• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر میں ایک مرتبہ پھر تشدد کا الائو بھڑک اٹھا، اور اس مرتبہ اس میں پاکستان کی پالیسیوں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ بہت سے پاکستانی، جن کا تعلق ملک کی تیسری نسل سے ہے ، تاثر ہے کہ ملک کی جغرافیائی حدود میں توسیع نہیں چاہتے ۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ بر ِ صغیر کے عوام کے خوشحال مستقبل کا دارومدار پاکستان اور انڈیا کے بقائے باہمی پر ہے نیزوہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نہ تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا ترجمان ہے اور نہ ہی اُن کی نمائندگی کرتا ہے ۔ تاہم جب چودہ سالہ انشاملک کاچہرہ گولیوں سے چھلنی ہو تو انسانی احساسات رکھنے والے کس شخص کو نیند آسکتی ہے ؟
اس پر ہر شخص کی اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کس طرح حل کیا جائے ، لیکن بھارتی ریاست کشمیروںسے جو سلوک کررہی ہے، وہ انسانی حقوق کے حوالے سے ناقابل ِ قبول ہے ۔یہ اکیسویں صدی ہے ۔ کس طرح ایک اکثریت ، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے ، اپنے ہی شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روارکھتے ہوئے اُن پر وحشیانہ تشدد کرنے پراتر سکتی ہے ؟بھارت میں اٹھنے والی تنقیدی آوازیں کہاں ہیں؟ ریاست سے کیوں نہیں پوچھا جارہا کہ وہ کشمیریوں کو مساوی شہریوں کا درجہ دینے اور اسے انڈین یونین میں ضم کرنے میں کیوں ناکا م ہوگئی ؟حتیٰ کہ تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی ، جس نے 1971 کے بعد آنکھ کھولی اور جسے پاک بھارت جنگوں کا کوئی احساس نہیں اور جو محض تجسس کی خاطر تاریخ پر سرسری سی نگاہ ڈالتا ہے کہ پاکستان کیوں وجود میں آیا، اور جسے اپنے ماضی کی نسبت اپنے مستقبل کی زیادہ فکر ہے ، اُس کیلئے بھی کشمیر میں جاری ڈرائونے خواب سے خود کو بچانا ممکن نہیں۔کیا ایک ہمسایہ ملک پوری آبادی کے جذبات برانگیختہ کرسکتا ہے؟
ہم نے خود سے یہ سوالات بلوچستان کے حوالے سے بھی پوچھے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کا روایتی ریاستی بیانیہ بھارت کے کشمیربیانیے سے مختلف نہیں تھا، لیکن گزشتہ ایک عشرے سے اس میں ایک سوچ ابھرتی محسوس ہوتی ہے ۔ ابھی بھی بہت سے ایسے افراد ہیں جو سوچتے ہیں کہ بلوچستان میں را اور این ڈی اے کی مداخلت کے بغیر شورش برپا نہیں ہوسکتی،لیکن دوسری طرف یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ اگر بلوچ مشتعل ہیں تو یقینا کہیں نہ کہیں ریاست کی بھی غلطی ہوسکتی ہے ۔ تو پھر یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ اس غلطی کو دور کرنے اور اپنے بھائیوںکے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ جس نظریے کی خاطر بلوچ ریاست سے لڑرہے ہیں ، وہ اس سے بہت مختلف ہے جو فاٹا میں لڑائی کا باعث ہے ، حالانکہ دونوں جگہ ہی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ بلوچ اپنے سیاسی حقوق کی بات کرتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ مسلح گروہ پرتشدد کارروائیاں بھی کرتے ہیں لیکن وہ کسی پر اپنے نظریات مسلط نہیں کرنا چاہتے ۔ دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان اور اور دیگر جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ریاست ِ پاکستان پر قبضہ کرکے اس پر اپنے نظریات مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اگربلوچوں کو حقوق دے دئیے جائیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے لیکن دوسرے گروہ(انتہا پسندوں) کوحقوق دینے سے معاملہ مزید بگڑ جائے گا۔ ریاستیں اپنے مخصوص مفادات کیلئے تباہ کن سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتی ہیں۔اس ضمن میں انڈیا اور پاکستان کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں، لیکن جس طرح انڈیا اپنے طور پربلوچستان میں شورش برپا نہیں کراسکتا، چاہے وہ جتنے چاہے ایجنٹ اور مسلح اہل کار بھیج لے ، اسی طرح پاکستان بھی کشمیر میں تحریک شروع نہیں کراسکتا۔ جس طرح بلوچ اپنے حقوق کیلئے مشتعل ہیں، اسی طرح کشمیری بھی اپنے حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں۔ اُنہیں بھی خودمختاری اور اپنے حقوق کا تحفظ درکار ہے ۔ جب انڈیا نے وادی کو ایک فوجی چھائونی میں تبدیل کردیا ہے اور نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے تو پھر کشمیریوں کے پاس کون سا راستہ باقی رہتا ہے ؟تاہم جس دوران کشمیریوں کی تیسری نسل اپنے حقوق اور عزت کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے، پاکستان کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اس کی اب تک بنائی گئی کشمیر پالیسی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔جوکچھ ہم کرتے رہے ہیں، اس کی بجائے ہمیں اس بات پر اتفاق ِرائے پیدا کرنا ہے کہ ہمیں کیا کچھ نہیں کرنا چاہئے ۔ سب سے پہلے تو ہمیں کشمیر کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی علاقائی تنازع کے طور پر پیش کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ کشمیر دوہمسایوں کے درمیان ’’جائیداد کی تقسیم ‘‘ کا جھگڑا نہیں ،یہ انسانی المیہ ہے جہاں انسانوں، جو مہذب دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، کو اُن کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ جب پاکستان اور انڈیا 1947ء کو وجود میں آئے تو دنیا دوسری جنگ ِعظیم کے خاتمے بعد پیش آنے والے حالات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کررہی تھی۔ یواین چارٹر عمل میں آیا جو تھیوری کے اعتبار سے اتفاق کرتا تھا کہ کسی بھی دو ریاستوں کے درمیان امن قائم رکھنے والے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کریں اور علاقائی حدود میں مداخلت سے گریز کریں ۔ تاہم اُس وقت نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد نئی ریاستوں کے وجود میں آنے کا سلسلہ بہت تیز تھا، اور دنیا کا نقشہ تیزی سے تبدیل ہورہا تھا۔اُس ہنگامہ خیز دور میں ابھرنی والی دنیا استحکام کی طرف بڑھنے لگی ، وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ دنیا میں سوچ راسخ ہونے لگی کہ اب علاقائی حدود اور عالمی حد بندیوں کو مزید تبدیل نہ کیا جائے ۔ نوآبادیاتی دور میں حقوق اور استصواب ِ رائے کے مطالبے کا احترام کیا جاتا تھا ، لیکن جب دنیا اُس مرحلے سے آگے بڑھ گئی تو سمجھ لیا گیا کہ یہ معاملہ اب اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے ۔ اس ضمن میں کشمیر کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔ اب دنیا میں وجود میں آنے والی ریاستیں ایک دوسرے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پابندتھیں۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ اب ہتھیاروں کی مدد سے دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش انسانوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دے گی، چنانچہ اس کی حوصلہ شکنی کی جانے لگی۔
موجودہ دنیا میںاپنے مستقبل کا تعین بنیادی حقوق کے طور پر جمہوری نظام کے اندر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس لئے یہ حق محفوظ رکھا گیا کہ کوئی بھی قومیت اپنے ملک سے جمہوری طریقے سے الگ ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ اسکاٹ لینڈ اور Québec میں ہونے والے ریفرنڈم، لیکن اس تصور کو اب عالمی برادری تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ کوئی ملک زبردستی دوسرے ملک کی زمین کو فتح کرلے ۔ چنانچہ کشمیر کی آزادی ایک بات، اس کا بھارت یا پاکستان کے ساتھ ملنا دوسری بات ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو کسی طور ’’کشمیر آزاد ‘‘ کرانے کیلئے جہادی تنظیموں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے ۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں ہم نے دیکھا کہ کوئی دوسری ریاست کسی کیلئے اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا یہ انتہا پسند تنظیمیں۔ اس وقت بھارتی ریاست کشمیر کی آزادی کیلئے لڑنے والوں کو انتہا پسند بنا کر پیش کرتی ہے اور دنیا اس کی بات سنتی ہے ۔ پاکستان کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کشمیر کے فوجی حل کی بات کرکے بھارت کے موقف کو تقویت نہ دے۔ کشمیری مجاہدین یقینا پوری دنیا کے نظام کو الٹ پلٹ کر بھارت کو اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کررہے، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ اُنہیں اُس حق سے محروم رکھا گیا ہے جس سے دنیا کے دیگر افراد لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کو عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے، جس طرح ہم نے ماضی میں کیا تھا، ہم کشمیروں کی کوئی خدمت نہیں کریںگے۔ موجودہ دنیا میں کشمیری مجاہدین کو بھی القاعدہ اور داعش کی طرح انتہا پسند قرار دلانا انڈیا کیلئے زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ چنانچہ کشمیریوں کی جدوجہد کو عقید ے کا رنگ دینے کا نہ تو کشمیر کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی پاکستان کو۔ ہم پہلے ہی 80 کی دہائی میں بوئی ہوئی نام نہادجہاد کی زہریلی فصل آج کاٹ رہے ہیں۔ مزید حماقت کرنے کی گنجائش نہیں۔ آخر ی بات، اگرچہ کشمیر کو تشدد کے شعلوں میں جلتے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ لگتا ہے لیکن اس کی قسمت کا دارومدار کشمیر یوں کی پرامن جدوجہد پر ہے ۔ ہمیں بھی ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہنا چاہئے۔ اُنہیں ہماری اخلاقی حمایت کی ضرورت رہے گی، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
تازہ ترین