• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ساڑھے چار سال امریکی وزیردفاع کے عہدے پر رہنے والے رابرٹ گیٹس کتاب کے موضوع کو’فرض‘ کا نام دینا غصے اور ذاتی پذیرائی پر مبنی ہوگا لیکن اس کتاب میں اس حوالے سے بھی اہم بصیرت ہے کہ کس طرح واشنگٹن کام کرتا ہے اور کس طرح تقریباً ہمیشہ ہی مقامی سیاست اوباما انتظامیہ کی جانب سے قومی سلامتی کے معاملات طے کرنے کا موجب بنی۔ ان کی یادداشت میں سابق امریکی صدر جارج بش کے ساتھ اس عہدے پر گزارے جانے والے بش کے عہدہ صدارت کے آخری 2 سال اور صدر اوباما کے ابتدائی 2 سال شامل ہیں جو کہ 2006ء کے آخر سے 2011ء تک کا عرصہ بنتا ہے۔ ان کی وزارت دفاع کے دور میں جنگیں شامل تھیں، گیٹس بیان کرتے ہیں کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے فیصلوں کے پس منظر میں کئی مباحثے اور اختلافات شامل ہیں۔ رابرٹ گیٹس کو جن چیزوں نے مایوس کیا وہ ان کی کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے ساتھ سیاسی لڑائیاں اور پینٹاگون اور عسکری سروسز کے ساتھ ہونے والی بیوروکریسی کی جنگیں تھیں(جیسا کہ انہوں نے تحریر کیا کہ) عسکری محاذ عراق اور افغانستان میں تھے اور سیاسی محاذ واشنگٹن میں تھے۔ انہوں نے اس وقت وزارت دفاع کا چارج سنبھالا جس وقت عراق اور افغانستان کی جنگیں بری طرح جاری تھیں۔ انہوں نے ان جنگوں کی وجہ نامعقول مفروضوں، ابتدائی غلطیوں، مقامی حالات سے لاعلمی اور وسعت نظری کی کمی کو قرار دیا۔ انہوں نے اپنی آواز بلند کرنے کی غرض سے واشنگٹن میں جنگوں کے حوالے سے ہونے والے غوروفکر کے اجلاسوں میں مستقل لفاظی کی جنگ جاری رکھی۔
جس کی وجہ سے وہ کئی مرتبہ سیخ پا اور مستعفی ہونے پر غور کرنے کی جانب مائل ہوئے، انہوں نے ایسا کبھی نہ کیا تاہم وہ مُصر رہے کہ وہ اپنے موجودہ عہدے سے خوش نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کئی ایک کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بننا پڑا، ایک شخص کی جانب سے تو یہاں تک تحریر کردیا گیا کہ اگر ان کا عہدہ ان کے لئے اتنا ہی بڑا بوجھ ہے تو پھر انہیں صدر بش کی ٹیم میں باقی ماندہ وقت گزارنے کے بعد ریٹائر ہوجانا چاہئے تھا لیکن وہ نہ ہوئے۔
یہ تنقید جائز ہے لیکن جنگ سے متعلق رابرٹ گیٹس کی خودنوشت میں قارئین کیلئے حیران کن معاملات کی وضاحت ہے کہ آیا امریکہ خاطر خواہ عسکری و معاشی طاقت کا حامل ہونے کے باوجود اس ضمن میں تذویراتی اور مستقل طور پر اقدامات کرنے سے قاصر کیوں رہا۔ رابرٹ گیٹس نے سردجنگ کے بعد یک قطبی دنیا میں امریکی رویّے کے نتائج کو برملا تسلیم کیا۔ جس مغرور رویّے کا اظہار امریکہ نے 1990ء اور اس کے بعد کیا اس سے بڑے پیمانے پر ناراضی نے جنم لیا، 11/9 کے بعد اس ناراضی میں کچھ وقفہ آیا جبکہ صدر بش کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے وقت اختیار کی جانے والی ’ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف‘ حکمت عملی نے اس بین الاقوامی سطح پر امریکی ناراضی کی واپسی کی راہ ہموار کی اور اس میں مزید اضافہ کیا۔ ان کی خودنوشت میں واشنگٹن کے سرد جنگ کے بعد روس سے تعلقات کے حوالے سے خامہ فرسائی یوکرائن کے موجودہ بحران کو سمجھنے میں بھی مددگار رہی۔ رابرٹ گیٹس نے تحریر کیا کہ’جب روس 1990ء کی دہائی اور اس کے بعد کمزور تھا تو ہم نے روس کے مفادات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جبکہ ہم غیرضروری اشتعال انگیزی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے جارجیا اور یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششوں کو تاریخی اشتعال انگیزی قرار دیا جبکہ انہوں نے نیٹو میں توسیع کو غوروغوض پر مبنی تذویراتی اقدام کے بجائے سیاسی اقدام قرار دیا۔
