• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں لاہور میں ہوں،لاہورکی موسم بہار میں خوبصورتی قابل دید ہے اور خاص طور پر سڑکوں کے کنارے پھولوں کی سجاوٹ بہت ہی دلفریب ہے، خوبصورت منظر اور موسم دیکھ کر دل خوش ہو گیا اور ایک مرتبہ پھر یہی خیال آیا کہ ہمارا ملک اور اس کے موسم کتنے خوبصورت ہیں اور ہمارے لوگ غم روزگار میں اس خوبصورت ملک اور اپنے خاندانوں، عزیزواقارب اور دوستوں کو چھوڑ کر بیرون ملک آباد ہیں اور اس ملک کی ترقی کے لئے رات دن کام کرتے ہیں اور اپنی قلیل آمدنی کا بیشتر حصہ اپنے ملک میں اپنی فیملی کو ڈالر یا پائونڈ کی صورت میں بھیجتے ہیں۔ گزشتہ ماہ میں اپنی بیرسٹری کی ڈگری لینے لندن گیا ہوا تھا اور پھر اس کے بعد نیویارک گیا، میں نے اپنے کالم لندن اور نیویارک سے لکھ کر بھیجے تھے اور وہاں کے عوام کے پاکستانی عوام اور یہاں کی سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں جذبات اور احساسات سے آگاہ کیا تھا، وہاں رہنے والے پاکستانی اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں مگر اب بھی وہ ٹی وی پر پاکستانی چینل دیکھتے ہیں اور پاکستانی اخبارات پڑھتے ہیں،جو امریکہ میں کافی تعداد میں اردو میں پاکستانی ناشروں نے شائع کیے ہوئے ہیں جو پاکستانی ریستورانوں، مسجدوں اور دیسی اشیاء کے اسٹوروں کے باہر ٹوکری میں پڑے ہوتے ہیں اور لوگ انہیں مفت لے سکتے ہیں جبکہ لندن سے روزنامہ جنگ شائع ہوتا ہے اور پاکستانی اس سے مستفید ہوتے ہیں، مندرجہ بالا تمہید لکھنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا تھا کہ پاکستانی لوگوں کے دلوں میں اپنے وطن سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے وہ جسمانی طور پر ملک سے باہر ہیں مگر ذہنی یا دماغی طور پر پاکستانی ہی میں ہیں، ان کا ایک مطالبہ ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ملک کی سیاست میں حصہ لینے اور اسمبلیوں کے اور لوکل باڈیز کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے کیونکہ باہر ملک کا سسٹم دیکھ کر وہ ہر وقت سوچتے ہیں کہ اپنے ملک میں بھی وہ ایسا رشوت سے پاک نظام قائم کریں اور اس مقصد کے لئے وہ اسمبلیوں میں آنا چاہتے ہیں اور ملک کے حکومتی نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں دیہات میں رہنے والے غریب لوگ وڈیروں اور زمینداروں کے ظلم سے تنگ آکر روزگار کی تلاش میں برطانیہ اور امریکہ آئے،یہاں محنت مزدوری اور پھر کاروبار کرکے انہوں نے بے پناہ دولت حاصل کرلی، ان میں سے کچھ لوگوں نے بیرون ملک سے کمائی ہوئی دولت سے پاکستان میں سیمنٹ کی فیکٹریاں اور بڑے بڑے کارخانے لگائے چوہدری سرور جو کہ پنجاب کے گورنر ہیں انڈے بیچتے بیچتے ایک بہت بڑے بزنس مین بن گئے اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں، اب یہ لوگ زمینداروں کے خلاف اپنے آبائی علاقوں سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر عوام کو روایتی الیکشن جیتنے والے خاندانوں کی موروثی سیاست سے آزاد کرائیں، خیال برا نہیں ہے، موروثی سیاست سے نجات حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بیرون ملک رہنے والے ان پاکستانیوں کو جن کے مالی وسائل بے پناہ ہیں اور جنہیں لندن اور نیویارک میں کام کرنے اور رہنے کا تجربہ ہے انہیں اپنے آبائی گائوں یا قصبہ سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے، وہ مالی طور پر موروثی سیاست میں حصہ لینے والے سیاستدانوں کے مقابلے میں اپنا حلال کا کمایا ہوا پیسہ الیکشن میں خرچ کر سکتے ہیں اور دوسرے بیرون ملک رہنے کی وجہ سے