• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کور کمانڈروں کوپاکستان کے سیاسی دفتر کی بھی غیر سرکاری نمائندگی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ کشیدہ صورت ِحال پر بات کرتے ہوئے کہنا پڑ اکہ دنیا بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لے ۔ افسران نے جو بھی کہا درست کہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اُن کے کرنے کا کام ہے؟لیکن پھر جس حکومت کا یہ کا م تھا ، وہ بے سدھ ، اور مفلوج پڑی ہے ۔ اس کے ذہن پر کچھ دیگر امور سوار ہوں گے ، جن کے لئے وزیر ِاعظم، جو اپنی پراسرار جراحت ِقلب کے بعد روبہ صحت ہیں، کی پی آئی اے کے خصوصی طور پر بک کرائے گئے بوئنگ 777سے لندن سے واپسی کے بعد لاہور میں کابینہ کی میٹنگ رکھی گئی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اس میٹنگ میںیہ تاثر دینے کی پوری کوشش کی جائے گی کہ ملک کی زمام ِ اختیار وزیر ِاعظم کے ہاتھ میں ہے ، وہی تمام قومی امور کے نگران ہیں، اور پھر کشمیر پر روایتی بیان وغیرہ دیا جائے گا۔ لیکن کیا لوگ اس حقیقت کو بھول جائیں گے کہ کور کمانڈروں نے اس پر پہلے بات کی تھی جبکہ وزیر ِاعظم اور کابینہ نے بعد میں؟آج کے پاکستان میں طاقت کی یہی حقیقت ہے ۔ فوج ہی حقیقی اتھارٹی ہے۔ یہ درست کہ اس نے ماضی کے برعکس اقتدار نہیں سنبھالا لیکن حقیقت میں اقتدار کا لیور اس کے ہاتھ میں ہے ۔ سویلین حکومت کے ہاتھ سے اختیار نکل چکا۔ اسے کچھ امور، جیسا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، پر بہت پہلے فعالیت دکھانی چاہئے تھی لیکن اُس وقت یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ دوسری بات یہ کہ پاناما گیٹ کی وجہ سے اس کی اخلاقی اتھارٹی تحلیل ہوچکی ہے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ حکومت کے پاس نہ تو پلان اے ہے ، نہ پلان بی۔ یہ صرف کلینڈر کی طرف سے دیکھتے ، اور نومبر کی فوری آمد کی دعاکرتے ہوئے اپنی قسمت کو س رہی ہے۔ حکومت کے سامنے حقیقی مسئلہ جنرل راحیل شریف اور اُن کی عوامی مقبولیت ہے ۔ دراصل پی ایم ایل ( ن) اقتدار کے دسترخوان پرکسی روک ٹوک کے بغیر دعوتیں اُڑانا چاہتی تھی۔ مشرف حکومت کے بعد اقتدار سنبھالناان کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی۔ لیکن ستم یہ ہوا کہ جنرل راحیل شریف کی وجہ سے دعوت کا تمام مزہ کرکرا ہوگیا۔
جنرل صاحب نے بہت وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ اُنہیں مدت ِملازمت میں توسیع میں دلچسپی نہیں ،چنانچہ وہ اپنے وقت پر، نومبر میں، رخصت ہوجائیں گے ، لیکن نوازلیگ کو اُن کی بات پر یقین نہیںآیا ۔ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، اور ن لیگ تو اوہام کے ہیولوں سے گھری ہوئی ہے ۔ اس کے رہنما اپنی خامیوں اور ناکامیوں کی طرف نہیں دیکھتے، وہ پاناما گیٹ کی طرف نہیں دیکھتے ، وہ اپنے مسائل پرصرف فوج کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اُنہیں عمران خان اور طاہرالقادری کے پیچھے بھی فوج کا ہی ہاتھ دکھائی دیتا ہے ۔ اور وہ چلّانے لگتے ہیں کہ جمہوریت ایک بار پھر خطرے میں ہے ۔ اُن کے اس وہمی بخار سے متاثر ہوکر کچھ میڈیا پرسنز نے بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ پاکستان میں سازش کی افواہوں کے خاتمے کے لئے جنرل صاحب ایک مرتبہ پھر اپنے موقف کا اعادہ کردیں کہ وہ توسیع نہیں لیں گے۔ ایک اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے ۔۔۔’’اس دوران ہم توقع کرتے ہیں کہ جنرل صاحب اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے ۔‘‘ کیا کہنے آپ کی دلیری کے، یقینا جنرل صاحب کو صائب مشورے ہی کی ضرورت تھی مبادا وہ جلدبازی میں کوئی غلط فیصلہ نہ کربیٹھیں، اردشیر کائوس جی مرحو م کا اخبار جنرل صاحب کو وعدہ یاد دلا رہا ہے، بہت اچھے ۔
شکوک و شبہات کا جامہ زیب تن کرکےبیٹھنے والی ان پاک طینت روحوں کومطمئن کرنے کے لئے مسلح افواج کے ترجمان، جنرل باجوہ ، جن کی ٹوئٹ مہارت کا ایک جہان قائل ہے ، کو چاہئے کہ تما م دیگر امور پس ِ پشت ڈال کر ہر ہفتے کم از کم ایک ٹوئٹ کردیا کریں کہ آرمی چیف مقررہ تاریخ کو اپنے منصب سے سبکدوش ہوجائیں گے ۔لیکن پھر اس میں بھی ایک مسئلہ ہے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں توشکوک کے پیکر وں کے دل پھر دھڑک اٹھیں گے، ’’اوہ، ہر ہفتے ٹوئٹ، دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے ۔’’ وہم کا علاج ہمالیہ کو اٹھا کر پھینک دینے یا صحرا کو پھونک مار کر اڑادینے جیسے آسان کاموں سے نہیں ہوتا۔ افعال ہائے ادق و عجب ایک طرف، تھوڑی سی سوجھ بوجھ سے البتہ کام چل سکتا ہے ، اگر لیگیوں سے اس کی توقع کی جاسکے ۔ وہ کیوں نہیں سوچتے کہ جنرل راحیل شریف توسیع لے کر انتہائی غلطی کریں گے ۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو ن لیگ اُنہیں بخوشی دے دیتی کیونکہ پھر وہ نہ صرف ان کے ممنون ہوتے ، بلکہ محنت و جانفشانی سے کمائی گئی تمام عزت بھی خاک میں مل جاتی۔ ایسا کرتے ہی ن لیگ کا ڈرائوناخواب ختم ہو جاتا، پاناما گیٹ کے بادل چھٹ جاتے ، ہر سو خوشیوں بھری روشنی پھیل جاتی۔
اس دوران ہمیں بھی خود کو حماقتوںسے دور رکھنا چاہئے ۔ توسیع کے معاملے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرکے آگے کی طرف دیکھنا ہوگا۔ ضرب ِعضب کے فاتح اور ایم کیو ایم جیسے مرض کا علاج کرنے والے کو کیا نواز لیگ کے ساتھ سمجھوتہ کرکے توسیع کی احتیاج ہے ؟ عقل اور شعور سے اتنی دستبرداری بھی درست نہیں۔ اگر ن لیگ اور اس کی میڈیا ٹیم کی عقل کی بات کی جائے تو اور بات ہے ۔ ان کے نزدیک تو ہر چیز، جیسا کہ پاناما گیٹس، ٹرمز آف ریفرنس، جوڈیشل کمیشن وغیرہ، کی آڑ میں اُن کے خلاف کوئی خوفناک سازش کی جارہی ہے ۔ حکمران خاندان کے لئے یہ خوف سوہان ِروح بن چکا ہے ۔ ہر روز ٹی وی پر اُن کے میڈیاسیل کالہجہ اس خوف کی غمازی کرتا ہے ۔ ہمارے ہاں چمچے ہوتے تھے، ہر حکومت کے ہوتے ہیں، لیکن موجودہ کٹلری اپنی مثال آپ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کے فرشتوںکو بھی علم نہ ہو کہ گڈ گورننس کسے کہتے ہیں لیکن میڈیا کے استعمال میں اس کی مہارت کا کوئی حریف نہیں۔ اس مہارت کے پیچھے طویل تجربہ بول رہا ہے ۔ یہ اس کھیل میں بہت دیر سے ہیں۔ پنجاب کے ’’فنکار ِاعلیٰ‘‘ کو دیکھیں ، وہ جوچاہیں بولتے رہیں، میڈیا اُنہیں شیر مار ہیرو، سمسن ہی سمجھتا ہے ۔
