• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں مغربی تہذیب کے عیب چننے والوں میں سے ہوں نہ ان کی ہر بات پر سر دھننے والوں میں سے۔میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ خوبیاں مستعار لی جائیں اور خامیاں آشکار کی جائیں تاکہ جن نادانیوں کے باعث ان کا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے ،ہم اس نوع کی حماقتوں کے مرتکب نہ ہوں۔میرے سامنے برطانیہ کے نہایت معتبر اخبارات ڈیلی میل اور ٹیلی گراف کی رپورٹیں پڑی ہیں ۔میں ایک نظر انہیں دیکھتا ہوں اور پھر دوسری شادی سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ہو رہی تنقید و تعریض سے متعلق سوچتا ہوں تو مستقبل کی آنکھ میں جھانکتے ہوئے خوف آتا ہے۔برطانیہ کے سرکاری شماریاتی ادارے ONS نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی تو اس کی گونج بہت دور تک سنائی دی۔ برطانیہ میں شادی کا بندھن تو کب کا قصہ ء پارینہ بن چکا مگر اب سرکاری سطح پر اس بات کا اعتراف کر لیا گیا ہے کہ شادی شدہ جوڑے عددی اعتبار سے اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔1995ء میں 30سال سے زائد عمر کے افراد میں سے 56.2فیصد رشتہ ازدواج میں منسلک تھے۔2005ء میں شادی شدہ جوڑوں کی شرح کم ہو کر 50.3 فیصد رہ گئی اور حالیہ رپورٹ جس میں 2011ء کے اعداد وشمار شامل ہیں ،اس کے مطابق 30سال سے زائد عمر کے برطانوی شہریوں میں سے صرف 47فیصد میاں بیوی کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیںباقی 53فیصد کسی نکاح اور شادی کے بغیر ایک چھت تلے اقامت پذیر ہیں یا پھر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کی روش پر کاربند ہیں۔16سال قبل بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے والے جوڑوں کی تعداد4ملین تھی جو اب بڑھ کر 17.8ملین ہو چکی ہے۔آئے دن برطانوی دانشور سر جوڑ کربیٹھتے ہیںاور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر شادی کرنے کا رجحان ختم کیوں ہوتا جا رہا ہے؟اس سوال کا جواب ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ سے ملتا ہے کہ شادی کو اس قدربھاری اور مقدس پتھر بنا دیا گیا ہے کہ کوئی اسے اُٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔حقوق نسواں کے مجارور جو بات تو عورت کی آزادی کی کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد عورت تک رسائی کی آزادی ہوتا ہے،ان ظالموں نے شادی اور طلاق کے سخت قوانین کی صورت میں خواتین کا وہ استحصال کیا کہ اب کوئی ان سے شادی کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔لوگ انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں۔اگر ایک ساتھ رہنا مقصود ہو بھی تو باقاعدہ شادی سے گریز کیا جاتا ہے تاکہ نان نفقہ ،حق مہر اور دیگر حقوق ادا نہ کرنا پڑیں۔یہ صورتحال صرف برطانیہ تک محدود نہیں ،تمام یورپی ممالک اور اس تہذیب کے سرخیل امریکہ میں کم و بیش یہی حالات ہیں۔
ہمارے وہ بہی خواہ جو خواتین کی وکالت کر کے ان کا مقدمہ خراب کر رہے ہیں اور دوسری شادی کو جرم تصور کرتے ہیں،وہ بھی شائد یہی چاہتے ہیں کہ مستورات کو ٹشو پیپر بنا دیا جائے جسے استعمال کر کے پھینکا جا سکے۔سب سے پہلے تو یہ اعتراض کیا گیا کہ تھر میں قحط سالی ہے،معیشت نازک دور سے گزر رہی ہے ،لوگ مہنگائی و بے روزگاری سے تنگ ہیں اور ان مولویوں کو دوسری شادی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔جس دن اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کے لیئے بیوی سے اجازت لینے کے قانون کو شریعت سے متصادم قرار دیا ،اسی روز کئی ہائیکورٹس اور ماتحت عدالتوں میں لو میرج کے مقدمات زیر سماعت تھے اور معزز جج صاحبان نے قوانین کی روشنی میں انہیں نمٹاتے ہوئے رولنگ دی۔اس پر تو کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ایک طرف تھر میں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور دوسری طرف لو میرج کے مقدمات نمٹائے جا رہے ہیں۔