• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست پاکستان اس وقت پے در پے کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔معاشی بحران نے اپنے پنجے بری طرح گاڑ رکھے ہیں۔ ایک غیر مقبول سیاسی حکومت کا بوجھ بھی ریاست کے کندھوں پر ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں بیٹھ کر خارجیوں یعنی ٹی ٹی پی نے،ملک کے مختلف حصوں خصوصا بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بدامنی پھیلانے کا مکروہ کھیل شروع کر رکھا ہے اور ان کی کارروائیاں روکنے کیلئے پاک فوج کے جوان مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ان سنگین حالات کے پس منظر میں مسلح افواج کے سربراہ نے مختلف مواقع پر اپنے دو ٹوک موقف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کاکول میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران انہوں نے مختلف قرانی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ دہشت گردی کی کارروائیاں محض شر پسندی نہیں بلکہ یہ خارجیوں کے اس فتنے کا تسلسل ہے جو تاریخ اسلام کیساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔ان تقاریر سے قبل اگست کے پہلے ہفتے میں آئی ایس پی آر کی جانب سے قوم کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کیلئے ’’فتنہ الخوارج‘‘ کے الفاظ کا استعمال کریں اور سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لیے معزز الفاظ مثلا مفتی،مولانا، یا حافظ جیسے الفاظ اور القابات استعمال نہ کریں بلکہ ان کے ناموں سے پہلے خارجی کا لفظ استعمال کیا جائے۔یہ تمام اقدامات ریاست کی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ اس فتنہ سے ہمہ پہلو نپٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔تاریخ کے طلبہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ تنازعات کے دوران زبان، الفاظ اور اصطلاحات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔روس اور افغانستان کی جنگ کے دوران روس کے خلاف لڑنے والوں کو جہادی کہا جاتا تھا کیونکہ اسلام میں جہاد ایک احترام کے ساتھ لیا جانے والا لفظ ہے۔جبکہ مغرب ان جہادیوں کے لیے دہشت گرد کا لفظ استعمال کرتا تھا۔یوں ایک ہی عمل کرنے والے لوگوں کے متعلق پاکستان کے لوگوں کی رائے اور تھی جبکہ مغرب کے باشندے مختلف رائے رکھتے تھے۔اسی طرح خارجی کا لفظ بھی اپنے اندر ایک تاریخی پس منظر لیے ہوئے ہے۔تاریخ اسلام میں خارجی کا لفظ ایک حدیث مبارکہ میں بھی مذکور ہوا۔سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2188 باب الخوارج میں رقم ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’آخری زمانہ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نوعمر اور سطحی عقل والے ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر آر پار نکل جاتا ہے ''۔یہاں پر دین سے نکل جانے والوں کے لیے عربی میں خارجی کا لفظ استعمال کیا گیا۔ٹی ٹی پی سے وابستہ لوگوں کے عقائد و نظریات کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بلاشبہ اس تعریف پر پورا اترتے ہیں وہ معصوم مسلمانوں کو مارنے کے لیے قرآنی آیات کا سہارا لیتے ہیں خود کش بمبار تیار کرنے والوں کو جنت کی بشارتیں سناتے ہیں۔میری دانست میں پاکستان کی مسلح افواج نے صحیح معنوں میں اس مرض کی تشخیص کی اور اسکے درست علاج کی طرف قدم اٹھا۔یہ بحث اب پرانی ہو چکی ہے کہ طالبان کس کی تخلیق تھے،یہ تذکرہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ کبھی اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی تھی، یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ انہی طالبان کو کس نے مسلح کیا تھا، یہ بات بھی دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں سے لے کر واشنگٹن تک ان لوگوں کو کس نے رسائی مہیا کی۔ یہ بھی ایک کھلا سچ ہے کہ انہی طالبان کو پروان چڑھانے میں اندرونی و بیرونی عناصر نے اپنا کردار ادا کیا۔لیکن یوں لگتا ہے کہ پاک فوج نے اس تاریخی غلطی کو سدھارنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔عزم استحکام پاکستان آپریشن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر اس وقت بے شمار بوجھ ہیں جس طرح کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ معیشت سنبھالنے کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے ملک میں امن و امان کی صورتحال دیکھنا بھی انہی کے فرائض میں شامل ہے،ہماری اسٹیبلشمنٹ نالائق نااہل اور غیر مقبول حکومت کا بوجھ کب تک اٹھائے گی،یہ کہنا تو مشکل ہے البتہ فوج کی ہمت کو داد دینا پڑے گی کہ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اس قدر مصروفیت کے باوجود انہوں نے بڑی جانفشانی سے فتنہ خوارج کے خلاف پرعزم جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔عزم استحکام آپریشن جس طرح کہ بتایا گیا ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا اور صرف وہی لوگ اس آپریشن کا نشانہ بنیں گے جو ریاست پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں میں شریک ہوں گے یا ایسے عناصر جو ان خارجیوں کو اپنے ہاں پناہ دیں گے۔اب یہ جنگ مکاتب فکر کی جنگ سے بلند ہے،یہ جنگ صوبے اور شہر کی حدود و قیود سے بھی آگے نکل چکی ہے، اب یہ پاکستان کے استحکام کی جنگ ہے اور یہ ریاست کے استحکام کی جنگ ہے اور پوری قوم کو یکسو ہو کر ان خارجیوں کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا اور وہ تمام مکاتب فکر جو ان خارجیوں کو پناہ دیتے ہیں یا انہیں فکری غذا مہیا کرتے ہیں یا ان کے نظریات کے متعلق نرم رویہ رکھتے ہیں یا تو انہیں اپنی اصلاح کرنا پڑے گی یا ریاست کو ایسے عناصر کے خلاف بھی بھرپور ایکشن لینا پڑے گا۔

تازہ ترین