• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری تہذیب کے پاسداران کو تہذیب مغرب سے یہ شکایت ہے کہ اس میں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام پر جہاں دیگرمادر پدر آزادیاں دے دی گئی ہیں وہیں جنسی آزادی بے راہ روی تک چلی گئی ہے خاندانی نظام کا شکنجہ ڈھیلا پڑگیا ہے کیونکہ عورت اور مرد کو برابر کی حیثیت دینے سے مرد کی سربراہی (قوامیت) کا روایتی تصور ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔
انصاف پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ تصویر کے دونوں رخ ملاحظہ کئے جائیں جس بے رحمی و بے باکی سے ہم مغربی تہذیب پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں کیا اس ہمت سے ہم اپنی تہذیب کا بھی تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں؟ مغربی تہذیب کے خلاف آپ جتنی چاہے بدزبانی یا لعن طعن کرلیں مجال ہے کوئی آپ کا بال بھی ٹیڑھا کر سکے۔ چومسکی امریکہ کے اندر بیٹھ کر امریکی ریاست کے خلاف جائز ناجائز ہر چیز بولتا اور لکھتا ہے لیکن تصور بھی نہیں کہ کوئی اس کو دھمکانے یا ڈرانے والا ہو پوری زندگی وہ وہاں معزز بن کر جیتا اور رہتا ہے۔ برٹینڈرسل یورپ اور انگلینڈ میں سربازار دھڑلے سے مغربی معاشرت کی مبادیات پر چوٹیں لگاتا ہے۔ مسیحی سماج میں بیٹھ کر مسیحیت سے ارتداد کا اعلان کرتا ہے Why I am not a christian کا مصنف سنچری بھر کی زندگی پاتا ہے اور کبھی کہیں کوئی اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ یہ ہے مغربی سماجی و عقائد کی تہذیبی عظمت، کیا ہماری تہذیب کے نام نہاد علمبرداران اپنے کسی بھائی کو بھی اس نوع کا کوئی ایک حق دینے کا یارا یا حوصلہ رکھتے ہیں؟ یہ لوگ ڈھنڈورا کس چیز کا پیٹ رہے ہیں؟ اس ظالمانہ خاندانی نظام کا جس میں دادافیصلے کرے اور پوتے پوتیاں بے چوں و چرا امناَ و صدقناَ کہنے پر مجبور ہوں یا پھر زندگی بھر کے لئے گھٹ گھٹ کر مر جائیں۔ پسند یا مرضی کی شادی پر بیس بائیس سالہ لڑکی کو اس کے بچے سمیت گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے کہ اس نے خاندان کی ناک کٹوا دی۔ چودھری صاحب کی عزت خاک میں ملا دی۔
یہ کس نام نہاد سوسائٹی کی پاکبازی پر فخر کیا جا رہا ہے۔ جو جھوٹ اور منافقت سے لتھری ہوئی ہے جہاں پیسہ آ جائے تو اکثر کا کوئی حساب نہیں، غربت آ جائے تو اپنے بھی پہچاننے سےا نکار کردیتے ہیں۔ اکثر وبیشتر ریا کاری کے بغیر کوئی عبادت مکمل ہوتی ہے نہ سخاوت۔ ذرا عائلی و جنسی زندگی پر بھی ایک نظر ڈالیں اگرچہ جنسی بے راہ روی پر ہم نے ان گنت پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن کن کے لئے صرف سفید پوش غریب اور کم وسیلہ عوام کے لئے، امرا کے لئے کونسی عیاشی ہے جو ہمارے سماج میں میسر نہیں؟؟ غریبوں یا سفید پوشوں کے لئے تفریح کے تمام دروازے بند کرنے سے جو فرسٹریشن اندر ہی اندر پنپتی ہے اس کا لاوا کیا آپ بڑھتے ہوئے جنسی جرائم، چوریوں اور ڈکیتیوں کی صورت نہیں دیکھ رہے۔ اس کا نتیجہ آپ اپنے تھانے کچہریوں میں درج ہونے والے ریپ کیسز سے لگا لیں اور ساتھ ہی سروے کریں کہ کتنی خواتین ہیں جوسوسائٹی میں عزت برباد ہونے کے خوف سے آنسو بہاتے چہرہ چھپا لیتی ہیں اور اپنی زبانیں گنگ کر لیتی ہیں۔
ایسی فرسٹریشن میں اگر چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے جنسی زیادتیاں ہوں گی تو آپ پر ان کی وجوہ بھی واضح ہونی چاہئیں؟؟ اس حوالے سے بھی غور کیا جانا چاہیے کہ ہماری سوسائٹی میں وہی بچیاں اگر سمجھ بوجھ والی ہیں تو بالعموم جنسی زیادتی کے بعد قتل کیوں کردی جاتی ہیں؟ ظاہر ہے جب سماج میں یہ جرم اتنا بڑا ہے تو پھر اس کا ثبوت کیوں چھوڑا جائے گا؟ اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ بچوں اور بچیوں پر جنسی زیادتیوں کے حوالے سے بالعموم ہمارے روایتی طبقات کی طرف اشارے کیوں پائے جاتے ہیں؟ بچیوں کی پیدائش پر ہمارے سماج میں ہی اتنا رونا کیوں پڑ جاتا ہے اولاد نرینہ کے لئے کیوں دعائیں کروائی جاتی ہیں اور پیروں فقیروں کے آستانے آباد کئے جاتے ہیں۔ مغرب میں تو یہ محرومیاں کوئی ایشوز ہی نہیں رہی ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کی صرف دو بیٹیاں ہیں، سابق صدر بش کی بھی بیٹیاں ہی تھیں بیٹا کوئی نہیں تھا اس سے پہلے صدر کلنٹن کی محض ایک بیٹی تھی لیکن کبھی کسی ایسے ایشو کا سوال بھی پیدا ہوا؟جبکہ ہمارے سماج میں کسی معمولی چودھری یا مولوی صاحب کی اولاد نرینہ نہ ہو تو مصیبت پڑی ہوتی ہے دوسری اور تیسری شادی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا بلکہ ایک شادی والے بھی بیٹیاں پیدا ہونے پر بیٹے کے چکر میں لمبی لائنیں لگا دیتے ہیں کیا کبھی ہمارے کسی مولانا صاحب نے ان سماجی مجبوریوں اور دردناک رویوں پر غور فرمایا۔ ان تمامتر الجھنوں میں سارے مسائل اور سارے دکھ خواتین کے لئے ہوتے ہیں کئی خواتین کو بیٹا جنم نہ دینے کے جرم میں طلاقیں ہوتی ہیں یا سوتن سہنی پڑتی ہے۔ یہ تقدیس مشرق کے نعرے مارنے والے کبھی غور کریں ہمارے سماج میں طلاق یافتہ خواتین کی کیا قدر و منزلت ہے؟؟ مردوں کی عیاشی کے لئے تو جھٹ سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر آبادی میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو اس کا حل سوائے اس کے کچھ نہیں کہ مرد زیادہ شادیاں کریں ہم پوچھتے ہیں کہ بفرض محال معاملہ اس کے الٹ ہو جائے یعنی مردوں کی تعداد زیادہ اور عورتوں کی کم ہو جائے جس کی دنیا میں بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں چین کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل یہ رپورٹ آئی تھی کہ وہاں کئی خطوں میں Female چائلڈ کی جنس معلوم ہونے کے بعد اسقاط حمل کے اتنے واقعات ہوئے کہ عورتوں کا تناسب خاصا کم اور مردوں کا زیادہ ہوگیاتو دلیلیں ڈھونڈنے والے کیا وہاںاسی اصول پر یہ فیصلہ چاہیں گے کہ ایک خاتون بھی دوسرے، تیسرے یا چوتھے مرد سے شادی کرلے؟؟
بدچلنی، بے راہ روی، بے حیائی، بے غیرتی اور کم ظرفی کے الفاظ ہیں جو کسی بھی وسیع النظر انسان کو ہرگز مناسب نہیں، اصل چیز احترام و وقار انسانی ہے اور پھر جو جتنی کمزور پوزیشن میں ہوتا ہے اس کی اتنی زیادہ دلجوئی کی جانی چاہیے۔ اگر میرے کسی تفریحی فعل سے میرے ملازم کو بھی دکھ پہنچتا ہے تو مجھے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے چہ جائیکہ آپ کی اس حرکت سے آپ کی شریکِ حیات کو دکھ پہنچ رہا ہے حالانکہ اسکی خوشی و دلجوئی آپ کا سب سے بڑا اخلاقی فرض ہے بلاشبہ اپنی خوشی و تسکین کا حصول ہر انسان کا بلاتمیز جنس، فطری و بنیادی حق ہے لیکن کسی دوسرےانسان کی خوشی غارت کئے بغیر۔ کوئی بھی دو انسان اگر کسی تیسرےتکلیف دیئے بغیر جائز خوشی حاصل کرتے ہیں تو کسی بھی سماج کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ انہیں ٹیڑھی نظروں سے دیکھے یاان کے احترام و وقار میں کٹ لگائے۔ ان حوالوں سے جتنی بھی سماجی و اخلاقی ہدایات جاری ہوئی ہیں خواہ آسمانی طور پر یا زمینی طور پر ان سب کی حیثیت وقتی و ہنگامی ہے اور آئندہ بھی اس نوع کے جو ضوابط بنیں گےوہ عالمگیر ہوں گےنہ ابدی، لہٰذا ہر نسل یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے اخلاقی ضوابط اپنی زمانی ضرورت کی مطابقت میں خود طے کرے جب زمانہ اور زمانی تقاضے ہر لحظہ نمو پذیر ہیں تو مجرد سماجی اخلاقیات کو جام یا جامد کرنا انسانیت پر ظلم کا دوسرا نام ہے۔ وقت آگیا ہے کہ انسانی خوشیوں کو قدیمی اعتقادات کی بھینٹ چڑھنے سے روک دیا جائے مغربی تہذیب حریت فکر کی عظمت سے دقیانوسی زنجیروں کو توڑ چکی ہے جبکہ تہذیب مشرق کی بیشتر سوسائٹیاں ہنوز اپنے قدامت پسند متشدد گروہوں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں آج نہیں تو کل ہمیں سماجی اخلاقیات کے نئے عہد ناموں کے لئے اپنے سینے کشادہ کرنا ہوں گے۔
تازہ ترین