• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کے گھر میں آیات اور اشعار لکھے ہوئے پردے ٹنگے تھے۔ وقت مقرر تھا۔ اس کے گھر کے دروازے ایک گھنٹے کے لئے اور خاص مہمانوں کے لئے کھلے ہوتے تھے۔ ایک گھنٹے تک شام ارغوانی رہتی تھی اور یوں مہمانوں کو خدا حافظ کہہ کر وہ پڑھنے لگتا تھا۔ سر شام وہ کبھی سامنے کے لان میں اور کبھی لودھی گارڈن میں سیر کیا کرتا تھا۔ آپ سب سمجھ گئے ہوں گے، میں بات کر رہی ہوں خشونت سنگھ کی، جس نے 99 سال عمر پائی اور دنیا کو زندہ رہنے اور لکھنے کا ڈھنگ سکھا گیا۔ تقسیم ہند پر بہت کچھ لکھا گیا مگر جو کچھ انگریزی میں خشونت سنگھ نے لکھا وہ یادگار رہے گا۔ اس ایک ماہ مارچ میں شخصیات ہم سے جدا ہوئیں اس میں سب سے بڑا نام تو خشونت سنگھ کا ہی تھا، صرف پانچ دن پہلے مسعود عالم ہم سے جدا ہوئے۔ ذہین لکھنے والا جو بی بی سی کے ساتھ بھی کام کرتا رہا اور اخباروں میں کالم بھی لکھتا تھا۔ صرف چار دن پہلے رات کو بہت بارش ہو رہی تھی۔ اسلام آباد کی سڑکیں رات بارہ بجے کے بعد انسانوں کے نہیں سوئوروں کے قابو میں رہتی ہیں، بہت سی گاڑیوں کا رات گئے حادثہ، سوئوروں کے ٹکرانے سے ہی ہوتا ہے۔ بس مسعود عالم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کی بیوی عظمیٰ کو جب اطلاع ملی تو وہ بہت دور زندگی سے دور جا چکا تھا۔ ابھی اس جانکاہ صدمے سے جانبر نہیں ہوئے تھے کہ لاہور سے ترقی پسند دوست اور عملی طور پر انتہائی کام کرنے والے شخص یعنی جمیل عمر کے انتقال کی خبر ملک بھر میں گھوم گئی۔ جمیل عمر کا دل روز بروز ہی بیٹھتا چلا جا رہا تھا جیسے ہی کسی دھماکے کی خبر آتی، وہ ڈھے جاتا، آخری دنوں میں تو اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ اس سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔ پاکستان میں انقلاب لانے کا سوچنے والا پھر خود ہی خاموش ہو گیا جب اس نے دیکھا کہ حکومت تو طالبان سے مذاکرات کرنے لگی ہے اتنا بڑا ملک، مسلح جتھوں کے گروہ سے مذاکرات کررہا تھا۔
خشونت سنگھ نے تو بھرپور زندگی گزاری ہندوستان ٹائمز سے لیکر ویکلی اسٹریڈ آف انڈیا تک میں نہ صرف کام کیا بلکہ ان پرچوں کی حالت بدل کر رکھ دی۔ ہندوستان کے تمام صحافیوں کا دلارا تھا اور دونوں ملکوں کو امن کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ میری خشونت سنگھ سے ملاقات اجیت کور کے جلسے میں ہوئی تھی۔ ہم اکٹھے بیٹھے تھے ایک لمحہ بھی نہیں بیتا، خشونت سنگھ جی نے کہا ’’جلسہ ہوتا رہے گا تو مجھے پاکستان کے اسکینڈل سنا‘‘ کچھ خواتین کے نام لیکر بھی فرداً فرداً ان کا حال چال پوچھا۔ ان سب کی چال کے بارے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ بعد میں میری ملاقاتیں ، سعدیہ دہلوی اور کامنا پرشاد کے ساتھ ان کے گھر اس ایک گھنٹے کے دوران ہوتی رہیں جب صلائے عام کے لئے ان کا دروازہ کھلا رہتا تھا چونکہ وہ اردو، ہندی، گور مکھی اور انگریزی، یہ ساری زبانی روانی سے لکھتے اور پڑھتے تھے۔ اس لئے میری کتاب ’’تیری عورت کی کتھا‘‘ اور شاعری کا مجموعہ مگر یہ انگریزی میں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ سید بابر علی نے اپنے گھر دوپہر کو کھانے پر بلایا تھا۔ حنا نے مجھے کہا ’’تمہیں یاد کر رہے ہیں آجائو‘‘ بقول خشونت جی، ہم نے ’’ستھرا‘‘ کھانا کھایا کہ بابر علی کا گھرانہ صوفیانہ طریقت رکھتا ہے۔ پاکستان تو وہ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی آئے اور اپنی شام طریقت گزارنے کے بعد، وہ ضیاء الحق کے کھانے پر گئے ہندوستان میں جب اندرا گاندھی نے سکھوں کا دلّی میں قتل عام کیا۔ خشونت جی بڑے دل گرفتہ ہوئے اور انڈین گورنمنٹ کا اعزاز واپس کردیا۔ سکھوں کی تاریخ بہت منضبط طریقے پر لکھی ہے اور ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ ایسی کتاب ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
