• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ عوام کو گیٹ نمبر چار، پانچ، چھ اور آٹھ سے نیشنل اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی ‘‘عبدالستار ایدھی صاحب کی نماز ِ جنازہ کے موقع پرڈی جی ٹریفک اعلان کرتے سنائی دئیے ۔ اُنھوں نے کوئی شرم یا ندامت محسوس کئے بغیر اپنے اعلان میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’ڈیفنس، کلفٹن اور شاہراہ فیصل کی طرف سے آنے والے وی آئی پیز اور وی وی آئی پیز مین گیٹ سے داخل ہوں گے۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ حکمرانوں کے لئے مرکزی دروازہ، جبکہ ’’دیگر دروازے‘‘ عوام الناس کے لئے ۔ خیر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کچھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ اہم دروازے ہمیشہ اشرافیہ اور طاقت ور طبقے کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی صاحب کی عظمت ، اور اس ملک ،جسے وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ، کی بدقسمتی کاایک ثبوت اُن کی نماز ِ جنازہ کے موقع پر دیکھنے میں آیاکہ جب پاکستان کے جنرل اور سیاست دان قطاروں میں عوام سے الگ کھڑے ہوئے اور ایدھی صاحب کی عظمت کو سلام کیا۔
ایدھی صاحب کو ن تھے ؟اُن کی زندگی کی ٹائم لائن اس ملک کے عوام سے ہٹ کر نہیں تھی۔ 1928 ء میں بھارتی گجرات میں آنکھ کھولنے والا یہ نوجوان میمن اپنی والدہ کی بیماری سے بہت متاثر ہوا ۔ اُن کی والدہ صاحبہ کو فالج ہوگیا تھا۔ایدھی صاحب نے اپنی والدہ کی رحلت تک اُن کی خدمت کی۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو ایدھی انیس برس کے تھے ۔ تقسیم ِ ہند کے بعد وہ کراچی چلے آئے اور ہول سیلز مارکیٹ میں کپڑا فروخت کرنے لگے ۔ تاہم اس شہر، جہاں زیادہ تر انڈیا سے آنے والے مہاجرین آباد ہوئے تھے، کو درپیش مختلف مسائل دیکھ کر اُن کا دل بھر آتا۔ اُنہیں اپنی والدہ صاحبہ کی علالت یاد آنے لگتی۔1950 کی دہائی میں اُنھوں نے ایک ڈسپنسری قائم کی ، پھر ایک عارضی اسپتال ، جس میں انفلونزا کے مریضوں کا علاج کیا جاتا۔ 1965 کی جنگ تک اُنھوں نے ایمبولینس سروس قائم کرلی تھی۔ اس کے ذریعے اُنھوں نے جنگ کے زخمیوں کی مدد کی ۔
گزشتہ تیس برسوں سے، جب کہ ایدھی اس شہر میں تھے، کراچی نسلی اور مسلکی بنیادوں پر ہونے والی خونی کشمکش کا شکار رہا۔ ایدھی صاحب کی ایمبولینس سروس پرتشدد کارروائیوں کے مقامات پردکھائی دیتی اور زخمی یا ہلاک شدگان کو اسپتال پہنچاتی۔ اہم بات یہ ہے کہ ایدھی صاحب کے انسانی خدمت کے سواکوئی عزائم نہ تھے ۔ یہ بات کہنا بجا ہوگا کہ اُنھوں نے جیتے جی اپنی ذات کی نفی کررکھی تھی۔ وہ اپنے آفس میں لکڑی کے بنچ پر بیٹھے ہوتے، چھوٹے سے کمرے ، جس کی کھڑکیاں بھی نہ تھیں، میں سوتے اور اپنے وسیع وعریض فلاحی نیٹ ورک کو ملنے والے عطیات سے ایک پائی اپنے اوپر خرچ نہ کرتے ۔ جب وہ فوت ہوئے اُن کے پاس کپڑوں کے دوجوڑے تھے۔مالیاتی شفافیت اور اخلاقی بلندی کو اپنا کردار کا اولین جز بنانے والے سفید داڑھی والے ایدھی صاحب، جنہیں ایدھی ہومز میں پرورش پانے والے بچے نانا جی کہہ کر پکارتے، کو اپنی بیوی ، محترمہ بلقیس ایدھی کا تعاون حاصل رہا۔ اس جوڑے نے اس دور میں بھی صبر، استقامت اور سادگی کی نادر مثال قائم کی ۔
