• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجب دوغلاپن اور ژولیدہ فکری ہے۔ پرویز مشرف کیس میں سیاست و جمہوریت کے اجارہ داروں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ حکومت کسی کی نہ سنے، کسی دوست ملک کی نہ فوج کی اور سابق فوجی آمر کو پھانسی گھاٹ پہنچا دے مگر طالبان سے مذاکرات میں حکومت فوج کو ’’آن بورڈ‘‘ لے۔ میڈیا کی ڈکٹیشن قبول کرےاور عوامی مینڈیٹ کو چند افراد کی ذاتی پسند، ناپسند پر قربان کردے۔ بریں عقل و دانش بیاید گریست۔
19 طالبان قیدیوں کی رہائی پر سیاسی اور صحافتی سطح پر شور و غوغا اسی دوغلے پن کا شاہکار ہے۔ مزید 100 طالبان قیدی رہا ہوگئے تو معلوم نہیں کیا ہوگا؟ رہا ہونے والے کسی جرم میں ملوث نہیں، محض شبے کی بنا پر پکڑے گئے اور پولیٹکل ایجنٹ کو گرفتاری کی طرح ان کی رہائی کا اختیار ہے؟ یہ سوچنے کے لئے کوئی تیار ہے نہ سمجھنے پر آمادہ، چونکہ اس عمل سے مذاکرات اور اعتماد سازی کو تقویت مل رہی ہے اس لیے بعض سیاسی اور ابلاغی نابغے ذہنی عوام توازن کا شکارہیں اور بے سروپا کہانیاں بیان کرنے میں مصروف۔
2007 میں جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے این آر او کے ذریعے آٹھ ہزار سے زائد مستند لٹیروں، سزا یافتہ قاتلوں اور ملک دشمن دہشت گردوں کے لیے معافی کا اعلان کیا، سندھ اور کراچی کی جیلوں کے دروازے چوپٹ وا کئے، ستر ستر مقدمات قتل میں ملوث افراد کو سرکاری عہدے عطا ہوئے تو 19 قیدیوں کی رہائی پر سیخ پا ہونے والوں میں سے کوئی بولا نہ مجرموں کے سامنے ریاست کے سرنڈر کا شور مچا، اس غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اقدام کے حق میں ایسی ایسی دلیلیں گھڑی گئیں کہ الامان و الحفیظ۔ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک ساری اسلامی تاریخ کو اس آمرانہ اقدام پر چسپاں کیا گیا مگر اب سب تتے توے پر کھڑے اچھل کود کررہے ہیں۔
اس سے پہلے ہماری ترقی پسندوں کے معتوب اور پیپلز پارٹی کے مردودجنرل ضیاء الحق نے حیدرآباد جیل میں بغاوت، غداری اور ملک دشمنی کے الزامات میں قیدخان عبدالولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کو رہا کیا تو کسی جمہوریت پسند کو رٹ آف گورنمنٹ اور قومی مفاد کا دورہ نہ پڑا کیونکہ ہر ہوش مند جانتا ہے کہ مجموعی قومی مفاد قابل توجہ شئے ہے۔ سلامتی کے معاملات میں مشورہ و احتیاط کی اہمیت ہے اور محض ذاتی جذبات یا گروہی تعصب کا پلڑا بھاری رکھنا ریاست کی خدمت نہیں۔
صدر آصف علی زرداری کو اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں دودھ پینے والے بلے کو سزا دینے کا خیال آیا نہ شمالی وزیرستان میں فوج کشی کی ہمت پڑی۔ سب کچھ فوج پر چھوڑ کر آرام سے ایوان صدر میں دہی کھاتے رہے۔ حالانکہ بلے نے تازہ تازہ دودھ پیا تھا اور چک شہزادمیں بیٹھا اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ 2007 میں جب باوردی جرنیل نے صدارتی الیکشن لڑا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دے کر اس الیکشن کو جواز اور اعتماد بخشا کیونکہ کنڈولیزارائس کو خوش کرنا اور وطن واپسی پر پرویز مشرف کے ساتھ شراکت اقتدار کے منصوبے کو پروان چڑھانا مقصود تھا۔
اب مگر محض ریاست کے دو اداروں سول حکومت اور فوج کے مابین غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کے لئے نوازشریف کو ہلہ شیری دی جارہی ہے کہ ’’قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ بدقسمتی سے مسلم لیگ کے بعض عقاب بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ تک بھول گئے کہ اس نعرےکا 1999 میں کیا انجام ہوا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ریاست کے داخلی اور خارجی معاملات چلانا منتخب، سول حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے جمہوری نظام کے تسلسل، قیام امن، سیاسی، سماجی، معاشی کے لیے بنیادی فیصلے کرنے اور اپنی ترجیحات خود متعین کرنے کی آزادی ہے یا وہ جنرل پرویز مشرف کا معاملہ ہو یا طالبان سے مذاکرات کا عمل قدم قدم پر اپوزیشن، فارن فنڈڈ این جی اوز اور فوج کی طرح اپنی بالادستی کے خواہش مند میڈیا کی ڈکٹیشن قبول کرنے کی پابند؟