گیٹس کی امریکہ کے پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے خامہ فرسائی قارئین کیلئے دلچسپی کا حامل ہوگی، ان کی کتاب میں پاکستان کا سطحی اور سرسری تذکرہ ہی موجود ہے حالانکہ رابرٹ گیٹس کا دعویٰ ہے کہ اپنے کیرئیر (جس میں انہوں نے 8 امریکی صدور کے ساتھ کام کیا) اوباما انتظامیہ کے سوا کسی امریکی حکومت نے پاکستان کے معاملے میں زیادہ وقت اور توانائی صرف نہیں کی، انہوں نے محض 2مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا کیونکہ پاکستانی فوج سے نبردآزمائی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن کے سپرد کردی گئی تھی۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں اپنائی جانے والی نقصان سے بچنے کی پالیسی کا جانا پہنچانا منتر دہرایا، جس کی وجہ انہوں نے امریکہ میں اعتماد کے فقدان کو گردانا۔ انہوں نےکہا کہ کئی کوششوں کے باوجود امریکہ پاکستان کے سیکورٹی کے حوالے سے کوئی پالیسی مرتب کرنے سے قاصر رہا۔ انہوں نے واشنگٹن کی جانب سے پاکستان سے کئے گئے غیرحقیقی مطالبات پر غور و فکر کا سلسلہ روکا نہیں (ان کی کتاب کے صفحہ نمبر205 پر دعائیہ درخواستیں ہیں)جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی قوم سے یہ توقع نہیں کہ وہ اپنے مفادات کو دوسری ریاست کے مقاصد کے طابع کردے اور اس بابت رابرٹ گیٹس کی خودنوشت تذبذب کی حامل اور پہلو بدلتی ہوئی نظر آئی۔
انہوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا الزام عائد کیا لیکن امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے کوشش پھر کیوں صحیح سمت میں نظر نہ آئی لیکن پھر انہوں نے دلیل پیش کی کہ امریکہ کی افغان جنگ کی کوشش حد سے زیادہ تخیلاتی مقاصد اور جنگ کے ضمن میں عسکری کمان، معاشی اور سویلین حکومت کی کوششوں اور جائزے میں تذبذب کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔ امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے تزویر کی مرکزی خامی کا خلاصہ کچھ اس طرح کیا جاسکتا ہے’صدر اپنے کمانڈر پر بھروسہ کرتے ہیں اور نہ ہی کرزئی کو سمجھ سکتے ہیں، اپنی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگ کو اپنا سمجھتے ہیں، ان کے لئے یہ سب کچھ انخلاء کیلئے ہے‘۔
پاکستان کی جانب کئی مرتبہ عیاں ہونے والے غیر خوشامدانہ طرز عمل کے پیش نظر، دونوں ممالک ہرگز ایک دوسرے کے اتحادی نہیں تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کیری لوگر برمن ایکٹ کے حوالے سے امریکہ کے غیر ذمہ دارانہ رویّے کو تسلیم کیا، انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ احمقوں نے بل میں ایسی زبان شامل کی جس سے شرائط کا اظہار ہوتا تھا اور جس کی وجہ سے اس اقدام کے بارے میں پاکستان کی فوج میں غیر معمولی اشتعال مرتب ہوا اور برق رفتاری سے اس ایکٹ سے جس اصل اور مخفی ساکھ کے جنم لینے کا امکان تھا وہ زائل ہوکر منفی ڈگر پر گامزن ہوگیا۔ گیٹس کی خودنوشت میں اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کیلئے کی جانے والی کارروائی کی بابت کوئی نیا انکشاف نہیں کیا گیا لیکن انہوں نے اس کارروائی کے حوالے سے اپنی اور نائب امریکی صدر جوبائیڈن کی مخالفت کی وضاحت کی،ان کا موقف تھاکہ کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر ایسے حملے کے نتیجے میں پاکستان مشتعل ہوکر نیٹو سپلائی کے راستے بند کردے گا، اپنی فضائی حدود استعمال کی اجازت سے انکار کردے گا اور ایسے اقدامات کرے گا جس سے امریکہ کی افغانستان میں جنگ کی کوشش کو نقصان پہنچے گا۔ اس مباحثے پر ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے اثر پڑا، گیٹس کی خودنوشت کے مطابق وہ کار میں مسلح پایا گیا تھا اور اس کے پاس پاکستان کے عسکری مقامات کی خفیہ تصاویر بھی تھیں۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کے حصول کے حوالے سے تین مجوزہ اقدامات میں سے خصوصی آپریشن یا بمباری کے بجائے محدود ڈرون حملے کی حمایت کی، لیکن بالآخر انہیں خصوصی آپریشن کی کارروائی کے حوالے سے قائل کرہی لیا گیا۔ افغانستان کے بارے میں گیٹس اس بات پر قائل نظر آٗئے کہ ابتداء ہی سے حریف کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا اور امریکہ اس وقت اپنی تذویر میں ردوبدل سے قاصر رہا جب زمینی صورتحال بدترین ہو گئی تھی، جب امریکہ عراق میں مصروف تھا تو طالبان یکجا ہوکر ایک موثر عسکری قوت بن گئے۔ 2008ء میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے گیٹس کو بتایا تھا کہ ’نیٹو افواج دشمن کو قابو تو کر سکتی ہیں لیکن اس پر غلبہ نہیں پا سکتی‘۔ یہ ایک مشکل جنگ اور غیر ہم آہنگ حکمت عملی تھی جو کہ اوباما کو ورثے میں ملی تھی، گیٹس کی خودنوشت میں جو تصویر کشی کی گئی اس میں وائٹ ہائوس میں ہونے والے مباحثوں کو انتشار کا شکار دکھایا گیا، جس میں اس کے فوجی کمانڈروں پر بھروسے کا فقدان اور اوباما کی جانب سے مقامی سیاسی صورت حال کے پیش نظر معاملات کو نمٹا کر منظر کشی کی گئی۔
رابرٹ گیٹس خود ابتداء میں سوویت یونین کے افغانستان میں پیش آنے والے حالات کے پیش نظر افغانستان میں افواج کے اضافے کی بابت شاکی تھے، انہوں نے افواج کی بڑی تعداد کے حوالے سے اپنی آواز بلند کی اور انہوں نے امکان پیش کیا کہ امریکہ کا رویہ قابضی بن سکتا ہے لیکن انہوں نےضخیم خواہشات کے بجائے محدود ہدف کی حامل مختٖصر طرزفکر کے تسلسل پر دباؤ کو برقرار رکھا، انہوں نے افواج کے حجم اور افغان جنگ کی جامع حکمت عملی کے حوالے سے اختلاف رائے کی ایسی ہی کہانیاں پیش کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اختلاف رائے ان کے عہدے کی میعاد ختم ہونے اور اس کے بعد بھی جاری رہا، جیسا کہ وائٹ ہاوس اور امریکی فوج کے مابین قومی سلامتی پالیسی کو نچلی ترین سطح تک انتظام کاری کے حوالے سے جاری رہا۔ گزشتہ 4 عشروں سے قومی سلامتی کے معاملات اور اہم خارجہ پالیسیاں اختیار کرنے کے حوالے سے جوبائیڈن کو غلط قرار دیا گیا، رچرڈ ہالبروک کی تقرری کو غلطی کے طور پر دیکھا گیا، جنگ کے ضمن میں جذبے کی کمی کی وجہ سے صدر اوباما کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا لیکن دیگر امور پر ان کی تعریف بھی کی گئی۔ کانگریس کے لئے یہ تناظر قریبی نگاہ سے خوشنما نہیں بلکہ خاصہ احمقانہ بھی ہے لیکن یہ اجتماعی نااہلی تھی جس نے رابرٹ گیٹس کو سب سے زیادہ مایوس کیا۔ انتظامیہ اور کانگریس کے مابین ہونے والی محاذ آرائیوں نے حکومت کی مسائل کو حل کرنے کی استعداد کو مفلوج کر دیا۔
شاید رابرٹ گیٹس کی کتاب میں کارآمد اسباق آخر میں تھے، جس میں ایک یہ تھاکہ امریکہ تقریباً ہمیشہ ہی جنگوں کے آغاز میں حریف اور زمینی صورت حال سے لاعلم رہا، عراق اور افغانستان میں امریکہ اس بارے میں لاعلم رہا کہ اس کی معلومات کس قدر قلیل ہیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اگلی جنگ کیلئے مکمل طور پر تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی امریکی فوج جس نے ویتنام کی جنگ کے بعد سوچا ہوگا کہ وہ آئندہ کبھی باغی تحریکوں سے نہیں لڑے گی، تیسرا سبق یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے طاقت کا استعمال پہلا نہیں بلکہ آخری راستہ ہونا چاہئے اور آخری سبق یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جنگوں کو ایک ویڈیو گیم کی مانند آسان اور محفوظ نہیں بنا دینا چاہئے، جس کا نتیجہ تباہ کن ہوتا ہے، واشنگٹن کیلئے یہ اہم اسباق ہیں جنہیں اسے سیکھنا چاہئے اور ان سے فیضیاب ہونا چاہئے۔
تازہ ترین