بہت سے شناسا ، دوست اور صحافی اُنہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے لیکن سادگی اور محنت پسند اس شخص کے پاس غربت ختم کے رومانوی پروگراموں کے لئے کوئی وقت نہ تھا،کیونکہ وہ ہمہ وقت غریبوں کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ۔ 1990 کی دہائی میں جنرل حمید گل اور عمران خان نے اُن سے رابطہ کیا تاکہ بے نظیر حکومت کے خلاف الزامات کی ایک فہرست تیار کی جاسکے ، لیکن ایدھی صاحب نے اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ اُنھوں نے ایک انٹرویو میں کہا۔۔۔’’وہ میرے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے تھے ، لیکن میں نے اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔‘‘
ایسا دوٹوک اور بہادر شخص ہمارے لئے کس طرح کے ورثے کی حیثیت رکھتا ہے ؟ پہلی بات تو یہ ہے ہم اُنہیں عظیم ترین انقلابی صوفیوں کے درمیان رکھتے ہیں، ایسے درویش صفت انسان جو کسی روپے پیسے یا شہرت کے لالچ کے بغیر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ بدھا ، مسلمان صوفی اورنوآبادیاتی دور میں گاندھی جی کی سادگی کی روایت ایدھی صاحب میں اپنے کمال کو پہنچ گئی تھی۔ اُن کا سب سے بڑا اثاثہ اُن کا دولت کے انبار کے باوجود غربت پسندی اور غریب پروری تھی۔ عبدالستار ایدھی صاحب اس پریشان کن دور میں رہتے تھے ، اور انھوں نے پاکستان کو مذہبی عصبیتوںکے رنگ میں رنگتے دیکھا ۔ اس پاکستان میں مذہبی دکھاوا اپنے عروج پر تھا، چنانچہ ایدھی صاحب نے سادگی اور انسان دوستی کی راہ اپناتے ہوئے منہ سے ایک لفظ کہے بغیر اس دکھاوے کا پردہ چاک کردیا۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس دوران جماعت الدعوۃ اور دیگر مذہبی تنظیمیں بھی فلاحی کام کررہی تھیں،لیکن ایدھی صاحب کا کا م اس لئے نمایاں ہواکہ اُن کی انسانی خدمت کے پیچھے کسی دیگر مقاصد کے لئے نوجوانوں کی بھرتی کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ اس وقت ہمارے لئے ضروری ہے کہ ایدھی کا یہ جذبہ لے کر آگے بڑھیں۔ مذہبی تنگ نظری کی تاریکی کے سامنے انسان دوستی کی شمع روشن رکھیں۔ ایک مرتبہ کسی نے اُن سے پوچھا کہ وہ ہندوئوں اور عیسائیوں کو اپنی ایمبولینس میں کیو ں بٹھاتے ہیں تو اُن کا جواب تھا۔۔۔’’میری ایمبولینس تم سے زیادہ مسلمان ہے ۔‘‘اپنے ایک آخری انٹرویو میں اُنھوں نے پاکستان میں سیاسی انقلاب دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جب اُن سے اس کی وضاحت دریافت کی گئی تو بیمار اور کمزور دکھائی دینے والے جواں ہمت ایدھی کا کہنا تھا۔۔۔’’خمینی کی طرز کا ‘‘۔ اُن کا خیال تھا کہ جب حالات اس حد تک خراب ہوجائیں تو پھر ایسے افراد کو آگے آنا پڑتا ہے
تازہ ترین