• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ان لوگوں میں شامل ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ان کے کئے کی سزا ملنی چاہئے ۔ ہو سکتا ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی خواجہ سعد رفیق کے اس خیال کی حامی ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر خواہش پوری ہو ۔ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا یہ تھا کہ پنجاب پر تاریخی طور پر ایک داغ رہا ہے کہ پنجاب ڈکٹیشن لیتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا حاشیہ بردار ہے، اگر ہم نے یہ داغ نہ دھویا تو ہم اس ملک کو اکٹھا نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں ہر حالت میں اس داغ کو دھونا ہے اور اس داغ کو دھونے کیلئے پرویز مشرف کو سزا دینا لازمی ہے۔ اس کی ذمہ داری صرف سیاست دانوں پرنہیں بلکہ عدلیہ سمیت سب پر ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرویز مشرف کو سزا دینے سے پنجاب پر اسٹیبلشمنٹ کا حاشیہ برداری کا داغ دھل جائے گا ؟ کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پرویز مشرف کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ سندھی ہیں۔ خود پرویز مشرف بھی اپنے آپ کو سندھی قرار دے رہے ہیں ۔
یہ اور بات ہے کہ ایک سندھی چینل کو انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’سندھی نااہل ہوتے ہیں‘‘ اس کے باوجود اب وہ اپنے سندھی ہونے پر بضد ہیں۔ پرویز مشرف بھی یہ جانتے ہیں کہ سندھی کبھی بھی ان کی حمایت میں نہیں اٹھ کھڑے ہوں گے اور نہ ہی پنجاب کو یہ ’’دوش‘‘ دیں گے کہ پرویز مشرف کو سزا کیوں ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویز مشرف کا ڈومیسائل کراچی کا ہے اور کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے۔ کراچی والے خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب ایک اردو بولنے والے سندھی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما پرویز مشرف کی حمایت میں کھل کر بیانات بھی دے رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے بیان کے بعد کراچی کے کچھ حلقے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر پنجاب کو اپنا داغ دھونا ہے تو وہ پنجاب کے ہی کسی ایسے شخص کو سزا دلوائے، جس کی سزا سے چھوٹے صوبوں کی نظر میں بھی پنجاب کا داغ دھل جائے۔ اگر سعد رفیق کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پرویز مشرف کسی صوبے یا لسانی گروہ کے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ ہیں اور انہیں سزا دلانے سے یہ تاثر پیدا ہو گا کہ پنجاب اسٹیبلشمنٹ کا حاشیہ بردار نہیں بلکہ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے تو پھر انہیں یہ بھی بتانا چاہئےکہ یہ اسٹیبلشمنٹ آخر ہے کیا؟
اسٹیبلشمنٹ کی بھی واضح تعریف ہونی چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حاشیہ برداروں اور اس کے مخالفین کی سیاست ، نظریات اور مقاصد کا بھی واضح تعین ہونا چاہئے۔ خواجہ سعد رفیق کو یہ بھی بتا دینا چاہئے کہ پنجاب نے پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کی حاشیہ برداری میں کیا کیا کام کئے اور وہی کام وہ آئندہ نہیں کرے گا۔ خواجہ صاحب یہ بھی بتا دیں کہ کیا عدلیہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے یا نہیں؟ اور اگر عدلیہ کسی آمر کو آئین توڑنے پر تحفظ فراہم کرے یا اسے آئین میں ترامیم کا اختیار دے تو اس کی پوزیشن کیا ہو گی؟ اور بھی بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں مثلاً کیا پورا پنجاب اسٹیبلشمنٹ کا حاشیہ بردار ہے اور کیا پنجاب کے عوام بھی خواجہ سعد رفیق کے نظریئے کے مطابق حاشیہ بردار ہیں؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کی حاشیہ برداری کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں ہوتے اور کیا اسٹیبلشمنٹ کے کسی نمائندے کو سزا دینے سے حاشیہ برداری کرنے والوں کو سات خون معاف ہو سکتے ہیں؟
جہاں تک داغ دھونے کا مسئلہ ہے،پرویز مشرف کو سزا ہونے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ پر بھی تو داغ لگ سکتا ہے کیونکہ خواجہ سعد رفیق کے خیال میں پرویز مشرف انہی کا بندہ ہے اور پرویز مشرف کو سزا اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کے مترادف ہے۔ خواجہ سعد رفیق عدالت سے پرویز مشرف کو سزا دلوا کر پنجاب کو کریڈٹ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ٹی وی پر اپنی گفتگو میں بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر عدلیہ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دیدے تو حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ جب سعد رفیق اور حکومت کے ہاتھ میں ہے ہی کچھ نہیں تو وہ تاریخ کے داغ دھونے کا اتنا بڑا کام اپنے ذمہ کیوں لے رہے ہیں،کام تو سارا عدالت کو کرنا ہے ۔ اگر کسی بھی وجہ سے پرویز مشرف کو عدالت سے سزا نہ ہوئی تو خواجہ صاحب کے بقول پنجاب پر جو داغ لگا ہوا ہے ، وہ کیسے دھلے گا۔ پنجاب کا داغ دھونے کے چکر میں اسٹیبلشمنٹ اپنے اوپر داغ لگا دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پنجاب ہی اسٹیبلشمنٹ ہے اور ایم کیو ایم کی اس بات میں وزن ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک اردو بولنے والے سندھی کو نشانہ بنا رہی ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے پنجاب کی حکمران اشرافیہ کو اسٹیبلشمنٹ سے الگ کر کے محض ایک ’’مظلوم حاشیہ بردار‘‘ ثابت کرنے اور پنجاب کے مظلوم اکثریتی غریب عوام کو ایک ’’استحصالی گروہ‘‘ قرار دینے کی ایک سیاسی کوشش کی ہے۔ اس طرح انہوں نے پنجاب کی حکمران اشرافیہ کو پنجاب کے عوام کے ساتھ نتھی کرکے خود کو پاکستان کے چھوٹے صوبوں کا ہمدرد اور وفاقیت کا سب سے بڑا علمبردار بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوں ۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت ہے ۔ وہ جیسے عوامی جدوجہد ، جان کی قربانیوں اور جیل کی صعوبتوں کے بعد اس منزل تک پہنچی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے کبھی بھی نہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے کیس کو پنجاب کے داغ دھونے کے معاملے سے جوڑ کر خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگ (ن) کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ پرویز مشرف کو سزا نہ ہوئی تو یہ ’’ضدی داغ‘‘ بن جائے گا ۔ اس کے بعد اگر پنجاب کی حکمران اشرافیہ اسٹیبلشمنٹ کی حاشیہ برداری سے انکار بھی کر دے تو لوگ اس انکار کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ چھوٹے صوبوں کے عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ خواجہ سعد رفیق پنجاب کا داغ دھونے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اگر وہ کامیاب نہیں ہوتے تو مسلم لیگ (ن) پر بھی داغ لگ سکتا ہے اور پھر مسلم لیگ (ن) کے اندر سے اٹھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ پہلے مسلم لیگ (ن) داغ دھویا جائے۔
تازہ ترین