• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب میں نرسوں کی حالیہ ہڑتال کے بعد انہیں مستقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور ضروری قانون سازی کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس سے قبل ینگ ڈاکٹرز نے بھی اپنے مطالبات کے لئے پے در پے ہڑتالوں اور مظاہروں کا راستہ اپنایا تھا۔ ان کا جوش جوانی تو اکثر اوقات حدوں سے بھی باہر چھلک گیا۔ اپنی اس حکمت عملی سے وہ بھی اپنے بیشتر مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے۔ تدریس کے مقدس پیشے سے منسلک اساتذہ بھی اکثر و بیشتر یہی حربہ اختیار کرتے رہتے اور کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور حاصل کر لیتے ہیں۔ ایک زمانے میں پر جوش ہڑتالوں اور مظاہروں کا طریقہ کار صرف مزدوروں اور محنت کشوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں تک محدود تھا۔ اب یہ حد باقی نہیں رہی۔ ہڑتالوں ، مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ ان اداروں اور محکموں تک پھیل گیا ہے جہاں کچھ عرصہ قبل تک ایسی چیزوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کا حق دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارا دستور اور قانون بھی اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس حق کو نہ صرف باقی رہنا چاہئے بلکہ اس کا احترام بھی ہونا چاہئے لیکن ان احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے حوالے سے بہت سے سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس طرح کے مظاہرے اور دھرنے صرف سرکاری سیکٹر کے اداروں میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں بھی تو ہزاروں بلکہ لاکھوں اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح نجی ملکیت کے اسپتالوں اور نرسنگ ہومز میں بھی لاکھوں ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کام کر رہا ہے۔ کیا وہ اپنے حالات کار سے پوری طرح مطمئن ہیں؟ کیا ان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات ان کی اہلیت ، قابلیت اور ضروریات زندگی کے مطابق ہیں ؟ کیا انہیں ایک مقررہ وقت کے بعد خود بخود اگلے عہدے پر ترقی مل جاتی ہے؟ کیا انہیں کبھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں آیا کہ وہ اجتماعی احتجاج کی راہ پر چل نکلیں اور کام کاج چھوڑ کر سڑکوں پر آجائیں؟
بلاشبہ صورت حال اتنی اطمینان بخش نہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں کام کرنے والے ملازمین کو سرکاری سیکٹر کی نسبت کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں ایک مقررہ وقت پر حاضر ہونا ہوتا ہے اور ایک لمحے کی فرصت و فراغت بھی مشکل سے ملتی ہے۔نجی ملازمت کے باعث ان کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی رہتی ہے۔چھٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے اورایسا بھی ہوتا ہے کہ طے شدہ تنخواہ بھی بروقت نہیں ملتی۔ اس کے با وجود یہاں کام کرنے والے اساتذہ نہ کوئی حرف شکایت زبان پر لاتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف سڑکوں پہ نکل کر احتجاج کرتا ہے۔ اس محنت ، مشقت اور صبر شکر کے طرز عمل کا سبب صرف یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں آپ ایک کنٹریکٹ کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس کنٹریکٹ کی رو سے مالک کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو وہ ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ دے کر آپ کو فوراً ملازمت سے فارغ کر سکتا ہے۔ صرف یہ خوف ملازمین کو ضبط و تحمل سے کام لینے اور ساری توجہ اپنے فرائض پر مرکوز رکھنے پر مائل کرتا ہے۔ جبکہ سرکاری سیکٹر میں باضابطہ طریقہ کار کے تحت ملازمتیں حاصل کرنے والے خواتین و حضرات اپنے آپ کو فولاد کی طرح پختہ خیال کرتے ہیں اور عملاً وہ ہوتے بھی ہیں۔ اسی لئے ایسی نوکریوں کو ’’پکی نوکریوں ‘‘ کا نام دیا جاتاہے۔ پکی نوکری ایک طرح کا لائسنس خیال کی جاتی ہے۔ اس لائسنس کے حامل ملازم کے لئے یہ باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں کہ کیا وہ باقاعدگی سے کام پر جاتا ہے یا نہیں؟ وہ اپنے فرائض پوری محنت و دیانت کے ساتھ ادا کرتا ہے یا نہیں،وہ ملازمت کے تمام ضروری تقاضے بجا لاتا ہے یا نہیں۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کچھ کرے نہ کرے ، اسے نوکری سے نکالنا آسان کام نہیں۔
