• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18؍اکتوبر 2007ء کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو 8 سال کے بعد واپس آئیں تو کراچی میں ان کا استقبال کرنے کے لیے امڈ آنے والے انسانی سمندر میں ایک شخص ایسا بھی تھا ، جو ننگے پاؤں چل رہا تھا ۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ تم جوتا کیوں نہیں پہنتے ہو تو اس نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر دکھائی ۔ یہ ایک عجیب و غریب تصویر تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک بچے کا ہاتھ تھامے ننگے پاؤں چل رہے تھے ۔ بچہ بھی ننگے پاؤں تھا ۔ شلوار قمیض میں ملبوس بھٹو صاحب کا گریبان کھلا ہوا تھا اور سر پر جناح کیپ تھی ۔ اس شخص نے بتایا کہ یہ تصویر والا بچہ میں ہوں ۔ میں غریب تھا ، میرے والدین مجھے جوتا نہیں دلا سکتے تھے ۔ ایک دن میں لاڑکانہ کی گلی میں ننگے پاؤں جا رہا تھا کہ بھٹو صاحب نے مجھے دیکھا ۔ وہ گاڑی سے اترے ، اپنا جوتا اتارا اور میری انگلی پکڑ کر بہت دور تک سخت دھوپ میں میرے ساتھ چلتے رہے اور مجھ سے باتیں کرتے رہے ۔ آج میں ان کی بیٹی کے استقبال کے لیے آیا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جوتے نہیں پہننے چاہئیں۔ میں جب بھی ننگے پاؤں چلتا ہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شہید بھٹو میرے ساتھ چل رہے ہیں ۔ یہ صرف ایک ہی واقعہ ہے ، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آخر تھے کون ؟ ایسے بے شمار واقعات ہیں ۔ سندھ کے انتہائی محترم اور سینئر سیاست دان رسول بخش پلیجو بھی ایک ایسا واقعہ سناتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ 1971ء میں جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں حکومت سازی کے لیے کوششیں ہو رہی تھیں اور تمام ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھٹو صاحب کا مؤقف جاننے کے لیے انہیں تلاش کر رہے تھے تو ایک دن میں نے دیکھا کہ ٹھٹھہ کے قریب مکلی ریسٹ ہاؤس میں بھٹو صاحب غریب مقامی لوگوں کے ساتھ چٹائی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے معاملات طے کرا رہے ہیں ۔ پلیجو صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بھٹو صاحب کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ اس کے بعد میں وہاں بیٹھ گیا ۔ بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا لیکن بھٹو صاحب ان لوگوں کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ انہیں لوگوں میں سے ہیں ۔ اور ان کے معاملات پر ان کی طرح ہی باتیں کر رہے تھے ۔ پلیجو صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کافی دیر انتظار کیا ۔ اس کے بعد ان سے اجازت لے کرچلا آیا ۔ پتہ چلا کہ بھٹو صاحب شام تک وہیں چٹائی پر بیٹھے رہے تھے ۔ ایک اور واقعہ گذشتہ دنوں لندن سے آئے ہوئے ہمارے ایک دوست مشتاق لاشاری نے سنایا ۔ مشتاق لاشاری برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما ہیں اور رائل بارو آف کنزنگٹن اینڈ چیلسی کے ڈپٹی میئر بھی رہے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ چین کے وزیر اعظم چواین لائی پاکستان آئے ۔ راولپنڈی کے فلیش مین ہوٹل میں ایک پروگرام تھا ۔ وزیر اعظم چواین لائی کے ہمراہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہوٹل پہنچے ۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے پر ایک چھوٹے قد کا آدمی کھڑا تھا ۔ بھٹو صاحب نے چواین لائی کو وہیں روک لیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اس چھوٹے قد والے آدمی کے پاس لے گئے اور چواین لائی سے کہا کہ یہ ہماری پارٹی کے کارکن میاں سلطان محمود ہیں ۔ چواین لائی نے میاں سلطان محمود کے ساتھ ہاتھ ملایا اور کافی دیر تک گرم جوشی سے ہاتھ پکڑ کر ہلاتے رہے اور ان سے گپ شپ کرتے رہے ۔ جب تک بھٹو صاحب وہاں کھڑے رہے ، چواین لائی بھی ان کے ساتھ ہی کھڑے رہے ۔ لاڑکانہ کے لوگ بھی ذوالفقار علی بھٹو کے کئی واقعات سناتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاڑکانہ کے جمعہ فقیر کے ساتھ بھٹو صاحب کی دوستی تھی ۔ جمعہ فقیر کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ کسی بھی وقت ’’ المرتضیٰ ‘‘ لاڑکانہ میں آ سکتے تھے ۔ جمعہ فقیر کے ساتھ دو کتے بھی ہوتے تھے ۔ فقیری لباس میں جمعہ فقیر بلا روک ٹوک المرتضیٰ آتے جاتے تھے ۔ ان کے کتوں کو بھی کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ بھٹو صاحب کو جب پتہ چلتا تھا کہ جمعہ فقیر آئے ہیں تو وہ انہیں اندر بلا لیتے تھے اور گھنٹوں ان کے ساتھ گپ شپ کرتے تھے ۔ جمعہ فقیر جب وہاں ہوتے تھے تو بھٹو صاحب کے بلند قہقہے سنائی دیتے تھے ۔ ایک دفعہ تو حد ہو گئی ۔ ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی وزیر اعظم بھٹو کے ساتھ لاڑکانہ آئے ۔ جب ان کی گاڑیوں کا قافلہ لاڑکانہ میں داخل ہونے لگا تو بھٹو صاحب کی نظر سڑک پر جاتے ہوئے جمعہ فقیر پر پڑی ۔ بھٹو صاحب نے حکم دیا کہ گاڑیوں کا قافلہ روک دیا جائے ۔ گاڑیاں رکیں تو بھٹو صاحب نے گاڑی سے اتر کو جمعہ فقیر کو آواز لگائی اوران کی جانب بڑھ کر ہاتھ ملایا ۔ پھر جمعہ فقیر کا ہاتھ پکڑ کر شہنشاہ ایران کی طرف لے آئے ۔ اسی اثناء میں شہنشاہ ایران بھی گاڑی سے اتر چکے تھے ۔ بھٹو صاحب نے شہنشاہ ایران سے کہا کہ ان سے ملیں یہ میرے لاڑکانہ کے دیرینہ دوست ہیں ۔ شہنشاہ ایران نے بھی جمعہ فقیر کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔ مذکورہ بالا واقعات اس زمانے میں رونما ہوئے ، جس زمانے میں ایسا میڈیا بھی نہیں تھا ، جو ان واقعات کی تشہیر کر سکے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی بھر کا یہی معمول تھا ۔ وہ اپنا بیشتر وقت عام لوگوں کے ساتھ گذارتے تھے ۔ وہ ایسا کیوں کرتے تھے ؟ اس سوال کا جواب آج ان کی تقریروں اور تحریروں کو پڑھ کر ملتا ہے ۔ بھٹو صاحب کو اس بات کا یقین تھا کہ انسانی سماج میں موجود تضادات ، تاریخ ، فلسفہ اور سیاست کو سمجھنے کے لیے اپنے عہد کے سب سے مظلوم اور محروم طبقے کی بات کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ بات اپنے وجود پر واردات کی طرح اترے تو سمجھ آتی ہے ، ورنہ نہیں ۔ اس کے لیے خود مظلوم اور غریب ہونا بھی ضروری ہے ۔ بھٹو غریب تو نہ تھے لیکن اپنے مراعات یافتہ طبقے کے باغی تھے اور غربت و بے بسی کو واردات کی طرح اپنے وجود پر طاری کرکے وہ اعلیٰ شعور حاصل کرتے تھے ، جو انسان ذات کی آزادی اور نجات کی راہ دکھاتا ہے ۔انہیں پتہ تھا کہ وہ کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طبقے کا کردار کیا ہے ۔ 10 جولائی 1962ء کو وفاقی وزیر کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’ آج مجھے ایک وزیر کی حیثیت سے یہاں خطاب کا موقع ملا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میرا اس طبقے سے تعلق ہے ، جسے خصوصی حقوق و مراعات حاصل ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے طبقے کے اکثر لوگ اس نظام کی سلامتی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ، جس نظام میں بے شمار خامیاں ہیں اور جس میں خطرناک سمجھوتے اور سازشیں ہوتی ہیں ، جن سے عوام کو نقصان پہنچتا ہے ۔ ہم اپنے مخصوص مفادات کے باعث غربت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہم غریبوں کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں ۔ کیا بہتر ہو کہ ہم کسی بڑے سانحہ سے پہلے ان کے بارے میں سوچیں ۔ ‘‘ میاں سلطان محمود کے لیے چواین لائی کو روکنے اور جمعہ فقیر کے لیے شہنشاہ ایران کے قافلے کو روکنے کی بات صرف عوام سے سچا عشق کرنے والوں کو سمجھ آ سکتی ہے ۔ اسی پر عشق سجتا ہے ، جو اندر سے قلندر ہو ۔ اگر آپ غریب اور مظلوم ہیں تو آپ کو اور زیادہ سمجھ آئے گا کہ بھٹو نے ایسا کیوں کیا اور اس سے اپنے طبقے کے باغی کو زندگی کا کیا لطف حاصل ہوا ۔ زندگی کا یہ لطف شاید طویل عمر پانے والے عبدالحفیظ پیرزادہ ، شریف الدین پیرزادہ اور جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی حاصل نہیں کر سکے ہوں گے ۔آج بھٹو کے 36 ویں یوم شہادت پر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ
مہرو مہ ، انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں ، راکب ہے قلندر
تازہ ترین