• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقسیم ہند کا اعلان ہوتے ہی وحشیانہ فسادات کی آگ نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لےلیا۔ صدیوں کے رشتے ناتے، محبتیں چاہتیں جل کر خاک ہوگئیں۔ ہندو، مسلمان اور سکھوں نے مکمل آزادی سے ایک دوسرے کو کاٹا، مارا، ذبح کیا، ہر طرف افراتفری، لوٹ مار، قتل و غارت گری کا راج تھا۔ حکومتی محکمے مکمل طور پر مفلوج ہو چکے تھے۔ ایسے میں جیلوں کا نظام چلانے والی منسٹری کے پاس وسائل نہیں تھے کہ جیلوں میں بند قیدیوں کے لئے خوراک، کھانے پینے کا بندوبست کر سکے لہٰذا آفت زدہ علاقوں میں جیلوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ خطرناک قیدیوں کے ساتھ اقبال بھی جیل سے باہر نکل آیا۔ اقبال کمیونسٹ تھا اور انگریز سرکار نے اسے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے الزام میں پابند سلاسل کردیا تھا۔ وہ جیل سے باہر تو آیا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ فسادات کی آگ میں جھلستا ہوا امرتسر کا رخ کرے یا لاہور جائے! چیخ و پکار، واویلا، آہ و فغاں اور ہر طرف بکھری ہوئی لاشوں سے اقبال کانپ اٹھا۔ تلواروں، خنجروں، کرپانوں، کلہاڑیوں ، بندوقوں اور پستولوں سے لیس قاتلوں کے جتھے نعرے بلند کر رہے تھے اقبال نے چھپتے چھپاتے ایک گردوارے میں جا کر پناہ لی گردوارے کے رکھوالے نے اسے دیکھ لیا اور پوچھا ’’کون ہے تو۔ ہندو ہے، مسلمان ہے،سکھ ہے؟ کون ہے تو؟‘‘
اقبال نے کہا ’’میں اقبال ہوں‘‘
’’کون اقبال، کیسا اقبال!‘‘ گردوارے کے رکھوالے نے پوچھا ’’تو محمد اقبال ہے؟‘‘ اقبال چند ہے؟ اقبال سنگھ ہے؟ کونسا اقبال ہے تو؟‘‘
اقبال نے کہا ’’کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میں صرف اقبال ہوں، انسان ہوں؟‘‘
مندجہ بالا اقتباس تھا خوشونت سنگھ کے ناول اے ٹرین ٹو پاکستان A Train to Pakistanکے ایک چیپٹر سے۔پچھلے ہفتے وہ ننانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے مگر خوشونت جیسے لوگ انتقال کر جانے کے باوجود منتقل نہیں ہوتے، وہ ہمارے درمیان ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ میں ان سے کبھی نہیں ملا لیکن ان کی کتابوں کی معرفت میں ان سے ملتا رہتا تھا۔ خبروں کے مطابق اب جبکہ خوشونت سنگھ اس دنیا میں نہیں رہے، میں ان سے ملتا رہوں گا۔ اس بات کا مجھے یقین ہے۔ یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں برٹرینڈرسل سے ملتا رہتا ہوں، میںولیم سیرویان سے ملتا رہتا ہوں، میں کرشن چندر سے ملتا رہتا ہوں۔
میں جب بھی لاہور جاتا ہوں تب حیرت اور تجسس سے گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف دیکھتا ہوں آگے بڑھ کر کالج کی کسی مقدس عمارت کو عقیدت مند احتراماً چھوتے ہیں،ہاتھ لگاتے ہیں۔ ادب، آرٹ، کھیل اور سیاست کے میدان میں گورنمنٹ کالج لاہور نے کیسی کیسی اعلیٰ ہستیوں کو جنم دیا ہے! خوشونت سنگھ اسی کالج میں پڑھتے تھے پھر انہوں نے کنگز کالج اور انرٹیمپل Inner Temple لندن سے بھی تعلیم حاصل کی۔ کئی برسوں تک لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد وہ 1947ء میں وزارت خارجہ سے منسلک ہوئے۔ کینیڈا اور لندن میں سفارتی ذمہ داریاں سنبھالیں اور یونیسکو پیرس میں ہندوستان کی جانب سے نمائندہ مقرر ہوئے۔ اس قدر اعلیٰ سول سروس اور عہدوں کے باوجود خوشونت سنگھ کے وجود میں چھپا ہوا تخلیقی جوہر ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ وہ سول سرونٹ بننے کے لئے اس دنیا میں نہیں آئے تھے۔ ان کو تخلیقی کام کرنا ہے پھر ہوا یوں کہ خوشونت سنگھ 1951ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ وہ صحافت کی دنیا میں اپنے ساتھ تخلیقی ادب کی ست رنگی کہکشاں لے آئے انہوں نے 1969ء میں بطور ایڈیٹر مشہور زمانہ السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا جوائن کیا اور دس برس تک ایڈیٹر رہے۔ قارئین کو اعلیٰ پائے کے ایڈیٹوریل اور تخلیقی کالم پڑھنے کو دیئے۔ اسی دوران خوشونت سنگھ نے تاریخ اور ادب میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے دو والیومز یعنی جلدوں میں سکھوں کی تاریخ لکھی اور کئی افسانے اور ناول لکھے جن میں سے اے ٹرین ٹو پاکستان اور دہلی بہت مشہور ہوئے اور لگاتار شائع ہو رہے ہیں۔ آپ کو شاید یہ سن کر تعجب ہو کہ خشونت سنگھ نے جوکس Jokes یعنی لطیفوں کی آٹھ دس کتابیں بھی پبلش کی تھیں۔ 1950ء سے 2014ء تک خوشونت سنگھ نے صحافتی ادب کو نیا اسلوب اور نرالا رنگ دے دیا۔ اسمبلی کے ممبر بنے۔ انہیں پدم بھوشن کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا۔ 1984ء میں امرتسر میں گردوارہ گولڈن ٹیمپل پرفوج کشی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خشونت سنگھ نے اپنا اعلیٰ اعزاز پدم بھوشن ہندوستان سرکار کو واپس کر دیا تھا۔ خوشونت سنگھ جیسے لوگ میڈیا کو معتبری دیتے ہیں۔
خوشونت سنگھ نے بھرپور طریقے سے زندگی گزاری تھی، زندگی کو جیا تھا۔ نڈر ہو کر لکھا تھا۔ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ ہندوستان کے بزنس ٹائکون Tycon اور صنعت کار برلا ہندوستان ٹائمز کے مالک تھے اپنی تحریروں میں خوشونت سنگھ ان کو طنزیہ طور پر اَن داتا کہتے تھے ایک مرتبہ برلا نے خشونت سنگھ سے پوچھا کہ سردار جی آپ کب ریٹائر ہوں گے؟ خوشونت سنگھ نے ہنس کر کہا تھا میں شمشان گھاٹ پہنچنے سے پہلے ریٹائر ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنے ارادے کے بل بوتے پرآخر تک لکھتے رہے۔ حیرت انگیز حد تک بیباک زندگی گزارنے والے خشونت سنگھ کی تحریروں میں شوخی، طنز اور کاٹ کے ساتھ پڑھنے والوں نے تصوف، زندگی اور موت کے بارے میں اظہار کی آمد تب محسوس کی تھی جب وہ ستر برس کی دہلیز پار کر کے آگے نکل گئے تھے۔ موت کو وہ پراسرار اور حیران کن واقعہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے موت کے بارے میں تجسس اپنا لیا تھا۔ موت کیا ہے؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ وہ غیر منطقی جواب قبول نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ گرو رجنیشں سے جن کو اوشو کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، خشونت سنگھ نے پوچھا تھا کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ گرو رجنیش نے لفظوں سے موت کے بعد کا منظر کھینچا۔ کیسے پاپ اور پُن یعنی گناہ اور ثواب ایک شخص کو نرگ اور سورگ یعنی جنت اور دوزخ تک پہنچائیں گے پھر یہ ہو گا ، پھر وہ گا وغیرہ وغیرہ۔
خوشونت سنگھ نے ہنس کر کہا ’’رجنیش، مرنے کے بعد کا منظر تم اس طرح بتا رہے ہو جیسے وہاں سے ہو کر آئے ہو‘‘۔
اس گفتگو کا ذکر اپنے ایک کالم میں کرتے ہوئے خشونت سنگھ نے لکھا تھا کہ موت اور مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ایک ایسا راز ہے، ایسا معمہ ہے جس کو حل کرنا امکان سے باہر ہے۔ موت کا معمہ انسان کو وسوسوں اور وہموں اور سنی سنائی باتوں پر مبنی عقیدوں میں مبتلا کرتا رہے گا۔ اس موضوع پر خشونت سنگھ اس قدر عمیق گہرائیوں میں اتر گئے کہ ان کی آخری تحریروں میں، میں نے انہیں مرنے کے لئے تیاری کرتے ہوئے محسوس کیا۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا تھا کہ آسانی سے اور ہلکا پھلکا مرنے کے لئے اپنے کندھوں سے بوجھ اتارو، قرضے اتارو، حقداروں کو حق دو، اشیا سے محبت کرنا چھوڑ دو، کچھ چھپا کر مت رکھو، اپنے خالی ہاتھ کھلے رکھو، موت آسان ہو جائے گی۔
تازہ ترین