• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمی کی آمد آمد ہے، تیکھے بیانات نے ماحول کو ترش بنا دیا ہے گویا ماحول موسم کے ساتھ گرم آلود ہے۔جس میں اضافے کا سبب چند وزراء کے بیانات بنے تو جنرل راحیل شریف کو بولنا پڑا۔ دنیا بھر میں حساس قومی اداروں پر تنقید نہیں ہوتی۔ یہ انوکھی بستی ہے جہاں جس کے منہ میں جو آتا ہے اُگل دیتا ہے۔ تھوڑا سا سوچ لیجئے، ماضی کے صرف چند اُوراق کو الٹ پلٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئینے کو سامنے رکھ لیجئے کیونکہ آئینے کا سامنا کرنا خاصا دشوار ہے۔
صاحبو! سوال اتنا سا ہے کہ وہ کون کون تھے جنہوں نے ضیاء الحق کی آمریت کے لئے راستے ہموار کئے۔ وہ کون تھے جو عظیم رہنما بھٹو کو پھانسی چڑھوانے میں پیش پیش تھے، وہ کون لوگ تھے جو ایک سیاستدان کی موت پر خوش ہوئے تھے، جنہوں نے جشن منائے تھے، مٹھائیاں بانٹی تھیں، کیا یہ سب لوگ جمہوریت کے خدمت گار تھے، سوائے نوابزادہ نصراللہ خان کے اور کوئی بھٹو کی تعزیت بھی نہ کرسکا تھا جب عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا تھا تو وہ کون تھے جو ضیاء الحق کے سامنے سجدہ ریز تھے؟
کہانی کا اختتام یہاں نہیں ہوتا۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی تصویریں آج بھی ضیاء الحق کے ساتھ سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔کون کون ضیاء الحق کے دائیں بائیں کھڑا ہوتا، نام لینے کی ضرورت نہیں، اس کا نام لکھنے کی بھی ضرورت نہیں، لوگ سمجھدار ہیں بزرگ نہیں تو ان کے بچے سوشل میڈیا سے یہ تصویریں دکھا سکتے ہیں۔
نام نہاد جمہوریت کے پرستاروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ یاد رکھیں کہ 1981ء میں کون مجلس شوریٰ کا چیئرمین بنا تھا، وہ کس کا باپ تھا، کس کس کا رشتہ دار شوریٰ میں شامل تھا، کچھ ایسے بھی ہیں جو ہنوز زندہ ہیں جو خود کو ضیاء الحق کا اوپننگ بیٹسمین کہلواتے ہیں۔ ایک اور سینیٹر صاحب بھی شوریٰ میں تھے۔ کس کے باپ کو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بڑی مشکلوں سے میاں نعیم الرحمٰن سے جتوایا گیا تھا، وہ کس کا باپ تھا جسے ضیاء الحق قومی اسمبلی کا اسپیکر بنوانا چاہتا تھا مگر انور عزیز چوہدری کی چالبازیوں نے سید فخر امام کو اسپیکر بنوا دیا۔ یوں 1985ء میں ضیاء الحق کو پہلی شکست ہوئی۔
صاحبو! پردہ نشینوں کے نام بہت ہیں چلو تذکرہ دوچار کا کافی ہے۔ وہ کون تھا جو آمرانہ دور میں پنجاب کا وزیر خزانہ تھا، کس کا باپ پنجاب کا وزیر مواصلات تھا، ذرا سوچئے کہ وہ کون لوگ تھے جن کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا تھا اس کی تفصیل کا خزانہ نسیم آہیر اور حمید گل کے پاس ہوگا۔ وہ کون لوگ تھے جنہیں بے نظیر بھٹو شہید کا مینڈیٹ چُرا کر دے دیا گیا۔ وہ کون تھے جن میں آئی ایس آئی نے رقم تقسیم کی اور وہ کون تھے جن کے الیکشن میں دہشت گرد تنظیموں نے رقم جھونک دی تھی۔ 1990ء اور 1997ء کے الیکشن اسٹڈی کرلیں آپ کو دھاندلی کی سمجھ آجائے گی۔ اگر سمجھ نہ آئے تو پھر 2013ء کے پنکچر لگانے کے عمل کو دیکھ لیجئے۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو چند ریٹرنگ آفیسرز کے آف دی ریکارڈ انٹرویو کولیں اور اگر پھر بھی آپ سمجھنے سے قاصر رہیں تو پھر نادرا سے طارق ملک کی برطرفی پر غور کرلیں۔ آج بھی انگوٹھوں کی تصدیق کے عمل میں تاخیری حربے استعمال ہورہے ہیں۔ میڈیا نے اپنا کام کردیا تھا، ٹھپوں اور بیلٹ پیپرز کی تمام کارروائیاں مختلف ٹی وی چینلز نے دکھا دی تھیں۔
