ترقی یافتہ اقوام میں ہوتاکیونکہ تعلیم ہی زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی کلید ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ ہی ملک کو اچھی قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں مستحکم سیاسی نظام نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے فروغ پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جاسکی۔ بیشتر حکومتوں کی ترجیحات کی فہرست میں تعلیم بہت نیچے رہی ۔ تعلیم کا شعبہ انتہائی بے توجہی کا شکار رہا۔ قومی بجٹ میں تعلیم کا حصہ بالعموم دو فی صد سے آگے نہیں بڑھ سکا اور اس میں سے بھی بیشتر کرپشن کی نذر ہوتا رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے قیام کو ساڑھے چھ عشرے گزر جانے کے بعد بھی ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مکمل طور پر ناخواندہ ہے۔ وزیر اعظم کا تعلیم کو مشکلات سے نکال کر مواقع میں تبدیل کرنے کا عزم نہایت مبارک ہے۔ تعلیم ہی ترقی کی کلید اور قوموں کے عروج کا زینہ ہے۔قومی مقاصد اور ہداف سے ہم آہنگ تعلیم کے فروغ کے لیے جنگی بنیادوں پر جدوجہد ہماری ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مستقل قومی تعلیمی پالیسی اور حکمت عملی وضع کی جانی چاہیے جس میں حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی خلل نہ پڑے تاکہ تعلیمی ترقی کا سفر کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رہ سکے اور پاکستان جلد از جلدعالمی سطح پر علم کے میدان میں ممتا ز مقام کا حامل بن سکے۔

فرسودہ رسوم ختم ہونی چاہئیں
چیف جسٹس پاکستان سید تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین نہ صرف شہریوں کے درمیان مساوات کا درس دیتا ہے بلکہ خواتین اور بچوں کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے خواتین اور بچوں سے امتیازی سلوک کا تعلق غلط طور سے مذہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
قرآن حکیم حضور ﷺ کی سیرت مطہرہ اور سنت نبوی ﷺ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت نہایت واضح اور غیر مبرہن انداز میں سامنے آتی ہے کہ اسلام نہ صرف خواتین اور بچوں کو اپنے عہد کی ضروریات کے مطابق تعلیم دینے کا حکم دیتا ہے بلکہ ان کی اس انداز میں تربیت کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں امکانی حد تک اپنا معاشی مقام بہتر بنانے اور خاندانی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں اپنا کردار موزوں طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہو سکیں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی کہ حصول علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اس پر شائد ناطق ہے کہ فرمان نبوی ﷺ کے مطابق ہر مرد و زن پر ہر قسم کی عصری تعلیم حاصل کرنے پر قطعی طور پر کوئی قدغن نہیں، ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ مختلف ممالک میں تجارت کے لئے اشیاء بھجواتی تھیں اور ان سے اتنی رقم حاصل کرتی تھیں کہ انہیں ملیکۃ العرب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا احادیث مبارکہ کو محفوظ رکھنے اور عربی شعر و ادب کا اتنا گہرا ذوق رکھتی تھیں کہ صحابہ کرام کسی بھی اشکال کے پیش آنے کی صورت میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مختلف جنگوں کے دوران مسجد نبوی میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور نرسنگ کا جو مثالی کام کیا ہے وہ مسلمانوں کے لئے آج بھی مینارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے یہ سارے حقائق اس امر کے اثبات کے لئے کافی ہیں کہ مذہب ترقی کے راستے میں ہرگز کوئی روک نہیں اور اس نے خواتین اور بچوں سے حسن سلوک کرنے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا پرچم اس وقت بلند کیا جب حقوق انسانی کے جدید دور کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔

مذاکرات اور امیدیں!
وزیراعظم اور مذاکراتی کمیٹیوں سے وزیر داخلہ نے ملاقاتیں کی ہیں اور طالبان کے مطالبات پر غور اور بات چیت کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ۔ وزیر داخلہ نے غیر ملکی دورے سے واپسی کے بعد وزیراعظم سے ملاقات کی اور انہیں ان کی عدم موجودگی میں طالبان سے ہونے والے پہلے مذاکراتی دور کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ طالبان سے جاری مذاکراتی عمل پر پیش رفت خوش آئند ہے تاہم کوئی غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹیوں سے بھی ملاقات کی اور انہیں آگاہ کیا گیا کہ آئندہ اعلان تک کالعدم تحریک طالبان نے جنگ بندی میں توسیع کر دی ہے جبکہ علاقے میں فوج کی موجودہ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ بات چیت آگے بڑھ رہی ہے جبکہ پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان سے ملاقات کے لئے ایک دو روز میں مقام اور وقت کا تعین کیا جائے گا۔ اگرچہ حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے حوالہ سے واضح مطالبات سامنے نہیں آئے ہیں ۔توقع کی جا رہی ہے کہ حکومت اور طالبان شوریٰ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد بات چیت کے ایجنڈے کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان کی جانب سے 31؍ مارچ تک سیز فائر کا جو اعلان کیا گیا تھا اس میں توسیع کر دی گئی تاہم قیدیوں کے حوالہ سے ابہام ابھی تک موجود ہے اور اس حوالے سے بات چیت جاری رہے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی مشعل جلا دی ہے۔ ملک میں جلد امن ہو جائے گا۔ اس طرح حکومت اور طالبان سے مذاکرات سے امیدیں وابستہ کی گئی ہیں اور دونوں اطراف سے مثبت رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اگر اسی جذبہ کو برقرار رکھا گیا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان مذاکرات کے بہتر نتائج مرتب ہوں گے!!
تازہ ترین