• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ سے خبر آئی ہے کہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر نئے ’’باڈی اسکینرز‘‘ نصب کر دیئے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر ٹرانسپورٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیکورٹی خطرات کے پیش نظر حکومت سمجھتی ہے کہ فوری طور پر اس طرح کے اسکینر نصب کرنے میں ہی بھلائی ہے ادھر وزیر داخلہ نے گزشتہ ہفتے پروگرام میں برطانوی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک ہنگامی بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے امکانات کا جائزہ لینے والے مشترکہ کمیشن نے عالمی خطرات جن میں دہشت گردی کے خطرے کو اوّلین حیثیت حاصل ہے، کو سنگین قرار دیا ہے اس لئے برطانیہ میں دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا خطرہ بڑھ گیا ہے لہٰذا مزید چوکس رہنے کی ضرورت بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ سیکورٹی لیول کو چوتھے بلند ترین لیول پر پہنچا دیا گیا ہے جو انتہائی سے محض ایک قدم پیچھے ہے۔ ہوائی اڈوں سمیت تمام حساس مقامات کی نگرانی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
برطانوی سیکورٹی ایجنسی ایم آئی فائیو کی ویب سائٹ پر اگست 2009ء سے مسلسل سیکورٹی لیول کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ ہوائی اڈوں کے عملے کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ افراد اور ان کے سامان کی ’’ہاتھوں سے تلاشی‘‘ کو یقینی بنائیں اس کے علاوہ ہوائی اڈوں پر سراغ رساں کتوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے کہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کو سونگھ یا چکھ کر یقینی بنائیں کہ ان میں کوئی دھماکہ خیز مواد یا منشیات تو شامل نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ دہشت گردی پر کمربستہ افراد کو اس مذموم کارروائی سے روکنا ممکن نہیں ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جس کے ذریعے سو فی صد اس طرح کے حملوں سے نمٹا جا سکے۔ ان خدشات کے پیش نظر برطانیہ ’’پیسنجر پروفائلنگ‘‘ کو ملک بھر میں استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ہوم ڈپارٹمنٹ اس امر کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا ’’اضافی ٹارگٹڈ پروفائلنگ‘‘ کی ہوائی اڈوں پر سیکورٹی میں مزید اضافے کے لئے کس حد تک ضرورت ہے اور مسافروں کو ہوائی اڈوں پر رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر سرچ کیا جا سکتا ہے؟ محکمۂ داخلہ کے مطابق ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ شناخت کی بنیاد پر پروفائلنگ کی اپنی حدود ہیں لیکن عوام کی زندگی اور آزادی کا تحفظ ہماری ترجیحی ذمہ داری ہے۔ محکمۂ داخلہ نے نئے اقدامات کے حوالے سے اتحادی ممالک کی جانب سے ظاہر کئے گئے ان تحفظات کا بھی ذکر کیا جس کے مطابق نئے اسکینرز کی تنصیب کے بعد بچّوں اور عورتوں (مردوں کا کوئی ذکر نہیں ہے) کی ننگی، برہنہ یا شرمناک تصاویر بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ اخبارات کے مطابق یورپی ممالک (اتحادی) کی حکومتوں نے ’’خلوت‘‘ کے بارے میں تفکرات و خدشات لاحق ہونے پر ہوائی اڈوں پر متعارف کرائے گئے نئے باڈی اسکینرز کا دفاع کیا ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ فرانکو فریتنی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہی وہ طریقہ رہ گیا ہے جس سے سیکورٹی کے جدید ترین تقاضے پورے ہونے کی امید ہے۔ واضح رہے کہ یورپی کمیشن 2008ء میں اس ’’شرمناک منصوبے‘‘ سے دستبردار ہو گیا تھا جس کے بعد ہر ملک اپنے طور پر ہاں یا نہ میں فیصلہ کرنے کے لئے آزاد تھا۔ کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ان اقدامات سے سیکورٹی کے تقاضے پورے ہوتے ہوں تو یہ فیصلہ یورپی قوانین کے منافی نہیں لیکن ’’سول رائلٹی گروپس‘‘ کی جانب سے اس کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ نئے اسکینرز سے مسافروں کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔دوسری طرف ملک عزیر ہنوز ’’میٹل ڈیٹکٹرز‘‘ پر زندہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میٹل ڈیٹکٹرز آج کل کے جدید دور میں پلاسٹک استعمال کر کے بنائے جانے والے بم کی سرے سے نشان دہی نہیں کر سکتا اور یہ کام ایکسپلوزو ڈیٹکٹر (Explosive Detector) کا ہے جس کی قیمت لگ بھگ تیس لاکھ روپے ہے اور یہ بھی اس وقت ناکام ثابت ہوتا ہے جب کسی بھی قسم کے دھماکہ خیز مواد کی ’’طبعی عمر‘‘ پوری ہو چکی ہو اور اس کے ساتھ اس کی مخصوص بو بھی ختم ہو چکی ہو۔ ایسے بموں یا مواد کی ڈیٹکٹر نشاندہی نہیں کر سکتا اور وہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان جو آلات خریدتی ہے وہ صرف دھات کی نشاندہی کر سکتا ہے، دھماکہ خیز مواد کی نشاندہی نہیں ہو سکتی۔ ماہرین کے مطابق اگر دھماکہ خیز مواد میں کسی بھی جگہ پر دھات استعمال کر کے اس کو مخصوص پلاسٹک کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیا جائے تو بھی میٹل ڈیٹکٹر ناکام ثابت ہوتا ہے۔ آج کل تو ڈیجیٹل گھڑیاں اور پن بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جن میں دھات کا استعمال برائے نام ہے جو ٹائم بم کے لئے بآسانی استعمال ہو سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں فائر آپٹک کے نظام میں بھی یہی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جس میں دھات کا عمل دخل انتہائی معمولی ہے لیکن اس میں سے بآسانی ’’کرنٹ‘‘ گزارا جا سکتا ہے۔ ایسے بموں میں دھماکہ خیز مواد ٹی این ٹی اور روسی ساخت کا بے حد خطرناک مواد PE-3A استعمال ہوتا ہے جبکہ ان دنوں تو ٹی این ٹی وغیرہ سے بھی زیادہ طاقتور دھماکہ خیز مواد امریکہ نے عراق اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے جسے C4 اور C6 کہا جاتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے لائی گئی یہ خطرناک قسم کی ’’ایجاد‘‘ سنتے ہیں القاعدہ اور طالبان کے ہاتھ بھی لگ چکی ہے۔ پاکستان میں ایسی بارودی سرنگیں بھی پائی گئی ہیں جو مکمل طور پر پلاسٹک سے تیار شدہ ہیں، ان میں صرف 2؍سے 3؍اونس دھماکہ خیز مواد ڈالا جاتا ہے اور بال پوائنٹ پن کی نوک کے برابر ڈینونیئر استعمال ہوتا ہے۔ اگر کسی کا پیر اس پر پڑ جائے تو اس کے جسم کے ٹکڑے 50؍میٹر کے فاصلے تک جا گرتے ہیں۔
اس تمام تر ملکی سیکورٹی کی صورتحال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں حکومت ناکام ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے یا پھر ہمارا معاشرہ تشدد، ابتری اور انتشار کو ’’انجوائے‘‘ کرنے لگا ہے۔ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے…؟
غرق تو ہونا ہے پر جتنی بھی مہلت ہے نصیب
ہم کوئی نقش ہی پانی پہ بنا کر دیکھیں!
تازہ ترین