اس لیئے کہ مارکیٹ اکانومی کے تحت چلنے والی دانشوری کی دکانوں پر صرف وہی جنس بیچی جا تی ہے جو مغربی منڈی میں مقبول ہو۔چونکہ وہاں یک زوجگی کا تصور تھا وہ بھی اب ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔اس لیئے ہمارے دانشور بھی دوسری شادی کی بات ہوتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ہیں۔ان کی بد حواسی کا یہ عالم ہے کہ کبھی تو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت پر اسلام کو مطعون کرتے ہیں اور کبھی اسلام کو ہی بطور تاویل پیش کرتے ہیں مثلاًاس ضعیف روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کے مطابق حضرت علیؓ نے دوسری شادی کا ارادہ ظاہرکیا تو حضرت فاطمہ ؓ خفا ہوگئیں اور آپ ﷺ نے کہا جس نے فاطمہؓ کا دل دکھایا اس نے میرا دل دکھایا۔آنحضور ﷺسے منسوب یہ روایت قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر انہیں اپنی لخت جگر کے لیئے سوتن گواراہ نہیں تھی تو یقیناوہ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ بھی یہ معاملہ برداشت نہ کرتے ۔بعض شیخ الحدیث اس کا پس منظر یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ اور حضورﷺ کی ناراضگی کی وجہ دوسری شادی نہیں تھی بلکہ جس جگہ شادی کا سوچا جا رہا تھا وہ تکلیف دہ بات تھی۔بہرطور اس روایت کو درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک پیغمبر کی بیٹی جو جنت کی خواتین کی سردار ہے،اگر اس عظیم المرتبت بیوی کی رفاقت میں حضرت علیؓ کو دوسری بیوی کی حاجت محسوس ہو سکتی ہے تو پھر آجکل کے مرد حضرات پر دوسری شادی کے حوالے سے کیسے قدغن لگائی جا سکتی ہے؟
جب سب دلائل پھیکے پڑنے لگتے ہیں تو دوسری شادی کی مخالفت میں ایک آخری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسلام نے اگر اجازت دی ہے تو ساتھ ہی عدل کی شرط بھی لگا دی ہے۔اب چونکہ انسان کسی بھی صورت انصاف نہیں کر سکتا ،اس لیئے بہتر یہی ہے کہ ایک بیوی پر ہی اکتفا کیا جائے۔جب زندگی کے ہر معاملے میں عدل کی دھجیاں اڑانے والے یہ لوگ عدل کا قفل لگا کر دوسری شادی کا دروازہ بند کر کے بدکاری کی کھڑکی کھولنے کی کوشش کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کیا اسلام نے صرف دوسری شادی کے معاملے میں ہی عدل کا حکم دیا ہے؟عدل کا حکم تو پہلی بیوی کے حوالے سے بھی ہے اور انسان خطا کار ہے کمزور ہے تو کیا ایک شادی بھی نہ کی جائے اور یورپی معاشرے کی طرح شادی کیئے بغیر بے عدلی اور نا انصافی روا رکھی جائے؟عدل کا حکم تو بچوں کے درمیان بھی ہے تو کیا ایک سے زائد بچے پیدا نہ کیئے جائیں کہ ان کے درمیان انصاف نہ کر سکیں گے؟عدل کا تعلق تو استطاعت کے ساتھ ہے۔اگر آپ تمام بیویوں کو الگ کمرہ لیکر دینے کی حیثیت رکھتے ہیں تو الگ کمرہ بنوا دیں ،اگر استطاعت ہے تو سب کو الگ گھر میں رکھیں۔جس طرح پہلی شادی کے ضمن میں حق مہر کا تعین شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے اسی طرح دوسری یا تیسری بیوی کے حوالے سے بھی سب کے عدل کا معیار اور تقاضا الگ الگ ہے۔اور اسلام نے عدل کی شرط نہیں رکھی ،حتی المقدور عدل کی شرط رکھی ہے۔برصغیر کے اسلام پر چونکہ ہندوازم کی گہری چھاپ ہے اسلئے مذہبی گھرانوں کی خواتین بھی دوسری شادی کوقبول کرنے پر تیار نہیں ہوتیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مردیا تو گناہ کی راہ پر چل نکلتے ہیں یا پھر خفیہ طور پر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ہردونوں صورتوں میں وہ بیویاں بھی گناہ میں برابر کی شریک ہیں جو دوسری شادی کا نام آتے ہی آگ بگولہ ہو جاتی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی یہ چلن عام ہوتا جا رہا ہے کہ سوتن گوارہ نہیں تو گرل فرینڈ پر اکتفا کریں ۔وہ مرد جو دوسری شادی کی ہمت کر لیتے ہیں انہیں بھی دوسری بیوی کو گرل فرینڈ کی طرح چھپا کر ہی رکھنا پڑتا ہے۔
تازہ ترین