اگر اسے آزادی عمل میسر ہے تو وہ جمہوری اصولوں کے مطابق بارہ سالہ جنگ کے خاتمے، جاری فتنہ و فساد کے سدباب اور پرامن ماحول کے قیام کے لیے مذاکرات کی آپشن استعمال کرے یا اعتماد سازی کے لیے غیر عسکری اور عسکری قیدیوں کو رہا یہ اس کا آئینی، قانونی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے اور کوئی اسے مطعون کرسکتا ہے نہ کسی دوسرے ادارے کا مشورہ قبول کرنے پر مجبور۔ البتہ اس نوعیت کے فیصلے اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر کیےجائیں اور شخصی فیصلوں سے گریز کیا جائے۔ پرویز مشرف کے حوالے سے بھی مناسب فیصلہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو عدل و انصاف کے تقاضوں اور کمزور جمہوری نظام کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔
سول بالادستی کا تاثر صرف ایک سابق فوجی سربراہ کو پھانسی کے تختے پر لٹکانے سے پختہ ہوگا نہ آئین و قانون کی عملداری کا یہی ایک طریقہ ہے۔ رٹ آف گورنمنٹ روزانہ تھانوں، نچلی عدالتوں، سرکاری دفتروں اور سرداروں، وڈیروں، عوامی نمائندوں کے ڈیروں پر پامال ہوتی ہے۔ آئین و قانون کی مٹی پلید کی جاتی ہے اور عام آدمی کو ریاست اور اس کی عملداری سے متنفر کیا جاتا ہے مگر آج تک کسی حکمران، سیاستدان اور اس کے ہمنوا اور دانشور کو یہ خیال نہیں آیا کہ ریاستی ادارے اور قانونی ضابطے کسی تھانیدار، سول جج، ایم پی اے، وڈیرے اور کلرک بادشاہ کے سامنے بے بس اور رسوا ہیں۔
اگر قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے اور اعتماد سازی کے ذریعے امن عمل کو آگے بڑھانے والی حکومت کے اقدامات پر فوجی قیادت آمنا و صدقنا کہتی اور اپنا خوش دلانہ، مخلصانہ تعاون فراہم کرتی ہے تو اس سے نہ صرف سول و خاکی بیوروکریسی پر سول بالادستی کی راہ ہموار ہوگی بلکہ ان اقدامات سے قیام امن میں مدد ملے گی، غربت، افلاس بے روزگاری، احساس محرومی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور عوام کو قانونی، سماجی، معاشی انصاف فراہم کرنے میں آسانی ہوگی۔ معاشرہ توازن و اعتدال کی راہ پر چلنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ طالبان نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے اور قوم کے علاوہ اشرافیہ کو باور کرایا ہے کہ انصاف کے بغیر معاشرہ چل سکتا ہے نہ جمود و بے حسی کے شکار معاشرے میں قانون کی عملداری ممکن ۔ مگر ہمیں شائد اس کا احساس نہیں۔
قرآن مجید میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ ’’کسی قوم سے نفرت اور دشمنی تمہیں عدل و انصاف نہ کرنے پر آمادہ نہ کردے‘‘ جنرل پرویز مشرف کے ساڑھے آٹھ سالہ دور اقتدار سے پوری قوم کو نفرت ہے مگر کوئی انصاف پسند شہری کسی فرد یا گروہ کےجذبہ انتقام کی تسکین یا سول بالادستی کےشوق میں ناانصافی کا خواہش مند ہے نہ جمہوری نظام میں خلل پڑنے کا روادار۔
اسلام اور شریعت کے لفظ سے الرجک ایک مخصوص طبقے کی اول و آخر یہی کوشش اور خواہش ہے کہ مذاکرات بہرصورت ناکام ہوں، دہشت گردی کی لہر دوبارہ اٹھےاور فوج شمالی وزیرستان پر چڑھائی کرے، لال مسجد کی تاریخ دہرائی جائے مگر قوم لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصبات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کے لیے پرامن ماحول، لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد جاری رکھنا قوم کی خواہش ہے نہ ملکی مفاد میں۔ اس سے سول بالادستی کا خواب بھی بکھر جائیگا۔ مگر دوغلے اور ژولیدہ فکر عناصر کو کیا سروکار؟ وہ تو ریاست کو میدان جنگ بنائے رکھنا چاہتے ہیں اور اب تک اپنے مشن میں کامیاب ہیں۔
تازہ ترین