• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھرپارکر میں موت کا رقص جاری ہے، بچے بھوک سے مر رہے ہیں کسی اعلیٰ حکومتی شخصیت نے ایک نجی محفل میں کہا کہ صرف بچے کیوں مر رہے ہیں، بڑے اور بوڑھے کیوں نہیں مرتے؟ ارے عقل کے اندھو! بچوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے، وہ جلد بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے نازک جسم تھر کی گرمی، بھوک اور پیاس برداشت نہیں کرسکتے۔ کون کہتا ہے کہ تھر انسانوں کی بستی ہے؟ وہ تو جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے والوں کی بستی ہے۔ ان کے رنگ تو دھوپ میں سڑ سڑ کے کوئلے سے بھی زیادہ سیاہ ہو چکے ہیں۔ کئی برس پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست جو کہ بہت سفید لال رنگ کے تھے، وہ تھر گئے تو وہاں دو بچے باقاعدہ ہمارے اس دوست کے بازوئوں کو رگڑ رگڑ کر دیکھتے رہے کہ یہ سفید رنگ کیسے ہے؟ ہائے انسان کی بے بسی اور حسرتیں، حسرت اور یاس کے مارے یہ لوگ، جنہوں نے زندگی بھر کبھی صاف اور میٹھا پانی نہیں پیا ہوگا؟ جن کی آنکھوں میں زندگی نہیں ہر وقت موت رقص کرتی نظر آتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں کی گھڑیاں پہن کے باہر کے ممالک کے برانڈڈ کپڑے اور کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں آکر غریبوں کے لئے آنسو بہانا۔ کیا یہ کسی کی غربت، بے بسی اور بے کسی پر بھیانک مذاق نہیں۔ ارے کانٹوں کی روٹی تو ایک دن کھا کر دیکھو، یہ گندا پانی پی کر تو دیکھو تو کئی سال بستر سے نہیں اٹھ سکو گے، کیسے قائم علی شاہ کے حلق سے سمندری پران اور قیمتی مچھلیوں کی غذا اترتی ہے؟
حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری یا کتے کا بچہ بھی بھوک پیاس سے مر جائے تو اس کی باز پرس عمرؓ سے ہوگی۔ حضرت عمرؓ 22 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض علاقے کے حاکم تھے۔ نہ تو اس وقت اتنے ذرائع مواصلات، کمیونی کیشن اور نہ آمدورفت آج جیسے تھے۔ آج تو حاکم وقت کو صرف چند سیکنڈ میں دنیا کے کونے کونے کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ یہ کیسے بے خبر حکمران ہیں جنہیں ’’امریکہ بہادر‘‘ کی ہر خبر ہے اور اپنے شہروں اور اضلاع میں قحط، خشک سالی، بھوک اور بیماری سے مرنے والوں کی خبر نہ ہوئی۔ انہیں یہ تو پتہ ہے کہ امریکہ سے کون آرہا ہے، کس قدر ہمیں خیرات ملنی ہے اور کتنی خیرات کہاں کہاں سے کب حاصل کرنی ہے۔ فنڈز کس طرح اور کس طریقے سے ہڑپ کرنے ہیں۔ جنگ کے مڈویک میں ایک دوست نے درست لکھا ہے کہ سندھ کا سپرمین اور ٹویٹر ماسٹر جس کی لانچنگ کے لئے ایک اشتہاری ایجنسی کو 85 کروڑ روپے ادا کر دیئے اور اس پر ٹیکس بھی نہیں کاٹا گیا، واہ حکمران تو ایسے ہوں۔ آپ صوبہ سندھ کے کسی شہر اور خصوصاً کراچی چلے جائیں۔ مجال ہے کوئی ترقیاتی کام ہوا ہو۔ ہر طرف ٹوٹی ہوئی سڑکیں، گندگی کے ڈھیر، پچاس پچاس سال پرانی عمارتوں میں ایسی لفٹیں نصب ہیں جو لفٹیں نہیں موت کے کنویں ہیں۔ کبھی وہاں کے کسی وزیر، مشیر اور وزیر اعلیٰ نے سوچا؟ سندھ فیسٹیول پر 5ارب روپے خرچ کرڈالے اور غریب کا نعرہ لگانے والے خاندان کے فرزند نے چارٹر طیاروں میں ناچ گانے والوں اور اپنے دوستوں اور احباب کو بلایا۔ ایک طرف موت کا رقص برپا تھا تو دوسری طرف آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا رقص جاری تھا۔ خوف خدا جاتا رہا۔ موہنجو ڈارو کے مٹتے ہوئے آثار کو بچانے کے لئے اربوں اس لئے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اس کام میں کئی لوگوں کی ’’دہاڑی‘‘ لگے گی۔ دوسری طرف انسانی زندگی مٹ رہی ہے۔ حکومت سندھ کے تین ادارے تھر میں زندگی کو بچانے کے لئے کام کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ان کے پاس فنڈز کی وافر مقدار ہے مگر یہ فنڈز تو کہیں اور کسی اور طرح خرچ ہو جائیں گے۔ تھر کی 99 فیصد آبادی کے پاس پختہ مکان بھی نہیں، گھاس پھوس کی بنی گول کھٹیاری میں رہنے والوں کو کیا پتہ کہ ان سے صرف تین سو میل دور ہر سہولت موجود ہے اور تھر کے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ اپنے تھر کے ساتھ ذرا بھارتی تھر پر نظر ڈال لیں کہ وہاں پر سہولتوں کا کیا عالم ہے۔ پورے مٹھی میں صرف ایک سرکاری اسپتال ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں بڑے بڑے پرائیویٹ اسپتال بنانے والوں اور مفت آپریشن اور خدمت کا دعویٰ کرنے والو تھر میں جا کر پرائیویٹ ہسپتال کیوں نہیں بناتے ہو۔ دو دو سو اسکولوں کے مالکان جو سیاست میں بھی ہیں وہ تھر میں بچوں کے لئے کیوں اسکول نہیں بناتے؟ تھر میں صرف 18فیصد شرح خواندگی ہے۔ 7 فیصد گھروں کو بجلی اور 3 فیصد گھروں کو لائن کا پانی ملتا ہے اور 0.5 فیصد لوگ گیس کے سلنڈر پر کھانا پکاتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی اور شوکت عزیز اس علاقے سے ایم این اے بنتے ہیں، ووٹ حاصل کرتے اور تقریریں کرتے ہیں پھر پلٹ کر وہاں جانا گوارہ نہیں کرتے۔ تھر میں صرف ایک چائلڈ اسپیشلسٹ ہے۔
ایک انگریز کرنل تھروٹ نے 1882ء میں تھر میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے کئی تالاب بنائے کسی حکومت نے ان تالابوں کی تعداد میں اضافہ کیا؟ کسی نے نئے تالاب بنائے۔ تھر کی زمین بے شمار کوئلہ اور معدنیات ذخائر ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تھر کے کوئلے سے سالانہ 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے تھر آج کا کوئی قحط کا شکار نہیں یہاں پر سینکڑوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ اس کی تاریخ کوئی 4 ہزار تو کوئی 10 ہزارسال پرانی بتاتا ہے ہمیں اس سے بحث نہیں کہ تھر کی تاریخ کتنی قدیم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس خطے کے باسیوں کے لئے کیا کیا؟ یہ خطہ ہزاروں من دودھ اور گوشت حیدرآباد اور کراچی کو فراہم کرتا ہے جب جانوروں خصوصاً مور مرنا شروع ہوئے تو کیوں نہیں وٹنری ڈاکٹر نے اس پر توجہ دی۔ اس نے بروقت اقدامات کیوں نہیں کئے؟ کیا حکومت سندھ اپنی اس غفلت کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہے۔کیا تعلیم صحت، صاف پانی اور زندگی دوسری سہولتیں اس علاقے کے لوگوں کا حق نہیں نیلسن منڈیلا نے واقعی سچ کہا تھا کہ جس قوم میں تعمیر اور تعلیم اور صحت کے شعبے منافع بخش کاروبار بن جائیں اسے دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی بقول حالی
غرض عیب کیجئے بیاں اپنے کیا کیا
کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
سندھ حکومت کو تو شرم نہ آئی البتہ یورپی یونین نے غذائی قلت کا شکار عورتوں اور بچوں کے لئے30 ملین پائونڈ کے پروگرام کا آغاز کا اعلان کیا ہے، اگر 30 ملین پائونڈ ’’امیر بھوکوں‘‘ سے بچ گئے تو شاید تھرپارکر کے اصل بھوکوں کو دو چار دن روٹی مل جائے اور عقل کے اندھوں ان بھوکے، پیاسے لوگوں کو نقد رقم نہیں بلکہ خشک سالی سے بچائو ان کے جانور مر رہے ہیں جو ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ان کو بچائو قیمتیں گاڑیوں میں تھر جانے والو! جب خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تو کوئی بنک بیلنس کوئی دولت کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ آج تھر کی ہر ماں اور باپ کے دل سے حکمرانوں کیلئے بددعائیں نکل رہی ہیں کہیں یہ بددعائوں کا سیلاب آپ کو بہا کر نہ لے جائے۔ یہ حاکم وقت ہیں جن کو رات کو چین کی نیندیں آ جاتی ہیں اور میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بیان بازی کرتے ہیں اور ذرا شرم نہیں آتی۔ تھرپارکر کے غریب لوگوں اور بچوں کا خون کس کے سر پر ہے؟ کون اس خون کا حساب دے گا؟
تازہ ترین