• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف قرض، سخت شرائط، NFC کا ازسرنو جائزہ، اخراجات کی نگرانی، اناج کی امدادی قیمت پر پابندی، توانائی پر سبسڈی میں کمی

اسلام آباد (اسرارخان )عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے اپنے نئے قرض پروگرام کے تحت سخت شرائط پیش کی ہیں جن میں این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کا دوبارہ جائزہ لینا شامل ہے جس سے صوبوں کو وسائل کی تقسیم پر اثر پڑ سکتا ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ صوبائی حکومت کے اخراجات کی نگرانی بھی کرے گا ۔ مالی نظم و ضبط کو مزید سخت کرنے کی کوشش میں حکومت اناج کی امدادی قیمتوں کا تعین کرنے سے گریز کرے گی جس سے کسانوں اور زرعی پیداوار پر اثر پڑنے کا امکان ہے۔

مزید برآںتوانائی کے شعبے کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زیادہ سبسڈی فراہم نہیں کی جائے گی تاکہ مالیاتی عدم توازن کو ختم کیا جا سکے۔ اس سے آنے والے دنوں میں بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔

 پنجاب حکومت کو مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس اقدام سے خطے کے صارفین متاثر ہونے کا امکان ہے کیونکہ حکومت اپنے مالی وعدوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے دوران پاکستان اضافی گرانٹس کو روک دے گا جو کہ اس کی مالی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی ہے۔

ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے، پاکستان کو زرعی شعبے،رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹرز کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہو گا۔

بجلی کی قیمتوں پر تشویش کے جواب میں حکومت پاور سیکٹر میں اصلاحات کا ایک جامع پیکیج متعارف کرائے گی۔ 

ذرائع کے مطابق اصلاحات کا نفاذ بجلی کے نرخوں میں کمی میں مدد دے گا۔نئے قرض پروگرام کے دوران حکومت کی مالی ذمہ داریوں کے عزم کا امتحان لیا جائے گا، کیونکہ عوامی سطح پر ان اقدامات کے اقتصادی اثرات پر بڑھتی ہوئی تشویش ہے۔ 

دریں اثنا، آئی ایم ایف نے خبردار کیا کہ معاشی ترقی کے باوجود پاکستان کی کمزوریاں اورساختیاتی چیلنجز اپنی جگہ برقرار ہیں‘ایک مشکل کاروباری ماحول، کمزور گورننس اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ ڈالنے میں ریاست کا بڑا سرکاری کردار رہا‘ اس کے علاوہ ٹیکس کی بنیاد بھی بہت محدود رہی۔

گزشتہ روز آئی ایم ایف کی جانب سے جاریبیان میں کہا گیا ہے، "پاکستان نے 2023-24 اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) کے تحت مستقل پالیسی پر عمل درآمد کے ساتھ معاشی استحکام کو بحال کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ 

زرعی سرگرمیوں کی مدد سے ترقی (FY24 میں 2.4 فیصد) بحال ہوئی ہے، جبکہ افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے اور یہ سنگل ڈیجٹ تک گر گیا ہے۔"بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ محدود کرنٹ اکاؤنٹ اور مستحکم فارن ایکسچینج مارکیٹ کی صورتحال نے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے میں مدد دی ہے۔اس پیش رفت کے باوجود پاکستان کے چیلنجز اور ساختی مسائل اب بھی شدید ہیں۔

 کاروباری ماحول کی مشکلات، کمزور طرز حکمرانی اور ریاست کا زیادہ کردار سرمایہ کاری میں رکاوٹ ڈالتا ہے، جو ہم عصر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے جبکہ ٹیکس بیس بھی بہت محدود ہے تاکہ ٹیکس کی منصفانہ تقسیم، مالی استحکام اور پاکستان کی بڑے پیمانے پر سماجی اور ترقیاتی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ خاص طور پر، صحت اور تعلیم پر اخراجات مسلسل غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں اور ناکافی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری نے معاشی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے اور پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سامنے کمزور چھوڑ دیا ہے ۔ 

بیان میں مزید کہا گیا کہ اگر اصلاحات اور ایڈجسٹمنٹ کے لیے سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو پاکستان اپنے ہم عصر ممالک سے مزید پیچھے رہنے کے خطرے سے دوچار ہے۔

 2023کے 9 ماہ کے SBA کے تحت حاصل شدہ استحکام کے بعد، حکام نئے EFF پروگرام کے تحت ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے، مزاحمت پیدا کرنے اور پائیدار ترقی کو قابل بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید