• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس مرتبہ بھٹو صاحب کی برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے زبردست لکیر کھینچ دی ہے۔ یہ لکیر دو طبقوں کے درمیان ہے ایک طبقہ وہ ہے جو ملک کی ترقی کا خواہاں ہے، روشنی کا سفیر ہے اور خاص طور پر عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا حامی ہے جبکہ دوسرا طبقہ مرضی کا اسلام مسلط کرنا چاہتا ہے، معاشرے کو زمانہ جہالت میں لے جانا چاہتا ہے، عورتوں کو زندہ درگور کرنا چاہتا ہے، اقلیتوں پر سارے دروازے بند کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس سے محب وطن پاکستانیوں کی لڑائی ہے۔ اب وہ منزل آچکی ہے جس مقام پر عقل و شعور رکھنے والے ایک طرف ہیں اور جہالت پر عمل پیرا دوسری طرف ہیں۔ بلاول بھٹو نے سچی اور کھری بات کی ہے انہوں نے بڑے واضح انداز میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ ’’مذاکرات کے نام پر آنکھوں والے اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں، درندوں کے آگے نہیں جھکیں گے، طالبان کی آمریت قبول نہیں...‘‘ بلاول بھٹو زرداری نے اور بھی بہت سی باتیں کی ہیں مثلاً انہوں نے پوچھا ہے کہ اگر نیت صاف تھی تو قوم سے ڈیڑھ ارب ڈالر والی بات کیوں چھپائی گئی؟ یہ بات چھپی رہنی تھی یہ تو اللہ بھلا کرے شیخ رشید احمد کا کہ وہ سب سے پہلے سیاسی کھلاڑی تھے جو اس چھپی ہوئی بات کو سامنے لے آئے دراصل شیخ رشید ’’چھپن چھپائی‘‘ کے بڑے ماہر ہیں، اس کھیل میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میڈیا کے کھیل میں بھی شیخ صاحب کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے دوست مولانا سمیع الحق بھی ماہرانہ تراکیب استعمال کرکے مذاکرات کے کھیل میں آگے آگے ہیں، انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو پیچھے کردیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری جس پارٹی کے سربراہ ہیں وہ ملک کے ہر حصے کی پارٹی ہے نہ صرف وفاق اور سندھ، پنجاب بلکہ بلوچستان، خیبرپختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی جیالے آباد ہیں۔ اس لحاظ سے پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ پاکستانی تاریخ میں صرف بھٹو صاحب وہ لیڈر آئے جنہوں نے سوچ کی لہروں کو بدل کر رکھ دیا، انہوں نے اس ملک کے عام ہاری اور مزدور کی بات کی۔ انہوں نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو زبان دی۔ آج اسی بھٹو کا نواسہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ جاگ پنجاب، پاکستان جل رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ پنجاب میں سرکاری سرپرستی میں دہشت گردوں کو پناہ دی جارہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ تیر پتہ نہیں کس کے حلق میں جالگا کہ پنجاب کے ایک وزیر پابندی کے باوجود بول پڑے حالانکہ میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی کے لوگوں کی اس معاملے میں زباں بندی کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود پنجاب کا یہ وزیر جو پرانا جیالے بھی ہے پتہ نہیں کیوں بول پڑے ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کو بچگانہ قرار دیا ہے۔
پنجاب کا یہ وزیر جو بھی کہیں بلاول بھٹو زرداری نے بات درست کی ہے ان سے مذاکرات کیسے، جنہوں نے ہمارے ستّر ہزار بے گناہ شہریوں کو شہید کیا، جنہوں نے ہماری افواج کے جوانوں کو شہید کیا، جنہوں نے عورتوں کو قیدی بنانے کی بات کی،حالانکہ اسلام اس بات کی نفی کرتا ہے۔ ہمارا مذہب عورت کی آزادی کا قائل ہے، اسلام نے عورتوں اور مردوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔
سچی بات یہی ہے کہ طالبان ہمیں اندھیروں کی سمت لے جانا چاہتے ہیں جبکہ ہم روشنیوں کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔
بھٹو صاحب ایک سیاسی حکمران تھے، عوامی لیڈر تھے انہیں قتل کردیا گیا، آج کل ایک اور حکمران مشرف کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ اس پر ایک جامع تبصرہ سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز حسین نے کیا ہے چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی دے کر جو نفرتوں کی دیوار تعمیر کی گئی تھی اس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے بھٹو ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ تھے، آج ایک اہم ادارے کے سابق سربراہ کو کچھ عقل سے بے بہرہ لوگ پھانسی دلوانا چاہتے ہیں ابھی بھٹو کی سزا کا خمیازہ ختم نہیں ہوا تو ایسے حالات میں کچھ لوگ کیوں ایک ادارے کے سربراہ کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ چوہدری شہباز حسین سمجھدار آدمی ہیں، چوہدری شجاعت حسین بھی بہت سمجھدار ہیں دونوں اس بات کے مخالف ہیں کہ مشرف کو سزا دی جائے۔ چوہدری شہباز حسین نے اگلے منظر کو بڑی دلیری سے واضح کردیا ہے کہ پہلے نفرتوں اور صوبائی تعصب کی جنگ جاری تھی اب اگر مشرف کو سزا ہوئی تو سیاسی پارٹیوں اور اداروں میں صف آرائی شروع ہوجائے گی۔ شاید ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے کہ پاکستان میں ہر طرف افراتفری اور جنگ کا سماں ہو۔ سیاست کے چند ناسمجھ رکھنے والے سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ ہوشمندی سے کام لیں، پاکستان پر کڑا وقت ہےاس لئے پاکستان میں محبت تقسیم کرنے کی بات کریں خواجگان کی بستی کو اور کسی سے نہیں تو الطاف حسین ہی سے سبق حاصل کرلینا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ الطاف بھائی کی گرجدار آواز انہیں سمجھا سکے۔ اگر نہیں تو پھر الطاف حسین کو چاہئے کہ وہ یہ کام وسیم اختر کو سونپ دیں، وہ یہ کام بخوبی کرلیں گے۔ اس مرتبہ بھٹو صاحب کی برسی پر محسن نقوی مرحوم کی شاعری پڑھنے کو ملی۔ محسن نقوی پیپلزپارٹی کے ساتھ آخری وقت تک وابستہ رہے۔ ایک زمانے میں وہ مفتی محمود کے خلاف الیکشن میں کھڑے ہوگئے تو سارا سارا دن ٹیپ ریکارڈ پر محسن نقوی کی تقریریں سنتے رہتے تھے، اس کے جلسے بھر جاتے جبکہ مفتی صاحب لوگوں کا منہ تکتے رہ جاتے۔ محسن نقوی کا بھٹو صاحب کے حوالے سے ایک شعر کہ
اس کے دل میں قوم کا عجیب احترام تھا
وہ قائد عوام تھا، وہ قائد عوام تھا
تازہ ترین