• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی حکومت نے نئے مالی سال سے جائیداد کی خریدوفروخت کے ضمن میں جو طریقہ کار فنانس ایکٹ کی منظوری کے بعد وضع کیا ہے اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ جرم کو روکنے کے بجائے سرزد ہونے دیا جائے اور بعد میں غلط کاریوں میں ملوث افراد کو گرفت میں لانے کی کوشش کی جائے یعنی آئندہ بھی جائیداد کی حقیقی مالیت کے مقابلے میں انتہائی کم مالیت پر خریدوفروخت ہوتی رہے اور خریداری میں بڑے پیمانے پر کالا دھن استعمال ہونے کے باوجود جائیداد خریدار کے نام پر منتقل ہوجائے۔ یہ مکینزم جو اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ انصاف و قانون کے اصولوں کے خلاف ہے اور ناقابل عمل بھی ہے۔ یہ نظام ان ’’مقاصد‘‘ کے حصول میں کامیاب نہیں ہوگا جن کے نام پر یہ وضع کیا جارہا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر صرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصا ف کے انتخابی منشور پر عمل کیا جاتا تو یہ طریقہ کار وضع ہی نہ کرنا پڑتا اور کالے دھن کو محفوظ جنت کی فراہمی کا رستہ بھی بند ہو جاتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور 2013ء میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں چنانچہ ’’ریاست کو اس جائیداد کو اپنی ملکیت میں لے لینا چاہئے جس کی مالیت کم ظاہر کی گئی ہے‘‘۔
یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ وطن عزیز میں جائیدادوں کی فروخت کے معاہدے میں ظاہر کردہ قیمت ان کی حقیقی مالیت کا عشر عشیر ہوتی ہے۔ جائیدادوں کی قیمت فروخت کے معاہدے میں دکھلائی گئی رقم دراصل ضلعی حکومت کے مقرر کردہ ’’ڈی سی ریٹ‘‘ پر ہوتی ہے جو کہ مضحکہ خیز حد تک کم ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک بڑے شہر میں ایک پلاٹ کی مالیت مارکیٹ ریٹ کے مطابق 4کروڑ روپے ہے تو اس کی قیمت فروخت صرف 9لاکھ روپے دکھلائی جاتی ہے جو کہ ’’ڈی سی ریٹ‘‘ ہے۔ اس طرح اس پلاٹ کی خریداری میں 3کروڑ 91لاکھ روپے کے کالے دھن کو محفوظ جنت مل جاتی ہے جبکہ حکومت کو بھی ٹیکسوں کی مد میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کا واحد قابل عمل اور منصفانہ حل یہ ہے کہ وفاق کو صوبوں کے ساتھ مذاکرات کرکے یہ فیصلہ کرانا چاہئے تھا کہ صوبوں کو ’’ڈی سی ریٹ‘‘ کو جائیداد کی حقیقی مالیت یعنی مارکیٹ ریٹ کے برابر لانا ہوگا اور یہ عمل صوبہ پنجاب سے فوری طور پر شروع کرادینا چاہئے تھا۔ ہمارا وزیر خزانہ سے سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ راستہ کیوں نہیں اپنایا؟ یہ امر افسوسناک ہے کہ وفاق اور صوبوں میں برسراقتدار پارٹیاں اپنے منشور کے ان نکات پر عمل درآمد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جن سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ جائیداد کی کم مالیت کے ضمن میں تحریک انصاف کا موقف انتہائی سخت ہے لیکن وہ بھی منشور کے اس نکتہ پر عمل درآمد کرنے کو آمادہ نہیں ہے۔
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ جائیداد کی خریدوفروخت کے لئے نظام کے تحت جائیداد کی حقیقی مالیت کا تعین اسٹیٹ بینک کے منظور شدہ پینل میں شامل کمپنیاں کریں گی۔ اس سے کرپشن کا ایک زبردست طوفان آئے گا۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ اکتوبر 2002ء میں اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے طاقتور نادہندگان کو خصوصی طور سے فائدہ پہنچانے کے لئے پارٹنر شپ ایکٹ اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم قرضوں کی معافی کا سرکلر جاری کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک نے ان اثاثوں کی قیمت فروخت کے تعین کے لئے منظور شدہ تخمینہ کار کمپنیوں کی خدمات حامل کی تھیں۔ ا س سے کرپشن کا خوب بازار گرم ہوا۔ سپریم کورٹ نے 2007ء میں قرضوں کی معافی کے اسکینڈل کا خود نوٹس لیا اور اپنے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس جمشید کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ جمشید کمیٹی کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کے سرکلر کے ضمن میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کمیشن قرضوں کی معافی کے ضمن میں حقائق تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ کمیشن نے بہرحال اپنی رپورٹ میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ اثاثوں کی قیمت فروخت کا تعین کرنے والی تخمینہ کار کمپنیوں نے جو اسٹیٹ بینک کے پینل میں شامل تھیں دراصل بینکوں کے نادہندگان کے مفادات کا تعین کیا اور جائیداد کی قیمت انتہائی دکھلائی تاکہ بینکوں کے قرضوں کا بڑا حصہ معاف کیا جاسکے۔
یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر حکومت نے جائیداد کی خریدوفروخت کے ضمن میں ان اثاثوں کی حقیقی مالیت کے تعین کے لئے اسٹیٹ بینک کے پینل میں شامل کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر کرپشن کا راستہ کھلے گا۔ ہم وزیر خزانہ کو مشورہ دیں گے کہ وہ جمشید کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں تخمینہ کار کمپنیوں سے جائیدادوں کی مالیت کا تعین کرانے کے بجائے صوبہ پنجاب میں ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کے اقدامات کر یں۔ ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اپنے منشور کے مطابق صوبے میں اس جائیداد کو قومی ملکیت میں لے گی جس کی مالیت کم ظاہر کی گئی ہے مگر یہ توقع ضرور کرتے ہیں کہ وہ اپنے قوانین کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صوبے میں جائیداد کی فروخت کی قیمت اس کی حقیقی مالیت کے مطابق ہو یعنی صوبے کے مختلف علاقوں میں ڈی سی ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے قریب تر ہو۔ اس کے بعد سندھ ، پنجاب اور بلوچستان بھی ڈی سی ریٹ کو حقیقت پسندانہ بنانے پر مجبور ہوں گے اور فنانس ایکٹ میں حالیہ ترمیم بے معنی ہوجائے گی۔
اگر سپریم کورٹ قرضوں کی معافی اور سرکلر 29کے ضمن میں فیصلہ صادر کرنے میں مزید تاخیر نہ کرے تو جائیداد کی مالیت کے تعین کے ضمن میں ہونے والی متوقع غلط کاریوں ، غلط طریقوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کی وصولی ، اسٹیٹ بینک کے سرکلر 29 کے اجراء اور اس پر عمل درآمد کے ضمن میں ہونے والی سنگین بے قاعدگیوں کے ضمن میں احتساب کے تقاضے پورے ہوں گے اور زبردست نقصانات سے بچا جاسکے گا۔ 2004ء میں بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کا حجم 200 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 619؍ ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں سے تقریباً 500؍ ارب روپے کے قرضے ناقابل وصول ہیں۔ یہ حجم بینکوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
تازہ ترین