• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانیت کی فلاح و بہبود کا ایک باب ختم ہوا ،دوسروں کی جیت کے لئے کوشاں رہنے والا اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ،یتیم اور بے سہارا بچوں کو زندگی کا تحفہ دینے کے لئے بازاروں اور سڑکوں پر جھولی پھیلانے والا ان ضرورت مند بچوں سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا، چند دن پہلے بین الاقوامی سماجی ہنما عبدالستار ایدھی اپنے گھر بار کو ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو سوگوارچھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔عبدالستار ایدھی نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے جو کام کئے وہ رہتی دُنیا تک زندہ و جاوداں رہیں گے ، مرحوم جو کام کرتے تھے وہ کام ہماری حکومتوں اور ہر پاکستانی کو کر نا چاہئے تھا ، کیا اب ہماری حکومت اور ہم سب مل کر ایدھی صاحب کا جلایا ہوا فلاح و بہبود کا چراغ روشن رکھیں گے؟ عبدالستار ایدھی مرحوم کو بڑے اعزاز کے ساتھ زیر زمیں لٹایا گیا ، توپوں کی سلامی ، گارڈز آف آنرز ،پھولوں کے نذرانے ،دعائیہ کلمات اور لاکھوں ہاتھوں نے اللہ کی بارگاہ میں ان کے درجات کی بلندی کے لئے التجائیں کیں۔میںسلام پیش کرتا ہوں اپنی غیور افواج کو جو اپنے سپہ سالارراحیل شریف کی قیادت میںعبدالستار ایدھی کے سفر آخرت میں ساتھ ساتھ رہی ۔عبدالستار ایدھی مرحوم زندگی بھر دوسروں کی خدمت کرتے رہے ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں اپنا وطن چھوڑ کر بھاگنا پڑا تاکہ ان کی جان بچ سکے۔ جان کو خطرہ لاحق رہا ،ایدھی سینٹر میں ڈاکے پڑے لیکن مرحوم پاکستانیوں کی خدمت کے لئے اپنے وطن عزیزمیں ہی رہے ۔مرحوم جب بستر مرگ پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے تو اس دوران کئی ایسے سیاستدان بھی ان کی تیمارداری کو پہنچے جو کبھی ان کو اذیتیں دینے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ملنے والے میڈیا کو اطلاع کرکے یا سا تھ لے کر آرہے تھے جنہیں سب نے ایدھی صاحب کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لئے انتظار کرتے بھی دیکھا ،جس دن ایدھی صاحب نے وفات پائی اس دن میڈیا نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو آن لائن لیا ،فرمانے لگے ،میں ایدھی صاحب سے اسپتال ملنے گیا تھا تب وہ ایسی حالت میں نہیں تھے کہ بات کر سکتے ،انہوں نے مجھ سے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کیں جنہیں میںسمجھ سکتا تھا ،وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنا فرض نبھانے کی بھر پور کوشش کی ہے ،اس کے بعد وزیر محترم بات کو ٹال گئے اور یہ نہ بتایا کہ ایدھی صاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا پیغام دیا تھا ،ایدھی صاحب نے یقیناً یہی کہا ہوگا کہ جو کام حکمرانوں کا تھا وہ میں نے کیا ،اب میں جا رہا ہوں اس کام کو آپ کو جاری رکھنا ہے ،انہوں نے اپنی مدہم ہوتی ہوئی آنکھوں سے پاکستان کےعوام پر رحم کرنے کی اپیل کی ہوگی ،اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہوگا کہ میرے ملک کا خیال رکھو ، اس کو تباہ و برباد مت کرو ،میں نے سڑکوں پر لاوارث بچوں کی زندگی محفوظ کرنے کے لئے جھولے بنائے ہیں ،تمہارے دور حکومت میں انہی بچوں کو گولیوں سے بھُون دیا جاتا ہے ،میں نے پاکستانیوں کے لئے گلیوں بازاروں میں جھولیاں پھیلا کر امداد مانگی اور تم کیسے حکمراں ہو جو اپنے گھروں اور کاروبار کو بڑھانے کے لئے بڑی طاقتوں سے امداد مانگتے ہو۔ وزیر موصوف یہ پیغام بخوبی جان چکے تھے لیکن میڈیا پر بتانا پسند نہیں کیا ۔جس دن ایدھی مرحوم کو زمین کے نیچے رہنے کے لئے جگہ ملی اسی دن وزیر اعظم پاکستان کا جہاز پاکستان کی زمین پر اترا ، قدرت کا بھی کیسا قانون ہے کہ ایک مسیحا کو پھولوں کی چادر میں لپیٹ کر زیر زمین لٹا دیا گیا اور ٹھیک اسی وقت اور اسی دن سب سے زیادہ اختیارات کے مالک وزیر اعظم کو پاکستانی عوام میں لا کھڑا کر دیا گیا ،یا تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وزیر اعظم ایدھی مرحوم کے فلاحی کاموں کو جاری رکھنے کے احکامات جاری کریں گے یا وہ اپنی صحت یابی کی خوشی میں ترتیب دی جانے والی پارٹیوں میں جائیں گے ۔وزیر اعظم پاکستان عوام کی دعاوں سے صحت یاب ہوئے دیکھنا یہ ہے کہ وہ عوام کے لئے کیا کرتے ہیں ۔ان کے پاس تو بیرون ملک علاج کرانے کی سہولت تھی کیا اب وہ ان پاکستانیوں کے لئے ایسے اسپتال اپنے ملک میں بنائیں گے کہ جن کے پاس بیرون ملک علاج کرانے کی سکت نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایدھی مرحوم اپنی آنکھیں اس امید پر عطیہ کر گئے ہوں کہ وہ پاکستان کے کسی ایسے حکمراں کو دیکھ سکیں جو ملک کی ترقی کا باعث ہو اور جس کے دور حکومت میں کسی اور کو جھولی نہ پھیلانی پڑے ۔
تازہ ترین