حکومت اپنی ضرورت کے مطابق مخصوص مقاصد کے لئے مخصوص مدت تک کچھ ملازمین کو عارضی طور پر بھی بھرتی کر لیتی ہے۔ ایسے افراد کو روزمرہ اجرت ، کنٹریکٹ یا ایڈ ہاک کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ مقصود یہ ہوتاہے کہ ہنگامی ضرورت پوری ہونے کے بعد انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔ ایسے ملازمین کو بھرتی کے وقت ساری صورتحال بتا دی جاتی ہے۔ اشتہارات میں بھی واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ ملازمت عارضی ہے۔ تقرر نامہ دیتے وقت بھی تحریری طور پر یہ سب کچھ واضح کر دیا جاتاہے۔ گویابھرتی ہونے والے ملازمین ایک عہد نامے کے تحت سرکاری ملازمت میں آتے ہیں۔ حکومت چاہے تو ان کے کنٹریکٹ کی معیار میں توسیع کر سکتی ہے ،انہیں مستقل طور پر جذب بھی کر سکتی ہے لیکن روش یہ چل پڑی ہے کہ ایک بار کسی عنوان سے سرکاری نوکری کے دائرے میں داخل ہو جانے والا شخص پھر اس سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اجتماعی مفاد کی خاطر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے حکومت کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومتیں سیاسی دبائو کی وجہ سے اس طرح کے مطالبات کے سامنے ٹھہرنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا بھی عموماً مقبول جذبات کی لہر میں بہہ جاتا ہے اور معاملے کی پوری غیر جانبداری کے ساتھ تصویر کشی نہیں ہوتی۔ نرسوں کے معاملے میں بھی کم و بیش یہی ہوا ہے ۔ ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ ان کی تقرری کن شرائط پر ہوئی تھی اور کون سی بات ان کے تحرک کا باعث بنی۔ اس معاملے سے جڑا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ حکومتی نظم بھی اتنا کھوکھلا کیوں ہو گیا ہے کہ ملازمین کی کارکردگی جانچنے کا کوئی موثر پیمانہ ہی وضع نہیں ہو سکا۔ ترقی کا واحد معیار یہ ہے کہ بس قطار میں لگ جائو اور اپنی باری آنے پراگلے گریڈ کی بس میں سوار ہو جائو۔ غالباً پاکستان ان گنے چنے ترقی پذیر ممالک میں سے ہے جہاں افراد کو ان کی پر فارمنس کے حوالے سے نہیں، ملازمت کے ماہ و سال کے حوالے سے جانچا جاتا ہے۔ حکومت کسی شخص کو ملازمت عطا کرنے کے بعد بھول جاتی ہے کہ اسے کوئی کام بھی کرنا ہے یا نہیں۔ ایک عرصہ سے کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ادارے ضرورت سے کئی گنا زیادہ ملازمین کے بھاری بوجھ تلے سسکیاں لے رہے ہیں ۔ سرکارکے انتظام میں چلنے والے آٹھ دس اداروں کو زندہ رکھنے کے لئے حکومت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے سالانہ دینا پڑتے ہیں۔ پی آئی اے ، اسٹیل مل ، واپڈا اور ریلوے جیسے اداروں کے خسارے میں جانے کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ بعض حکومتوں نے تو کئی کئی برس سے فارغ ملازمین کو بھی گھروں سے بلا کر نہ صرف دوبارہ ملازمتیں عطا فرما دیں بلکہ فراغت کے عرصے کی تنخواہیں بھی دے دیں۔ سرکار کا خزانہ دراصل عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے ۔ یہ ’’مال مفت‘‘ نہیں ہے کہ ’’دل بے رحم ‘‘کی طرح لٹا دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ملازمتوں کا ڈھانچہ بہتر بنایا جائے۔ اس کی انتظام کاری میں’’پکی نوکری‘‘ کو اہلیت، صلاحیت اور کارکردگی سے مشروط کر دیا جائے تاکہ نااہل اور نکمے ملازمین کی حوصلہ شکنی اور اچھی پر فارمنس دینے والے کی حوصلہ افزائی ہو۔ ایسا ہو گیا تو ہڑتالوں ، مظاہروں اور دھرنوں کے ذریعے سرکاری نوکری کی طرف لپکنے والوں کو بھی اندازہ ہو جائیگا کہ وہاں جا کر تنخواہ اور چھٹیاں ہی نہیں لینیں، کام بھی کرنا ہو گا۔
تازہ ترین