• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اقتدار و اختیار کے مرکز و محور فریم سے نکلے،ریاستی کرتا دھرتاؤں کیلئے کتنا غور طلب اور سبق آموز ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ آئین و حلف سے کھلی بے وفائی کے نتیجے میں ملک کس درجے پر اور گھمبیر شکل میں سیاسی و اقتصادی عدم استحکام میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اب اڑھائی سال سے جاری اس ابتر کیفیت کے قریبی نکلتے ہی کتنے تشویشناک اور عوام و ریاست کو ایک دوجے سے منقطع کرنیوالے نکل رہے ہیں۔ بڑا موجود قومی اضطراب تو جیسے تیسے سیاسی و آئینی ارتقائی عمل میں حالات کے مطابق اچھی بھلی چلتی چلاتی حکومت کو اکھاڑنے سے پیدا ہوا جسکا فوری نوٹس عوام نے تو ملک گیر احتجاج سے بلاتاخیر لیا تھا لیکن ہارس ٹریڈنگ سے قائم ہونیوالی عجیب الخلقت ’’اتحادی‘‘ ماورا ئےآئین طویل دوراینے کی غیر آئینی نگران پھر فارم 45کی بجائے فارم 47سے بنی حکومت کے فوری نتائج تادم مسلسل نکل رہے ہیں۔ سخت متنازع اور قوم کو ناقابل ہضم مطلب موجود حکومت کے قیام کے ہی ابتدائی نتائج میں سے ایک موجود بڑا پُر آشوب بلوچستان نہیں ہے؟ جس پر غور فرمائیں! واپس آئینی ٹریک اور قومی دھارے میں آنے کےسازگار ماحول میں کافی کامیابی کے ریورس کےبعد آج مدت سے مبتلائے اضطراب صوبہ کتنی تشویشناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ موجود حکومت پر تو اب انحصار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ اسکے اقدامات اور اپنے ہی عوام کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے اور انہیں بنیادی حقوق (سے بھی) محروم رکھنے اور مزید کرنے کے مسلسل اقدامات نے اسے بلوچستان کے سیاسی و حکومتی عمل اعمال سےبھی پھر کاٹ دیا۔سلگتے اور اب لہولہان ہوتے بلوچستان کی صورتحال کو سنبھالنے کی حکومتی سوچ، اپروچ خود تشویشناک ہے۔ بلوچستان میں رواں ہفتے میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے بڑے فیصد میں یہ بھی اپریل 2022ءکے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مجموعی ڈیزاسٹر پالیسی، اقدامات اور سوچ ، اپروچ کا فوری شاخسانہ ہے۔ اس کا دوسرا اذیت ناک سیاسی پہلو 18سال پہلے صوبے میں ہونے والی وفاقی حکومتی اپروچ تھی جو مشرف، بگٹی پیدا ہونے والی چپقلش سے تیار ہوئی جو جنرل مشرف کی آمرانہ سوچ میں مرتکز تھی۔ ہر دو میں چپقلش کی وجہ ایک افسوسناک واقعہ اور پس پردہ کوئی حکومتی سیاسی نوعیت کا اختلاف تھا جس کو مینج کرنا آسان ترین تھا لیکن ہماری گورننس کی تاریخ کا یہ تلخ ترین حوالہ ہے کہ :بلوچستان کی 18سالہ مختلف اشکال میں اضطرابی، باغیانہ، اشتعالی اور دہشت گردی اختیار کر گئی کیفیت کے بڑے فیصد کی وجہ تنہا صدر جنرل مشرف کی ڈیزاسٹر میں ہینڈلنگ ہی تھی وگرنہ زیر بحث صدر مشرف اور سخت گروہیت پسند بلوچ سردار کے درمیان جو بھی حکومتی و سیاسی نوعیت کا اختلاف تھا اس میں بھی کمیونیکیشن چینل تو کھلا تھا، جس سے آخری کمیونیکیشن اکبر بگٹی کا چودھری شجاعت، سید مشاہد حسین اور جنگ سے وابستہ ممتاز کالم نویس ارشاد حقانی پر مشتمل مصالحتی کمیٹی کی تجویز سے چپقلش ختم کرنے کیلئے اکبر بگٹی کا اتفاق تھا (یاشاید انہوں نے خود ہی یہ نام تجویز کئے تھے) لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ صوبے کا ہی نہیں پاکستان کا بڑا غضبناک المیہ تھا۔ گویا آج کا پرآشوب بلوچستان ایک بڑے فیصلے میں 18سال قبل کی غیر آئینی حکومتی مس ہینڈلنگ کا دوررس نتیجہ ہے تو دوسری جانب اڑھائی سال سے ملک کے آئینی پٹری سے اترنے کے بڑے بڑے ابتدائی ڈیزاسٹرز میں سے ایک موجود وفاقی حکومت کی پریشان صوبے سے بے اعتنائی ہے۔

