• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت،طالبان مذاکرات میں مثبت اور قابل ذکر پیشرفت سے ملکی منظرنامہ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور مذاکراتی کمیٹیوں سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقاتوں میں طالبان کے مطالبات پر غور اور بات چیت بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ واقفان حال کاکہنا ہے کہ جنگ بندی میں غیر اعلانیہ توسیع تو ہو چکی ہے البتہ اس کا حتمی اعلان طالبان سیاسی شوریٰ آئندہ چند روز میں کرے گی۔ حکومت نے عندیہ دے دیاہے کہ وزیرستان میں فوج کی موجودہ پوزیشنوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور طالبان کے16 قیدیوں کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ مذاکراتی عمل تیزی سے آگے بڑھ رہاہے اور حکومت اور طالبان دونوں نے اس سلسلے میں عملی اقدامات کرنا شروع کر دیئے ہیں۔جب تک دوطرفہ مذاکراتی عمل چلتارہے گا اس وقت تک فریقین کا سیز فائر رہے گا۔قبائلی علاقوں میں فوجی پوزیشنوں کو تبدیل نہ کرنا بھی اہم اعلان ہے۔اس سے کچھ علاقوں کو ’’فری پیس زون‘‘ بنانے میں مددملے گی۔ جہاں حکومت،طالبان مذاکرات کے متعلق کمیٹیوں کی آزادانہ آمدورفت ہو سکے گی۔وزیر اعظم نوازشریف کایہ کہنا امید افزاء ہے کہ مذاکراتی عمل تیزی سے صحیح سمت میں آگے بڑھ رہاہے وہ اس حوالے سے قوم کو جلد امن کی خوشخبری سنائیں گے۔ طالبان نے اگرچہ کچھ اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیاہے لیکن وہ خلوص نیت اور صدق دل سے مذاکراتی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان میں حقیقی امن کے قیام کیلئے حکومت پاکستان کو طالبان کے تحفظات کو دور کرنا چاہئے اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنا چاہئے تاکہ مذاکراتی عمل بامقصد اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔ دوطرفہ سیز فائر سے ملک میں دہشت گردی کافی حد تک ختم ہو چکی ہے۔اب اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں حکومت اور طالبان دونوں فریقین کو زیادہ سنجیدگی اور محتاط طرزعمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
بدلتے ہوئے ملکی و سیاسی منظر نامے میں جماعت اسلامی میں نئی قیادت کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے ملک کی واحد دینی وسیاسی جماعت ہے جہاں جمہوری کلچر بڑا مضبوط ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کاانتخاب ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے۔خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینئر صوبائی وزیر سراج الحق کو جماعت اسلامی کا نیا امیر منتخب کیا گیا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں زبانی کلامی تو جمہوریت کی دعویدار ہیں لیکن ان کے اندر جمہوریت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے اندر موروثیت نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے ارکان جماعت ووٹ ڈال کر ہمیشہ بہتر قیادت کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کی ممتاز دینی و سیاسی جماعت ہے اور اس کی اسلام اور پاکستان سے وابستگی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ بانی جماعت سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قائم کی ہوئی جماعت اسلامی الحمدللہ ایک تناور درخت بن چکی ہے اور پاکستانی معاشرے پر اس کے انمٹ نقوش واضح نظر آتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ جیسی شخصیات تو صدیوں بعد پیداہوتی ہیں ان کے بعد میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن سب ہی بہترین صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔اب سراج الحق جیسے ہر دلعزیز اور عوامی سوچ رکھنے والے رہنما کا امیر بننا خوش آئند ہے۔یہ وہی سراج الحق ہیں جنہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ بنتے ہی جمعیت کو ایک نیارخ اور نیا آہنگ دیا تھا۔ یہ وہی سراج الحق ہیں جن کی سادگی اور درویشی کے اپنے اور پرائے سب قائل ہیں۔یہ سراج الحق ہی تھے جنہوں نے باجوڑ ایجنسی میں ڈمہ ڈولا کے مدرسے پر امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں 80حفاظ قرآن بچوں کی شہادت پر خیبرپختونخوا کی سینئر صوبائی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جماعت اسلامی کی طرح اگر ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اندر جمہوری کلچر پیدا کریں تو پاکستان میں جمہوریت زیادہ مضبوط ہو سکے گی۔ پاکستان میں جمہوریت تبھی برگ و بار لاسکے گی جب ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات ملے گی۔ حکومت اور طالبان دونوں کو اب قدم پھونک پھونک کراٹھانے ہوں گے کہ کوئی بیرونی تیسری قوت بڑھتے ہوئے اس مذاکراتی عمل کے آگے رخنہ نہ ڈال دے۔ یہ بڑا نازک مرحلہ ہے۔ ملکی و قومی مفاد میں اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔حکومت کوبھی طالبان کے اچھے اقدامات کامثبت طرز عمل سے جواب دیناچاہئے۔غیر عسکری قیدیوں کو رہائی دیکر حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرناچاہئے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے ہمیشہ سے پرامن رہے تھے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکہ نے جب قبضہ کیااس کے بعد ہمارے قبائلی علاقوں میں پے درپے امریکی ڈرون حملوں نے حالات کو خراب کیا۔ نوازشریف حکومت کی کامیاب حکمت عملی سے ڈرون حملے بھی رکے ہوئے ہیں اور طالبان سے مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکی ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کی منظوری ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ پاکستان کی قرارداد کے حق میں 27ممالک نے ووٹ ڈالے۔ امریکہ،برطانیہ اور فرانس سمیت6ممالک نے اس کی مخالفت کی۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملے عالمی قوانین کے پابند کئے جائیں۔ پاکستان کاموقف ہے کہ ڈرون حملوں میں عام شہری ہلاک ہوتے ہیں اور ڈرون حملے جغرافیائی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔اس وقت امریکہ دنیامیں سب سے زیادہ ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کررہاہے اور جن ملکوں کو ڈرون طیاروں کاہدف بنایا جا رہا ہے ان میں پاکستان، صومالیہ، افغانستان اور یمن شامل ہیں۔دنیامیں جہاں بھی ڈرون حملے کئے گئے ہیں وہاں اس کے ذریعے دہشت گردی میں اضافہ ہواہے اور معصوم اور بیگناہ انسانوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے۔ان ڈرون ٹیکنالوجی رکھنے والے ممالک کو پابند کرنا ہوگاکہ ڈرون حملوں کے ذریعے دنیا کاامن تباہ نہ کریں۔امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق 7سمبر2013ء کو افغانستان کی مشرقی سرحد پر واقع صوبہ کنٹر میں امریکی ڈرون حملے میں14عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی اخبار نے مزید لکھاہے کہ ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔اس ڈرون حملے کے ایک عینی شاہد جوکہ ہلاک ہونے والے گھرانے کا ہی ایک فرد تھا۔اس نے لاس اینجلس ٹائمز کوبتایا کہ ڈرون حملے کے بعد میرے گھرکے افراد کے جسموں کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔میں نے ان ٹکڑوں کو اکٹھا کیا اور ایک چادر میں باندھ لیا تاکہ اسے دفنایا جا سکے۔ عالمی ضمیر کب جاگے گا۔اس کافیصلہ تو اب ہوجانا چاہئے؟ڈرون حملوں کیخلاف عالمی سطح پر صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ ایسے ممالک کا عالمی برادری کو بائیکاٹ کرنا چاہئے جو انسانیت کاقتل عام کررہے ہیں محض خالی خولی قراردادیں پاس کر دنیا ہی کافی نہیں۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوئے۔ جنرل (ر) مشرف نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کئے لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوا۔ قوم کو ’’مکّا‘‘ دکھانے والے کو آخر کار عدالت کے آگے سرنگوں ہونا پڑا ہے۔ آج انہیں اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑرہی ہے۔ پرویزمشرف کی چارج شیٹ بڑی طویل ہے۔دومرتبہ انہوں نے آئین توڑا،لال مسجد میں سیکڑوں بچیوں کاقتل عام کیا،قوم کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی اور ان گنت لاپتہ افراد کو امریکہ کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض بیچا،نواب اکبر بگٹی اور امریکی ڈرون حملوں کے نتیجہ میں ہزاروں بیگناہ افراد کاقتل بھی ان کے ہی سر ہے۔ اب یہ نوازشریف حکومت کا امتحان ہے کہ کسی ڈیل کے نتیجے میں جنرل پرویزمشرف کو بیرون ملک نہ جانے دیا جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو نوازشریف حکومت کی اخلاقی ساکھ تباہ ہو جائیگی۔ اس طرح عدالتوں کے فیصلوں کامذاق بن جائیگا۔اس سے قبل بھی حسین حقانی کو اسی طریقہ واردات سے بیرون ملک بھجوایا گیا۔ وہ آج تک پاکستان واپس آکر عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ پرویزمشرف کانام ای سی ایل سے نکالے جانے کے کسی بھی اقدام کا چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو ازخود نوٹس لینا چاہئے۔ ایسے کسی بھی اقدام سے عدلیہ کی بے توقیری ہوگی اور عدل وانصاف کاخون ہو گا۔
تازہ ترین