جمیل عمرنے اپنی ساری جوانی گلا دی کہ پاکستان میں لبرل خیالات کو فروغ دیا جا سکے۔ رجعت پسندی کو جیسے جیسے پھیلتا دیکھتا، اس قدر ہی زیادہ کوشش کرتے رہے کہ نوجوانوں میں نئی روشنی اور تازگی آتی جائے مگر جس ملک میں مذہب کے نام پر 32 سے زیادہ گروپ قائم ہوں اور اپنے اپنے مسلک کے لوگوں کی معاونت کرتے ہوئے ملک کی سوہنی دھرتی کو ریتلی مٹی بنا رہے ہوں وہاں عبداللہ ملک سے لیکر جمیل عمر تک کاغذوں میں اپنا آپ چھوڑ جاتے ہیں۔ لاہور قلعہ کی صعوبتوں نے جمیل عمر کی جسمانی قوت کو نچوڑ لیا۔ اس نے شادی بھی ایک افغانی خاتون نفیسہ سے کی جب نفیسہ پہ دو روز کا پولیس کا پیچھا کرنا گراں گزرا تو وہ افغانستان چلی گئی۔ جمیل عمر اسلام آباد اور قابل کے دوروں کے زمانے ہی میں دل کے آپریشن کے مرحلوں سے گزرتے رہے۔ بعد ازاں زندگی کو خیر باد کہا اور ایک جواں ہمت شخص، اعصاب شکن مرحلوں سے گزرتا ہوا اپنی یادیں چھوڑ گیا۔مگر کچھ باتیں کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ جاتی ہیں ہمارے بڑے چھوٹے بھائی رضا روحی پہ جو بہیمانہ حملہ کیا گیا۔ یہ یاددہانی ہے اصغر ندیم سید پر حملے کی۔یہ اعلان ہے کہ سب لکھنے والے اپنے قلم طاق پر رکھ دیں۔ مگر کیا زمانہ جاہلیت میں ادب اور شاعری نہیں تھی، بالکل تھی۔ آخر آپ نے امرالمقیس کا نام نہیں سنا۔ ہمارے نبی تو خنزہ کی شاعری کو بھی پسند فرماتے تھے۔ اگر یہ سب سچ ہے تو رجعت پسند قوتیں کیا چاہتی ہیں۔
یہاں مجھے پھر خشونت سنگھ یاد آگئے ہیں۔ وہ ہمیشہ حلال گوشت کھایا کرتے تھے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ میری استھیاں (خاک) میرے شہرہڈالی ہی میں دفن کی جائے۔ یہ ہوتی ہے وسعت ذہنی اور زمین سے محبت۔ ہمارے دوست رضا اور اصغر، یہ دونوں مطمئن ہیں کہ ایسے حملوں سے ہمیں اپنے یقین محکم سے ہٹایا نہیں جا سکے گا۔
اتنے سارے حادثات اور صدمات کے دوران مجھے ایک بہت عزیز ہستی یاد آرہی ہے اور وہ ہیں جمیل الدین عالی، کیا اعلیٰ ظرف ہیں کہ پچاس برس انجمن ترقیٔ اردو کو سنبھالنے کے بعد، ضعف عمری کی باعث اپنا عہدہ ہماری عزیزہ فاطمہ حسن کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہے۔ جس تندہی اور جانفشانی سے عالی جی نے کام کیا ہے توقع ہے کہ ہماری فاطمہ بھی اس مثال پہ قائم رہیں گی۔ انجمن ترقیٔ اردو میں ڈاکٹر اسلم فرخی اور مشفق خواجہ نے بھی بہت ذمہ داریاں سنبھالیں اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیں، فاطمہ حسن ذہین بھی ہیں اور ذہنی طور پر باشعور بھی یقیناً ہندوستان کی انجمن ترقیٔ اردو کی طرح ایسی مثال قائم کریں گی کہ لوگ سرکاری اداروں کو فراموش کر کے، انجمن کی جانب دیکھیں اور ساتھ ہی دارالترجمہ بھی قائم کریں کہ پاکستان کو ایک ایسے ادارے کی بے پناہ ضرورت ہے۔ سرکاری ادارے تو تنخواہیں لینے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ان کا نصب العین بھی کسی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا نہیں ہوتا۔ فاطمہ مبارک ہو!
تازہ ترین