اگرچہ میڈیا نیوز کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف وزیر داخلہ کے ہمراہ آج (جمعرات) صبح ایک روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچ کر ایپکس کمیٹی کی صدارت کریں گے، اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہو گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جناب وزیر اعظم اور دوروں میں کمی کر کے مخصوص مدت میں ماہانہ یا دو ماہ میں ایک بار کوئٹہ کو اپنی گورننس کا ریگولر فیچر بناتے کہ حساس صوبہ، مدت سے اس کامتقاضی رہا ہے، اللہ کرے اب ان کا یہ دورہ دیرآید درست آید ثابت ہو، لیکن شہباز کابینہ کے وزیر داخلہ نے کوئٹہ پہنچنے سے قبل جو شاہکار بیان دے ڈالا اس سے بلوچستان کی حساس صورتحال کو سمجھنے والے ہر سمجھ دار کی انگلی نادانستہ دانتوں تلے آگئی اور فکر سے آنکھیں کھل گئیں، میڈیا نیوز کے مطابق دورہ کوئٹہ سے قبل ان کا پریشان کن بیانیہ ملاحظہ ہو ’’بلوچستان آپریشن کی ضرورت نہیں، دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں‘‘ لو جی! مسئلہ قصہ ختم، ایک ایس ایچ او کیا، پوری ملکی پولیس وزیر داخلہ محسن نقوی کی کمان میں ہے، ان سے دست بستہ استدعا ہے کہ بلوچستان کو دہشت گردی سے یقینی محفوظ کرنے کیلئے قوم و ملک پر احسان عظیم کرتے بلاتاخیر مطلوب تعداد سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں انسپکٹر ڈی ایس پیز بلوچستان تعینات کریں، تاکہ یہ جو چھوٹے بڑے مسلسل آپریشنز میں ہمارے جواں سال، وطن اور ماؤں کے پوت شہید ہونے کا خطرناک سلسلہ چل نکلا ہے وہ ختم ہو۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمجھیں کہ: شہباز حکومت پر واضح ہو کہ ہماری مشکل ترین اور ناگزیر ویسٹرن بارڈر مینجمنٹ میں آسانی اور بلوچستان میں امن اور ملک بطور قوم ناگزیر سیاسی استحکام برائے بحالی قومی معیشت کی طرف ابتدائی قدم اٹھانے کا ماحول اور عملی صورت پیدا کرنا ہنگامی ملکی ضرورت ہے، اس کے بعد متفقہ قومی اقدامات سے ہی آئینی عمل میں رہ کر ہی ایک ہما گیر قومی پالیسی کو مستقلاً اختیار کرنا ہوگا۔

مطلوب استحکام: ون پیج نہیں 352 ناگزیر!

گزشتہ سے پیوستہ

مخاطبین کرام! ’’آئین نو‘‘ کے اس جاری موضوع پر گزشتہ تین اقساط اور آج کے متذکرہ موضوع کے حوالے سے جاری گھمبیر ملکی آئینی بحران کے حوالے سے اس کی پس پردہ اور موجودہ وجوہات کے تناظر و تجزیے سے ہی بڑے درجے پر معطل آئین کی بحالی اور جاری سخت اور محدود و متنازع پریکٹس کو روک کر ہی پاکستان کو ’’ون پیج‘‘ سے نہیں سرزمین 352 صفحات پر مشتمل کتاب دستور سے چلا کر سرزمین آئین بنایا جائے۔ شدت سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت کو جگہ دے ، رہا کرکے وسیع البنیاد حل کی طرف آیا جائے۔ بہترین یہ ہو سکتا ہے کہ جبکہ متعلقہ ریاستی ادارے خود تقسیم، بے بس اور عوا م کی نظر میں بے اعتماد ہو گئے ہیں۔ سو متنازع قومی اسمبلی اور سینٹ میں سے ہی ہر پارلیمانی جماعت کے پوٹنشنل اراکین پر مشتمل نیشنل ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے، جوسب سے پہلے تو استحکام کیلئے مہلک سیاسی، ابلاغ کو ختم کرنے کا ضابطہ بنائے، ملک کو مکمل بمطابق آئین سنبھالنے چلانے کیلئے پہلے مکمل شفاف غیر جانبدار اور آزاد الیکشن کے انعقاد ہو یا 8فروری کے انتخابات کو آئینی عمل سے ریورس کرنے پر اتفاق ہو۔ یہ ہی بروقت وفوری عمل درآمد کا متقاضی عوامی انتباہ ہے۔ سو ڈیموکریٹک ایکشن پلان کی طرف آیا جائے، بصورت دیگر عوامی غیظ و غضب جس صورت میں پھٹ کر باہر آنے کو ہے، بہت کچھ ہو گا۔ سب سے برا ان کیلئےجو آئینی عمل میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان اب ایسی تبدیلی کا ہرگز متحمل نہیں۔ وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین