• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہلی کے سید زادے کا نورانی چہرہ دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کئی صدیاں بیت گئیں مگر زمانے کا اب بھی وہی دستور ہے کہ سچ بولنے کی سزا بھگتا پڑتی ہے۔سقراط کو حق گوئی کی پاداش میں سزائے موت سنادی گئی اور زہر کا پیالہ پیش کیا گیا تو اس کے شاگرد رو پڑے۔ سقراط نے پوچھا روتے کیوں ہو؟چاہنے والے نے جواب دیا،یہ سوچ کر روتا ہوں کہ آپ بے قصور مارے جا رہے ہیں۔سقراط نے جاتے جاتے بھی جملہ جڑ دیا۔کہنے لگا،بہت خوب تو تمہاری کیا آرزو ہے کہ میں قصوروار کی حیثیت سے مارا جائوں۔۔۔!!!منصورہ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں گوشہ نشین سید زادے کے چاہنے والے بھی مغموم ہیں کہ انہیں عہد حاضر کا سقراط ہونے کی سزا دی گئی۔مگر اس درویش صفت انسان کی آنکھوں میں آسودگی و طمانیت نظر آتی ہے کہ شکر ہے اسے حق گوئی کے ارتکاب پر راندہ ء درگاہ ٹھہرایا گیا۔اگرچہ میں جماعت اسلامی کے طریق انتخاب سے واقف ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ یہ فتح یا شکست کا معاملہ نہیں ہوتا۔یہاں تو وہ شخص سجدہ ء شکر بجا لاتا ہے جسے ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد کر دیا جاتا ہے اور وہ شخص جسے قیادت کے لیئے چن لیا جاتا ہے وہ مضطرب اور بے چین دکھائی دیتا ہے لیکن ان درخشندہ روایات کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان نے ان کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔اگر جماعت کی شوریٰ خرابی صحت کی بناء پر ان کا عذر تسلیم کر لیتی تو اچھا ہوتا کہ بھرم رہ جاتا ۔اگرچہ بیلٹ کے ذریعے کسی جماعت کے سربراہ کو امارت کے منصب سے الگ کیا جانا اور پھر اس شخص کا پارٹی سے الگ ہو کر کوئی نئی جماعت یا نیا دھڑا بنانے کا علان کرنے کے بجائے نو منتخب امیر کی اطاعت پر تیار ہو جانا بھی ایک تابندہ اور انوکھی مثال ہے جو ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت میں کہیںنظر نہیں آتی،اس سید زادے کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ جبر ناروا سے مصلحت کے فن سے نا آشنا تھا۔یہاں جو لوگ سچ بولنے کا دعویٰ کرتے ہیں ،اس قدر دودھ میں پانی نہیں ملایا جاتا جس قدر ان کے سچ میں جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے۔ایسے میں کوئی سقراط کھرا سچ کہنے کی حماقت کر بیٹھے تو اسے زہر کا پیالہ دینا ہی پڑتا ہے۔خدا جانے یہ افواہ تھی یا واقعتا دھمکی ،مگر جماعت کے ارکان باالخصوص پنجاب کے ارکان میں سرگوشیوں کا سلسلہ کئی ماہ سے جاری تھا کہ اگر منور حسن دوبارہ امیر بن گئے تو مقتدر حلقے ناراض ہو جائیں گے اور جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی جائے گی۔یہ اندیشے اور وسوسے بھی تھے کہ مصر میں اخوان المسلمون کے کارکن صبر و استقامت کا پہاڑ تھے اگر اس پہاڑ کو فوج نے ریزہ ریزہ کر دیا تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔
جماعت کے طرحدار ترجمانوں کے پاس تاویلیں اور دلیلیں بہت ہیں مگر دل میں اتر جانے والی بات ندارد۔استدلال یہ ہے کہ بھلا ایجنسیاں جماعت کے انتخابی عمل پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟اگر ایجنسیاں کسی کے جلسے میں لاکھوں افراد کو جمع کرسکتی ہیں ،کروڑوں ووٹرز کی رائے پر اثرانداز ہو سکتی ہیں تولگ بھگ 32000 ارکان کو منیج کیوں نہیں کیا جا سکتا؟جو لوگ خفیہ اداروں کے طریق کار سے واقف ہیں ،انہیں معلوم ہو گا کہ کس طرح غیر محسوس انداز میں فضاء ہموار کی جاتی ہے۔جب قاضی حسین احمد نے اسلامک فرنٹ بنایا تو مشاورتی عمل میں شریک افراد کے ساتھ یہی طے پایا کہ بھرپور انتخابی مہم چلانے کے بعد دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بائیکاٹ کر دیا جائے گا اور پھر مسلسل پانچ سال عوام میں رہتے ہوئے آئندہ انتخابات کی تیاری کی جائے گی۔لیکن اسی اثناء میں ایک بریگیڈئر صاحب منصورہ تشریف لائے اور حلقہ بندیوں کا چارٹ سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ قومی اسمبلی کی 41نشستوں پر آپ کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں ۔قاضی صاحب اس جھانسے میں آ گئے اور الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔مگر اس الیکشن میں کیا ہوا ،یہ آپ سب جانتے ہیں۔ایک طرف تو یہ منطق پیش کی جا رہی ہے کہ جماعت کے اراکین نے اپنا حق راے دہی استعمال کرتے ہوئے جمہوری انداز میں اپنے امیر کی پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے اور دوسری طرف جب یہ کہا جاتا ہے کہ منور حسن امریکہ کی جنگ لڑنے والے فوجیوں کو شہید تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے معتوب قرار پائے اور سراج الحق کو سوفٹ امیج کے طور پر سامنے لایا گیا تو فوراً پہلی تاویل کے برعکس دوسری دلیل دی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی کی پالیسیاں ایک شخص نہیں بناتا ۔جمہوری روایات کس قدر توانا کیوں نہ ہوں لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قائد کا وثرن اور سوچ ہی کا نام پارٹی پالیسی ہوا کرتا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ تبدیلی کبھی دیکھنے کو نہ ملتی ۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ منور حسن کی قیادت میں جماعت اسلامی کا سیاسی قد کاٹھ کم ہوا اور اس کی وجہ سیاسی بصیرت کی کمی تھی۔مثال کے طور پر کراچی میں الیکشن کے بائیکاٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھائے گئے۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے لاہور میں ناشتے کی نشست پر میرے استفسار پر بتایا تھا کہ بائیکاٹ کا فیصلہ کراچی کی مقامی قیادت نے کیا ،اس میں منور حسن کا کوئی کردار نہیں تھا۔اور اگر بائیکاٹ کی سیاسی غلطی رد کیئے جانے کی وجہ قرار پاتی تو پھر قاضی صاحب مرحوم جنہوں نے یہ بلنڈر ایک سے زائد مرتبہ کیا،وہ بھی دوبارہ منتخب نہ ہو پاتے۔لاہور میںلیاقت بلوچ،فرید پراچہ اور سلمان بٹ جیسے قائدین اپنی نااہلی کی وجہ سے ووٹ نہ لے سکے اور سبکی کا باعث بنے تو اس میں منور حسن کا کیا قصور؟اس سید زادے کی خطاء تو یہ ہے کہ وہ زہر ہلاہل کو قند نہ کہ سکا،سچ کہے بغیر نہ رہ سکااور انہیں ناراض کر دیا جن کی خوشنودی ہر سیاسی و غیر سیاسی جماعت کو عزیز تر ہوتی ہے۔وہ مرد قلندر حالات کے قدموں میں گرنے اور وقت کے خدائوں کے آگے جھکنے کو تیار نہ ہوا۔ یہ ہمارے عہد کا منصور ہے جس نے مصلحتوں کی زنجیریں پہننے سے انکار کر دیا ۔یہ ہمارے دور کا سقراط ہے جس نے سچائی پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ سادگی، تقویٰ، ایثار، علم و فکر، قربانی ، اخلاص الغرض کسی اعتبار سے نومنتخب امیر اور سابق امیر کا موازنہ کیا جائے تو تمام تر اصاف کے حامل سراج الحق کی برتری و فوقیت نظر نہیں آتی۔اس غیر متوقع فیصلے کی بس ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ ہے مقتدر حلقوں کی ناراضگی کا خوف۔ افسوس ،مولانا مودودی کے پیروکار بھی اندیشوں کے اسیر ہو گئے۔بہتر ہو گا اب آدھا تیتر آدھا بٹیر کی بجائے اب انقلاب کے بجائے انتخاب کو ہی حرز جاں بنالیا جائے اور سراج الحق قاضی حسین احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کو ایک مقبول سیاسی جماعت بنانے کی ٹھان لیں۔ا ب صبح منور شام منور،روشن تیرا نام منورکی جگہ مرد مومن مرد حق ،سراج الحق کے نعرے لگیں گے۔یہ نعرہ پہلی بار ضیاء الحق کے لیئے استعمال ہوا،یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔
تازہ ترین