• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
12اکتوبر 1999ء کو چند بااعتماد دوستوں کے مشورے پر ہی میاں نوازشریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو ہٹانے کے احکامات صادر کئے اور اپنے ایک وزیر کے بھائی پر اعتماد کرتے ہوئے آرمی چیف کو ہٹانے کی سمری انہیں دیدی تاکہ وہ وزارت دفاع میں جاکر اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرسکیں مگر انہی سیکریٹری نے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل اس سمری کی کاپی جی ایچ کیو سمیت تمام متعلقہ افراد کو فیکس کر دی جس نے میاں صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے کا راستہ ہموار کیا۔آج جب اس واقعے کو تقریباً 15سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر مسئلہ اسی آرمی چیف کا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت وہ حاضر سروس تھے اور آج ریٹائر ہیں۔پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لئے اس مرتبہ اسی وزیر نے اصرار کیا اور وزیراعظم پر واضح کیا کہ فوجی قیادت کا پرویز مشرف کے معاملے پر شدید دباؤ ہے۔اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکال کر جان چھڑائی جائے مگر شاید میاں صاحب اس مرتبہ اپنے وزیر کی بات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وزیر داخلہ موصوف اس مرتبہ حکومت کو ایک درست مشورہ دے بھی رہے ہوں مگر اندھا اعتماد ایک ہی مرتبہ کیا جاتا ہے اور جب ٹوٹ جائے تو صدیوں میں نہیں بنتا۔اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت کو جن دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔دونوں ہی پاک فوج سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف معاملے پر حکومت کو عسکری قیادت کے دباؤ کا بالکل سامنا نہیں ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ گزشتہ چار دن میں دو مرتبہ مسلح افواج کے سپہ سالار اور حساس ادارے کے سربراہ ڈی جی آئی ایس آئی کی وزیراعظم سے ملاقات کا اصل موضوع ہی پرویز مشرف تھے۔ طالبان قیدیوں کا مسئلہ تو محض فیس سیونگ کے لئے بنایا گیا تھا۔عسکری قیادت کی جانب سے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لئے واضح طور پر وزیراعظم پاکستان کو مشورہ دیا گیا مگر میاں صاحب کی طرف سے قانون کی حکمرانی کا احترام قابل ستائش ہے۔ میاں صاحب !جن تین افراد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آپ نے غداری کے ملزم کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا کہیں وہ فرط جذبات میں تو آپ کو غلط مشورہ نہیں دے رہے۔ ویسے نوزائیدہ مشیر، جونیئر بیوروکریٹ اور وزارت خارجہ کے اسپیشل اسسٹنٹ کے مشورے کے بجائے اگر آپ اپنے ذاتی مشاہدات وتجربات کی روشنی میں خود سوچ سمجھ کر مصلحت سے کام لیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ ویسے مرحوم فاروق لغاری اکثر کہا کرتے تھے کہ اقتدار کی کرسی میں ایسا نشہ ہے کہ جو بھی اس پر براجمان ہوتا ہے اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کس مشیر کے کہنے پر کیا فیصلے کررہا ہے۔
پرویز مشرف کے معاملے پر مسلح افواج کی جانب سے شدید دباؤ کو دیکھ کر مجھے شہید بے نظیر بھٹو کے اقتدار کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔محترمہ نے جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ کے خلاف سیاستدانوں کو پیسے دینے کے معاملے کی تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے نصیر اللہ بابر مرحوم کے ذریعے آرمی چیف کو خط بھجوایا کہ ہم مرزا اسلم بیگ کے خلاف تحقیقات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ فوج کے اس پر ردعمل سے حکومت کو آگاہ کردیں جس پر آرمی چیف نے جواب دیا کہ فوج کسی بھی صورت اپنے سابق آرمی چیف کے خلاف ایسے کسی بھی اقدام کو پسند نہیں کرے گی اگر آپ نے تحقیقات کرنی ہی ہیں تو سیاستدانوں کے خلاف کریں کہ انہوں نے پیسے کیوں لئے ہیں اور شاید آج بھی افواج پاکستان میں موجود مخصوص افراد آرمی چیف کو اسی قسم کے مشورے دے رہے ہیں۔ اگر جمہوری حکومت چاہے کہ مصلحت سے کام لے تو عسکری حکام پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے اٹھنے والے ہر قدم کی حمایت کریں۔جب کہ موجودہ حکومت کو درپیش دوسرا اہم مسئلہ طالبان سے مذاکرات کا ہے۔ جس میں بھی سارے مطالبات و معاملات براہ راست عسکری قیادت سے جڑے ہوئے ہیں مگر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے غیر سنجیدگی واضح نظر آرہی ہے۔ ایک گھنٹے میں تین بیانات جاری کئے جاتے ہیں اور تینوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔عمر خراسانی کی اپنی فلاسفی ہے، شاہد اللہ شاہد مرکزی ترجمان ہونے کے باوجود اہم فیصلوں سے بے نیاز جبکہ مولانا اعظم کی اپنی ہی رائے ہے۔حال ہی میں ٹی ٹی پی نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹے کے بارے میں کہا کہ دونوں افراد ان کے پاس نہیں ہیں۔ اگر واقعی یہ افراد ان کے پاس نہیں تھے تو شاہد اللہ شاہد کی جانب سے پانچ پریس ریلیزوں میں کیوں ان کی رہائی سے متعلق بیانات دیئے گئے۔ چند ماہ قبل تحریک طالبان پاکستان کے ہی ایک سینئر کمانڈر نے یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کے نمبر پر نہ صرف فون کرکے ان کے بیٹے کی خیریت بتائی بلکہ چند طالبان کمانڈروں کا بھی نام لیا اور کہا کہ ان کے بیٹے کی رہائی طالبان شدت پسندوں کی رہائی سے مشروط ہے لیکن اس معاملے میں بھی حکومت اور فوج کو متحد ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔ قیدیوں کی رہائی و دیگر معاملات میں حکومت اور عسکری قیادت کے اختلافات ملک پر اچھے نقش ثبت نہیں کریں گے۔ مملکت خداداد سے محبت تو افواج پاکستان اور جمہوری حکومت کو ہے نہ کہ طالبان کو۔ اس لئے سنجیدگی اور برداشت بھی ہمیں ہی دکھانی ہوگی۔عمومی یہ تاثر بن رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی موجودہ حکومت کے لئے یہ دو ہی بڑے چیلنج ہیں اور جمہوری حکومت اور فوج میں ان دونوں معاملات پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ تاثر زائل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عسکری قیادت کو بھی باور ہو جانا چاہئے کہ آئین و قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہے۔ہمیں آنے والی نسلوں کو ایک بدلا ہوا پاکستان دینا ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا ٹرائل قانون و انصاف کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے مکمل ہونا چاہئے اور اس دوران سنگین جرم کے مرتکب شخص کو کسی بھی صورت ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ خصوصی عدالت جو بھی فیصلہ سنائے، پرویز مشرف کے پاس پورا اختیار ہوگا کہ وہ اسے اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں۔ اس کے بعد ان کے جرم کی سزا انہیں ملنی چاہئے تاکہ دنیا کو واضح پیغام دیاجاسکے کہ 21ویں صدی کا پاکستان ایک بدلا ہوا پاکستان ہے۔مگر یہ ملک سے محبت اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے میرے جذبات ہیں۔ شاید ایسا کرنا موجودہ حکومت کے لئےمصلحتاً ممکن نہ ہو کیونکہ ملک میں جمہوریت کا ننھامنا پودا ابھی پروان چڑھ رہا ہے اور یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ جمہوریت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ اس ملک کی حقیقی اسٹیبلشمنٹ کو ڈرائیونگ سیٹ سے پچھلی سیٹ پر دھکیل دے۔ حکومت کو حکمت سے کام لیتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا اور اس تاثر کو زائل کرنا ہو گا کہ جمہوری حکومت اور فوج آمنے سامنے نہیں ہیں۔
تازہ ترین