• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ ایک بہت بڑی خوشخبری اقساط میں سنانی چاہئے ورنہ خدشہ رہتا ہے کہ اتنی بڑی خوشخبری سننے کے بعد کمزور دل بے ہوش نہ ہو جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کا ہارٹ فیل ہو جائے جیسے شیئر بازار میں اتار چڑھائو کی خبریں سن کر کئی سیٹھ وہیں کے وہیں مر جاتے ہیں یا پاگل ہو جاتے ہیں۔ جو خوشخبری میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں اس خوشخبری کا تعلق شیئر بازار سے نہیں ہے۔ جو خوشخبری میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اس خوشخبری کا تعلق اس بڑی خوشخبری سے ہے جو ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف عنقریب آپ کو سنانے والے ہیں۔ وہ بہت بڑی خوشخبری ہو گی،کمزور دل والے برداشت نہیں کر سکیں گے، سن کر گر پڑیں گے۔ زندہ رہے تو اپنی یادداشت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جب تک دوبارہ آپ کی یادداشت لوٹ کر نہیں آتی، آپ ہاتھ نہیں دھوتے کیونکہ آپ اپنی یادداشت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اگر زندگی بھر یادداشت لوٹ کر نہ آئے تو پھر آپ زندگی بھر ہاتھ نہیں دھوتے اور آپ بغیر ہاتھ دھوئے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ میاں صاحب کو ان تمام باتوں کا علم ہے۔ میاں صاحب کے پاس اس کے علاوہ بھی بہت علم ہے سوائے غیب کے۔ لہٰذا مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں کو بہت بڑی خوشخبری سننے کیلئے ذہنی طور پر تیار کروں اور بڑی خوشخبری سے پہلے آپ کو چھوٹی خوشخبری سنائوں جو کہ بڑی خوشخبری کا اٹوٹ انگ ہے یعنی بڑی خوشخبری کا بغل بچّہ ہے۔
بڑی خوشخبری کے حوالے سے چھوٹی خوشخبری سنانے سے پہلے میں آپ کی غلط فہمی اور وسوسے دور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے، کیا میاں صاحب سے میری گاڑھی چھنتی ہے کہ ان کی بڑی خوشخبری کا چھوٹا سا اقتباس میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ میاں صاحب سے میری گاڑھی نہیں چھنتی، میری گاڑھی چھنتی ہے صرف ایک شخص سے اور وہ ہیں سائیں قائم علی شاہ۔ وہ مجھے دائم علی شاہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کی میرے ساتھ گاڑھی چھنتی ہے۔ دراصل میاں صاحب کی دوستی کا دم بھرنے والوں کے میں حقّے بھرتا ہوں۔ میل جول ہے میرا ان سے، ہم مل بیٹھتے ہیں، پائے کھاتے ہیں، گول گپے کھاتے ہیں، چھولے کھاتے ہیں۔ یہ ان کی تجویز ہے کہ میاں صاحب جو بڑی خوشخبری قوم کو سنائیں گے اس سے پہلے میں بڑی خوشخبری کی چھوٹی چھوٹی خوشخبریاں آپ کو سنائوں تاکہ بڑی خوشخبری سننے کے بعد قوم سکتے میں جانے سے بچ جائے۔ اب آپ چھوٹی چھوٹی خوشخبریں یعنی خوشخبریاں سنیں۔
پچھلے تین ہفتوں کے دوران سندھ میں تین مندروں اور دھرم شالائوں میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد فسادیوں نے آگ لگا دی۔ وزیراعظم نے اس حرکت کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی مکمل رپورٹ طلب کر لی۔ ماتحتوں نے جاں فشانی سے رپورٹ تیار کر لی۔ جاں فشانی کا لفظ میں نے بڑے غور و خوض سے استعمال کیا ہے۔ تین مندروں اور دھرم شالائوں کی توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور جلانے کی معلومات حاصل کرنے اور تفصیلی رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کے ارکان میرے دیرینہ دوست تھے۔ وہ سندھ آئے تھے اور واقعات کا تانا بانا ملاتے ہوئے فسادیوں کے گڑھ تک پہنچ گئے تھے۔ فسادی خود اتنے طاقتور اور خودسر نہیں ہوتے جتنے ان کی پشت پناہی کرنے والے بااثر اور طاقتور پیر سائیں اور سردار سائیں ہوتے ہیں۔ مجھے وہ قانون سے بالاتر محسوس ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے در پردہ مقاصد چونکا دینے والے تھے۔ ان کا پہلا مقصد پاکستانی ہندوئوں کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا اور انہیں عدم تحفظ کا شکار کرنا تھا لہٰذا انہوں نے ان کی مقدس عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی، ان کے گھروں اور تجارتی مراکز پر لوٹ مار کی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خوفزدہ ہو کر ہندو پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ جو ہندو گھبرا کر پاکستان چھوڑیں گے فسادیوں کے کرتا دھرتا ان کی املاک پر قبضہ کر لیں گے اور جو ہندو اپنی املاک بیچ کر یہاں سے جانا چاہیں گے ان کو اونے پونے املاک بیچنے پر مجبور کیا جائے گا۔اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے میں قانون ان کے آڑے نہیں آئے گا۔ دوسرا مقصد بڑا ہی خوفناک تھا، پاکستانی ہندوئوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور لوٹ مار کی خبریں جب ہندوستان پہنچیں گی تب وہاں پر ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑک اٹھے گی، ان کو لوٹا جائے گا، قتل کیا جائے گا اور مساجد کو آگ لگا دی جائیں گی۔ لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی مسلمان جان بچانے کے لئے پاکستان آ جائیں گے۔ تاریخی تسلسل کے مطابق 1947ء کی طرح اس مرتبہ بھی مشرقی پنجاب سے جان بچا کر آنے والے ہندوستانی مسلمان مغربی پنجاب یعنی پاکستانی پنجاب آئیں گے اور یوپی، سی پی وغیرہ سے آنے والے ہندوستانی مسلمان سندھ آئیں گے۔ سندھ میں پاکستانی ہندوئوں کی مقدس عبادت گاہیں جلانے والوں کو شدت سے انتظار ہے ہندوستان میں انتہاپسند ہندوئوں میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھنے کا۔ پاکستان میں پاکستانی ہندوئوں کی تعداد انگلیوں پر گننے کے برابر ہے اور ہندوستان میں رہنے والے ہندوستانی مسلمان تعداد میں پاکستان کی آبادی سے زیادہ ہیں۔
باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ اسکروٹنی یعنی جانچ پڑتال کیلئے میاں صاحب کے تھنک ٹینک کو بھیجی گئی ہے جس کے سربراہ چوہدری نثار علی خان صاحب ہیں جو کبھی نہیں مسکراتے۔ تھنک ٹینک نے مشورہ دیا ہے کہ سندھ میں بسنے والے پاکستانی ہندوئوں کی زندگی اجیرن کرنے والے فسادیوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کے بجائے ان سے افہام و تفہیم کیلئے مذاکرات کئے جائیں۔ یہ پاکستانی ہندوئوں کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔
کہتے ہیں کہ زمین پر تشریف لے آنے والے انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ سندھ پیروں اور مرشدوں کی سرزمین ہے۔ سندھ میں زندہ اور مدفون پیروں کی تعداد بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ دو چار پیروں کو چھوڑ کر باقی تمام کے تمام پیر سائیں ارغونوں، ترخانوں، مغلوں کے دور میں تشریف لے آئے تھے اور سندھ میں ہمیشہ کیلئے آباد ہو گئے تھے تاکہ سندھ اور سندھیوں کی پسماندگی دور کر سکیں۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پچھلے تین چار سو برسوں کے دوران پیر سائیں مشرق وسطیٰ سے سندھ تشریف لے آئے تھے۔ موجودہ دور میں مدفون پیروں کی تعداد زندہ و جاوید پیروں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کی مزاروں پر عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ زندہ و جاوید پیر سائیں اب صرف پیر سائیں نہیں رہے۔ اپنے لاکھوں مریدوں کے بل بوتے پر وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر بن بیٹھے ہیں، وزیر ہیں، امیر ہیں، کبیر ہیں۔ چاہیں تو سندھ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ کچھ پیروں کے ان پڑھ، آگاہی اور سوچ سمجھ سے محروم مریدوں کی اس قدر دہشت ہے کہ شام ہوتے ہوتے اپر سندھ یعنی نوابشاہ سے جیکب آباد تک ویران ہو جاتا ہے۔ عورتیں، مرد اور بچّے بے دریغ قتل ہوتے رہتے ہیں، اغواء برائے تاوان، لوٹ مار معمول بن چکا ہے۔ مرکزی حکومت نے سندھ حکومت کو ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔ مرکزی حکومت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سندھ کے رہزنوں، دھاڑیلوں اور قاتلوں سے افہام و تفہیم کے لئے مذاکرات کئے جائیں۔
آخر میں باپ، بیٹے کی گفتگو سن لیجئے۔ باپ نے اپنے بیٹے کو بندوق لا کر دی۔ بیٹے نے پوچھا: مجھے آپ بندوق کیوں دے رہے ہیں؟ باپ نے کہا: اس لئے کہ اگر کوئی ڈاکو، لٹیرا گھر میں گھس آئے تو تم اس کا مقابلہ کر سکو۔ بیٹے نے کہا: مجھے بندوق کی ضرورت نہیں ہے، میں ان سے مذاکرات کروں گا۔
تازہ ترین