بغیر خوف اور خطرے کے الیکشن میں حصہ لے سکتےہیں، اگر یہ لوگ لندن میں رہ کر وہاں کی سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر انتخابات جیت سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں جیت سکتے، موروثی سیاستدانوں کی سیٹوں اور سیاست میں دراڑیں پیدا کرسکتے ہیں، نئی سوچ دے سکتے ہیں، نئی سیاسی پارٹیاں ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے سکتی ہیں اور ہندوستان کی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی طرز پر یہاں بھی ایسی نئی پارٹیاں ابھر سکتی ہیں جو کہ تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرکے انہیں اسمبلیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ گزشتہ روز شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کے لاڑکانہ میں جلسے منعقد ہوئے، بھٹو صاحب نے جب 1967ء میں پارٹی بنائی تھی تو عام اور غریب لوگوں کو اس میں جگہ دی تھی مگر آہستہ آہستہ وڈیرے اور زمینداروں کے ہاتھوں میں پارٹی کی باگ ڈور آگئی اور موروثی سیاست کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا، اس کے بعد الطاف بھائی نے متحدہ قومی موومنٹ کی بنیاد ڈال کر عام اور غریب لوگوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا، عمران خان نے بھی اپنی پارٹی میں عام لوگوں کو ٹکٹ دیئے اور لوگوں نے بھرپور ساتھ دیا، میرا ذاتی خیال ہے کہ اپنے ملک کا عام آدمی روزگار کے چکر میں پستا رہتا ہے اور اس کے وسائل بھی محدود ہوتے ہیں، زمیندار اور حکومتی پارٹی کے ممبروں کی دہشت سے بھی خوفزدہ ہوتا ہے اور سر نہیں اٹھا سکتا، اس کے مقابلے میں باہر سے آنے والا آدمی مالی وسائل سے بھی بھرا ہوتا ہے اور زمیندار اور مقامی سیاستدان کے خوف سے بھی آزاد ہوتا ہے اور بے خوف و خطر حق بات کرتا ہے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، سیاست میں حصہ لینے دیا جائے تاکہ وہ ہمیں موروثی سیاست سے چھٹکارا دلائیں، نئی قیادت پیدا کریں، باریوں والی سیاست سے آزاد کرائیں۔ باریوں سے یاد آیا کہ میں نے اپنے گزشتہ چار کالموں میں باریوں کا ذکر مشرف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے کیا تھا، میرے کالم نکال کر پڑھ لیں تمام باتیں درست ثابت ہوئی ہیں فرد جرم بھی عائد ہوگئی، مشرف حاضر بھی ہوگیا استثنیٰ بھی مل گیا اور اب جانے کی باری ہے، نواز شریف کی حکومت بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دے سکتی کیونکہ یہ ان کے لئے سیاسی خودکشی ہے مگر عدالتوں میں بے شمار نظیریں ایسی ہیں جہاں لوگوں کو ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔ قوی امید ہے کہ مشرف کو عدالت اجازت دیدے گی اور طے شدہ پروگرام کے تحت وہ بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے، مقدمہ ان کی غیر حاضری میں چلتا رہے گا اور ویڈیو لنک پر ان کا بیان بھی ریکارڈ ہوجائے گا، ہمارے ملک میں سازش کے کیسوں میں گرفتاری اور پھر رہائی کی تاریخ ہی ایسی ہے، شیخ مجیب پر اگرتلہ سازش کا کیس بنا اور پھر اسے ہیرو بناکر رہا کیا گیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے لوگوں کو حیدرآباد سازش کیس میں گرفتار کیا گیا اور پھر سرخرو کرکے رہا کردیا۔ اب مشرف کی باری ہے، میں نے باریوں کی بات بارہا کی ہے مگر کیا کروں یہاں باریاں لگی ہوئی ہیں آخر میں فراز کا شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں
کل رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند آڑ گئی
ایک خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
تازہ ترین