تاہم پی ایم ایل (ن) کی موجودہ مشکلات کا علاج شاید میڈیائی معالجوں کے پاس نہیں ہے ۔ جب اس نے تین سال پہلے منصب سنبھالا تو اس کے پاس تصورات کا فقدان تھا، آج بھی اس کے پاس قوم کو دینے کے لئے کوئی بیانیہ نہیں ہے ۔ زرداری اور پی پی پی اپنی مدت پوری کرتے ہی سیاسی طور پر تمام ہوئے ، پی ایم ایل (ن) کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے ۔اس کی کوتاہیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں، اس کی نااہلی کا جادوسرچڑھ کر بول رہا ہے ۔ چونکہ ان مسائل کا کوئی حل نہیں، کیونکہ آپ ماضی کے بوجھ کو اتارپھینک کر راتوں رات چرچل نہیں بن سکتے، چنانچہ پی ایم ایل (ن) کے بہی خواہ اپنی خرابیوں پر اسٹیبلشمنٹ کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج بہت سے امور میں لیڈ کررہی ہے ، لیکن اصل سوال اپنی جگہ پر کہ فوج کو یہ سب کچھ کرنے کا موقع کس نے فراہم کیا؟کس کی عدم فعالیت نے خلا پیدا کیا جس میں کسی اور نے قدم رکھ دیا۔ انھوں نے آگے بڑھ کر ضرب ِعضب شروع کیوں نہیں کی؟یہ اُس وقت کا انتظار کیوں کرتے رہے کہ فوج آگے بڑھ کر کراچی کو مافیاز سے پاک کرے ؟سمندر پار کس نے اکائونٹ کھولے، مے فیئر کی جائیداد کس نے خریدی ؟
اگر سچ پوچھیں تو 111 بریگیڈ نے پاکستانی جمہوریت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس کا تحفظ کیاہے ۔ اس نے جمہوری حکومت کو یہ جواز فراہم کیے رکھا کہ اُنہیں اپنی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی۔ جب نوازشریف صاحب کو 1993میں اقتدار سے چلتا کیا گیا تو وہ ایک مقبول لیڈر بن کرسامنے آئے ، جبکہ 1999 کے شب خون نے اُنہیں جمہوریت کا چیمپئن بنا دیا۔ اگر 2014 کے دھرنوں کے دوران اُن کی حکومت کی بساط لپیٹ دی جاتی تو وہ ایک مستقل شہید ِ جمہوریت بن جاتے ۔ اس وقت پی ایم ایل (ن) کو مدت مکمل کرنا ایک پیہم اذیت کی مانند محسوس ہورہا ہے کیونکہ اس کی کوتاہیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ لوگ بوئنگ 777 کی بکنگ، جاتی امرا کے گرد بم پروف دیوار اور اس طرح کی دیگر حرکتوںمیں پی ایم ایل (ن) کا اصل چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے حامی شرمندہ ہورہے ہیں، اس کے باوجود وہ فوج پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ اذیت جاری رہے گی جب تک پاناما کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتا اور ہم پاکستانی سیاست کو ایک نئی کروٹ لے کر سفر ِنو شروع کرتے نہیں دیکھتے ۔ اس دوران نومبر بھی آجائے گا ،جنرل راحیل شریف گھر چلے جائیں گے اور ن لیگ کچھ دیر اپنی خوش قسمتی پر شادیانے بجا لے گی۔لیکن کیا یہ ان کی خوش قسمتی ہی ہوگی ؟
تازہ ترین