• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں چند ایسے عالمی لیڈر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی دوراندیشی سے قوموں کی قسمتیں بدل ڈالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کے بعدپاکستان کو بھی ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں بین الاقوامی سطح کا ایک ذکی، فہیم، نڈر، دوراندیش اور انتہائی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا لیڈر دیا جن کی خداداد صلاحیتوں نے ملکی سیاست کو ایک نئی جہت بخشی۔ شہید بھٹو نے اپنے دور میں نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی جس کی بدولت آج پاکستان ایٹم بم رکھنے والا پہلا اسلامی ملک ہے۔ اس بارے میں برطانوی صحافی گورڈن کوریر نے اپنی کتاب ’’بم کے لئے خریداری‘‘ (Shopping for Bomb) کی پانچویں قسط میں انکشاف کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی ہتھیاروں پر صرف مغرب کی اجارہ داری کے خلاف تھے۔ پاکستان کا میزائل پروگرام، کامرہ ایرو ناٹیکل کمپلیکس، ہیوی مکینیکل کمپلیکس، مشاق ایئر کرافٹ، اسٹیل ملز، قراقرم ہائی وے اور بن قاسم پورٹ جیسے منصوبے شہید بھٹو کے عوام کو دیئے گئے تحفے ہیں۔ یہ قائد عوام ہی تھے جنہوں نے مزدور کو باعزت مقام دیا اور ملکی سیاست ڈرائنگ روم سے باہر نکال کر مزدوروں اور کسانوں تک لائے۔ یہ شہید بھٹوکا ہی کارنامہ تھا جنہوں نے مسلم امہ کے اتحاد کے لئے 1975ء میں لاہور میں تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے 38 ممالک کے سربراہوں کو اکٹھا کیا جس میں لگائے گئے نعرے ’’تیل بطور ہتھیار‘‘ نے مغربی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور شہید بھٹو کو مغرب کے لئے خطرہ سمجھا جانے لگا تھا۔
میں آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 35ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی دختر مشرق شہید بے نظیر بھٹو کی کتاب سے کچھ تکلیف دہ اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ ’’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں تو انہوں نے مجھے پنکی پکارتے ہوئے بتایا کہ ’’باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں آج تمہارے والد سے ملاقات کرلیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘یہ دن عمومی طور پر میری والدہ کے ملاقات کا دن تھا، انہیں ہفتے میں ایک بار ملنے کی اجازت تھی۔ میری ملاقات ہفتے کے آخر میں متعین تھی۔ اب وہ ہم دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے جانے کو کہہ رہے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ ضیاء نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔میرا ذہن تیزی سے حرکت میں آگیا۔ میں نے سوچا ہمیں ملک سے باہر عالمی رائے عامہ اور اپنے عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے۔ وقت ہاتھوں سے نکلتا جارہا تھا، میں نے والدہ کو کہا ’’انہیں بتادیں میری طبیعت ناساز ہے، البتہ اگر یہ آخری ملاقات ہے تو میں جانے کیلئے تیار ہوں‘‘۔ جب میری والدہ گارڈز کے ساتھ بات کرنے کیلئے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور کہا کہ وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچائو اور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لائو‘‘۔ میری طبیعت ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز پر ملتوی ہو گئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24 گھنٹے مل گئے لیکن بی بی سی نے اپنی خبروں میں یہ بتایا کہ کل 3 اپریل کو بھٹو صاحب کے ساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاج کی کال نہیں دی گئی جس نے ہماری آخری امید کو بھی ختم کردیا۔ اگلے روز ایک تیز رفتار جیپ میں ہمیں جیل پہنچا دیا گیا۔ آج تم دونوں اکٹھی یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘ میرے والد نے اپنی کال کوٹھڑی سے آواز دی۔ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ انہوں نے پوچھا’’میرا خیال ہے ایسا ہی ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ آخری ملاقات ہے؟‘‘’’ہاں‘‘ ۔’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘’’کل صبح‘‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔ ’’کتنے بجے؟‘‘’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘’’کل رات‘‘ اس نے رکتے رکتے جواب دیا۔میرے والد اسے نظر بھر کے دیکھتے ہیں۔اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے۔’’نصف گھنٹہ‘‘’’جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے‘‘ وہ کہتے ہیں۔’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔ یہ میرے احکامات ہیں۔ غسل اور شیو کرنے کیلئے انتظامات کرو‘‘۔ میرے والد اسے کہتے ہیں۔ ’’دنیا خوبصورت ہے، اسی حالت میں الوداع کہنا چاہتا ہوں۔‘‘’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ اس شخص سے ملاقات کیلئے۔ صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ سینے میں درد سے گھٹن محسوس ہوتی ہے، مجھے رونا نہیں چاہئے، مجھے اپنے ہوش بھی نہیں کھونے چاہئیں کیونکہ اس طرح میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔وہ چند سگار جو ان کے وکلاء چھوڑ گئے تھے میرے حوالے کرتے ہیں۔ ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں‘‘۔ شالیمار کولون کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی بھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں بے نظیر کے حوالے کردی جائے گی‘‘۔
’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں۔ ’’وہ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں اگر چاہو تو پاکستان سے اس وقت تک باہر چلے جائو جب تک آئین معطل ہے اور مارشل لا نافذ ہے۔ اگر تمہیں ذہنی سکون چاہئے اور زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتی ہو تو یورپ چلی جائو، میری طرف سے اجازت ہے۔‘‘ہمارے دل ٹوٹ رہے ہیں ’’نہیں نہیں‘‘ ممی کہتی ہیں۔ ’’ہم کبھی نہیں جائیں گے، ہم ملک چھوڑ کر چلے گئے تو اس عوامی پارٹی جس کی بنیاد آپ نے رکھی ہے کی رہنمائی کیلئے کوئی نہیں ہو گا۔ سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اسے کہتی ہوں۔’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو۔‘میں اپنے پاپا کو الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘ سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے۔سلاخوں کے درمیان سے میں اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ اس قدر نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن وہ سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو چھولیتے ہیں۔’’آج شب میں غلام دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘چہرے پر ایک چمکتی روشنی لئے کہتے ہیں۔الوداع پاپا! میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں اور میری ممی سلاخوں میں سے ان کو چھولیتی ہیں۔ ہم گرد آلود صحن میں سے گزرتے ہیں۔ میں مڑکے پیچھے دیکھنا چاہتی ہوں لیکن حوصلہ نہیں پڑتا۔ مجھے معلوم ہے میں ضبط نہیں کرسکوں گی۔‘‘ ہم جب پھر ملیں گے اس وقت تک خدا حافظ‘‘ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ 4 اپریل 1979ء کو صبح صادق سے بھی بہت پہلے راولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا۔ نیند کی گولیاں ویلیم جو میری والدہ نے مجھے کرب انگیز شب گزارنے کیلئے دی تھیں کھانے کے باوجود میں اپنے بستر سے گھبراہٹ کے عالم میں اٹھ بیٹھی۔ ’’نہیں پاپا نہیں‘‘۔ میرے رندھے ہوئے گلے میں سے چیخ نکل گئی۔میری والدہ اور میرے پاس ایک دوسرے کی تسلی کیلئے الفاظ بھی میسر نہیں تھے۔ہم دونوں صبح سویرے میرے والد کی میت کے ہمراہ جانے کیلئے تیار ہو گئیں۔ ’’ہم وزیراعظم کے ساتھ جانے کیلئے تیار ہیں‘‘ میں نے سامنے کھڑے خوفزدہ چھوٹے جیلر کو بتایا۔’’وہ انہیں دفنانے کیلئے پہلے ہی لے جاچکے ہیں لیکن کچھ بچا کھچا سامان تھا میں لے آیا ہوں‘‘ ’ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟‘‘ میں نے جیلر سے استفسار کیا۔میں نے اسے اپنے تھیلے میں ہاتھ مارتے دیکھا اور پھر اپنی جیبوں میں، آخرکار اس نے میرے والد کی انگوٹھی میرے حوالے کردی۔
مخلص دور اندیش، نڈر، قابل اور ذہین لیڈر کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی قائداعظم کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے لیکن افسوس کہ عالمی سازشوں کے تحت انہیں ہم سے چھین لیا گیا۔ شہید بھٹو نے ہمیشہ نظریات پر سمجھوتے سے انکار کیا۔ ٹیپو سلطان کا یہ قول ان کے مدنظر رہا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ شہید بھٹو اپنی جان کی قربانی دے کر ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے جس کا اندازہ مجھ سمیت لاکھوں عقیدت مندوں کے گڑھی خدا بخش میں آج کے اجتماع سے لگایا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین