• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امام کو قتل کرکے فرار ہونے والے کیخلاف دہشت گردی کی تفتیش بند کی جاچکی تھی

لندن (پی اے) ایک سابق انسداد دہشت گردی کے تفتیش کار نے بتایا ہے کہ ایک امام کو قتل کر کے فرار ہونے والے شخص کے خلاف تفتیش مستقل طورپر بند کردی گئی تھی۔ ملزم کو بعد میں داعش کے ایک نام نہاد جنونی کی مدد کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ گریٹر مانچسٹر پولیس سے ریٹائر ہونے والے انسپکٹر فرینک مورس نے پبلک انکوائری کے دوران بتایا کہ محمد سیدالحسین کے خلاف تفتیش2014میں بند نہیں کی گئی تھی۔ پولیس نے ملزم کے 8 سالہ بھانجے کی جانب سے اسکول جا کر یہ کہنے کے بعد کہ وہ طالبان کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، ملزم کے بارے میں جانچ پڑتال شروع کی تھی۔ لیورپول کرائون کورٹ میں پبلک انکوائری کے دوران بتایا گیا کہ حسین کو، جس کی عمر اس وقت 24 سال تھی، محمد قادر کی مدد کرنے کے الزام میں 5 سال کی سزا سنائی گئی تھی، جس کے بعد وہ برطانیہ سے شام فرار ہوگیا تھا۔ قادر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے مانچسٹر یونائیٹڈ کے سابق اسٹیوارڈ محمد سیدی کے ساتھ مل کر امام جلال الدین کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی اور ان کو مہلک مکے لگائے تھے، 7بچوں کے والد 71 سالہ جلال الدین کو 18فروری 2016کو راچڈیل میں بچوں کے کھیلنے کی جگہ پر ہتھوڑے سے حملہ کر کے ہلاک کردیا گیا تھا، اس نے قادر کو اس جگہ پہنچایا تھا اور اس کے ٹارگٹ کی نگرانی کی تھی۔ قتل کی اس واردات کے3 دن بعد قادر حسین کی معاونت سے برطانیہ سے فرار ہوگیا تھا، ستمبر 2016میں سیدی کو جلال الدین کے قتل کے الزام میں عمر قید کم از کم 24سال کی سزا سنائی گئی، قادر اور سیدی دونوں ہی داعش نامی تنظیم کے ہمدرد تھے اور جلال الدین کی جانب رقعیہ کرانے کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے کیونکہ دہشت گرد تنظیم اس کو کالا جادو تصور کرتی ہے۔ جلال الدین کی موت کے حوالے سے ہونے والی پبلک انکوائری کے چیئرمین جج تھومس Teague کے سی ہیں، اس کی بہت سی کارروائی قومی سلامتی کے تحفظ کے نقطہ نگاہ سے خفیہ رکھی گئی ہے، اس انکوائری کے ذریعے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے گی کہ اس قتل میں انٹیلی جنس کی کوئی ناکامی تو نہیں ہے۔ 3 روزہ انکوائری کے دوسرے دن بتایا گیا کہ اگست 2014میں حسین کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا اور اس کا فون اور دوسری ڈیوائسز ضبط کرلی گئی تھیں، اس میں پولیس کو داعش کے پروپگنڈے پر مبنی امیجز، دہشت گرد رہنما اسامہ بن لادن اور ابوبکر البغدادی کی تصاویر اور اسلحہ اور لوگوں کو قتل کرنے کی ویڈیوز ملی تھیں۔ پولیس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ نہ صرف خود اپنے لئے بلکہ عوام کیلئے بھی خطرہ ہے اور عوام کو انتہاپسند بنا سکتا ہے لیکن کیونکہ دہشت گردی کے کسی جرم کا کوئی سراغ نہیں ملا، اس لئے اس کو نہ گرفتار کیا گیا اور نہ چارج کیا گیا۔ مورس نے انکوائر ی کے دوران بتایا کہ اس وقت ضبط کئے گئے ڈیوائسز سے اس طرح کے امیجز کا برآمد ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، تاہم پولیس اس کے فون پر ہونے والی بات چیت کو دیکھنے میں ناکام رہی، جس سے ظاہر ہوا کہ اس کا جن لوگوں سے رابطہ تھا، ان میں دوسرا سب سے زیادہ رابطہ قادر کے ساتھ تھا اور حسین کے خلاف تفتیش بند کردی گئی، اس کے بجائے اسے حکومت کے انتہاپسندی سے بچائو کے پروگرام میں بھیج دیا گیا۔ مورس نے تسلیم کیا کہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کو دیکھا جانا چاہئے تھا اور بات چیت کو دیکھنے تک تفتیش جاری رکھی جانی چاہئے تھی۔ انکوائری کی وکیل صوفی کارٹ رائٹ نے مورس سے قادر کے ساتھ ایک خاص واٹس ایپ کال کے بارے میں سوال کیا، جس میں قادر نے مبینہ طورپر وزیراعظم ٹونی بلیر کے خلاف بات کی تھی اور حسین نے کہا تھا کہ یہ قابل قتل ہیں۔ مورس نے کہا ٹونی بلیئر عراق جنگ کی وجہ سے اس وقت کسی بھی اسلامی انتہاپسند کے ممدوح نہیں تھے۔ میرے خیال میں اس دور میں انگلینڈ کے بیشمار لوگ ٹونی بلیئر کو پسند نہیں کرتے تھے اور انھیں جنگی مجرم قرار دیتے تھے۔ حسین قادر کو بھائی کہتا تھا۔ مورس نے بتایا کہ اگر وہ ان دونوں افراد کے درمیان بات چیت سے واقف بھی ہوتے تو بھی شاید انسداد دہشت گردی پولیس کوئی دوسرا فیصلہ نہ کرسکتی۔

یورپ سے سے مزید