چلو یہ تو آپ کو پتہ ہوگا کہ وہ کون تھے جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر حملہ آور ہوئے تھے اگر یہ بھی پتہ نہیں تو پھر آپ اتنا تو ضرور جانتے ہوں گے کہ جنرل مشرف نے جو ایمرجنسی لگائی تھی اس کی سمری کس نے تیار کی تھی اور وہ صاحب آج کس کی کابینہ کے رکن ہیں۔ یہ ماضی بعید کا قصہ نہیں ماضی قریب کی بات ہے کہ جنرل مشرف کے ڈیڑھ سو سے زائد ساتھیوں نے کس پارٹی کا ٹکٹ لیا، وضاحت کی ضرورت نہیں۔
جنرل مشرف نے بارہ اکتوبر 1999ء کو بڑا گناہ کیا اور نومبر 2007ء میں بہت چھوٹا گناہ کیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو بڑے گناہ کو معاف کرکے چھوٹی سی غلطی کا حساب مانگتے ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ کچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں اگر مشرف کے خلاف کارروائی کرنی ہی تھی تو پھر بارہ اکتوبر 1999ء سے کیوں نہ کی گئی؟ یہ سوال ذہنوں میں الجھا رہے گا۔
جب جنرل مشرف پر مقدمہ قائم کردیا گیا اور جب وہ اسپتال میں تھے تو وہ دو حکومتی اراکین کون تھے جنہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ جنرل صاحب پیش ہو جائیں پھر ہم ای سی ایل سے نام نکال دیں گے۔ افسوس پھر ایسا نہ ہوسکا، وہ تین وزیر کون ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کی نہ مانی اور بولنا شروع کردیا۔ وزیراعظم کی تو پالیسی اور تھی وہ تو مٹھی میں بلاول بھٹو زرداری سے جپھی ڈال چکے تھے اور بنی گالہ میں عمران خان سے ہاتھ ملا چکے تھے۔ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کے صلح نامے پر سیاہی مل دی۔
بہت دن پہلے اس خاکسار نے لکھا تھا کہ ایکس سروس مین سوسائٹی کے سربراہ ایڈمرل فاروق نے مجھے بتایا کہ ’’ہم ہر صورت میں مشرف کا تحفظ کریں گے‘‘ یہی بات جنرل راحیل شریف نے ایک دوسری طرح سے کردی ہے۔ نہ جانے کیوں نادان لوگ اپنی فوج پر تنقید کررہے ہیں۔ نامعلوم وہ کیوں اپنی فوج کے سابق سربراہ کو ’’غدار‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہیں اگر اپنا نہیں تو اپنی پارٹی کا خیال کرنا چاہئے یا کم از کم پاکستان ہی کا خیال کرلینا چاہئے۔
پاکستان مشکلات میں ہے، ابھی دوران تحریر خبر آئی کہ اسلام آباد کی سبزی منڈی میں زور دار دھماکہ ہوا ہے جس میں دو درجن سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔
آپ کو میں نے بہت ماضی یاد کرایا، اب کچھ حال کی خبریں دیتا ہوں، سنا ہے ایک معروف سیاستدان خاتون نے میڈیا کی ایک اہم شخصیت سے شادی کرلی ہے ایک دوجے کے سسرال آنا جانا ہوچکا ہے، واضح رہے کہ دونوں شخصیات جنرل مشرف کے قریب ترین رہی ہیں۔ ایک طاقتور شخصیت نے پیغام دیا ہے کہ مجھے ہر حال میں آفریدی کپتان چاہئے۔ ایک اور اہم شخصیت نے کہا ہے کہ معین خان سے پوچھ گچھ کر لی جائے تو ہار کے تمام ’’اسباب‘‘ سامنے آجائیں گے۔ ملتان کی ایک معروف گلوکارہ لاہور کینٹ میں شفٹ ہوگئی ہیں۔ چلتے چلتے ذائقہ بدلنے کے لئے احمد فراز کا شعر پیش خدمت ہے کہ
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو
تازہ ترین