• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف راحیل شریف کے بیان میں کوئی ابہام نہیں یہ ان کی ذمہ داری تھی۔ جنرل نے پارلیمینٹ کی تحقیر کی نہ منتخب حکومت کی حرمت پامال، صرف فوج کے وقار کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا مگر خواجہ آصف نے جو خیر سے وزیردفاع بھی ہیں، قومی اسمبلی میں جواب آں غزل کہہ کر خواہ مخواہ بات بڑھانے کی کوشش کی۔ اڑتے تیر کو بغل میں لینے کا شوق پورا کیا۔
سول آرمی تعلقات پر دفاعی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں نے ہزاروں صفحات سیاہ کرڈالے۔ کئی سابق جرنیلوں نے کتابوں میں فوج کی اندرونی ساخت پر روشنی ڈالی۔ دفاعی امور کے امریکی ماہر سٹیفین پی کوہن نے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اپنی کتاب ’’پاکستان آرمی‘‘ میں چشم کشا تجزیہ کیا مگر ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کو مطالعہ کا شوق نہ کسی معاملے پر سنجیدگی سے سوچنے کی فرصت اور نہ ماضی سے سبق حاصل کرنے کی توفیق۔ چھیڑچھاڑ کی عادت اتنی پختہ کہ جنرل راحیل شریف جیسے نرم خو کو ردعمل ظاہر کرنے اور مکے لہرانے پر مجبور کردیا۔
پرویز مشرف کو اپنے گلے کی پھانسی حکمرانوں نے خود بنایا ورنہ وطن واپسی پر عوامی بے اعتنائی کے ذریعے انہیں خاصی سز ا ملی اور رہی سہی کسر عدالتی فیصلوں نے پوری کردی۔ کسی دلیل، اپیل اور وکیل کے بغیر ہر جگہ سے ان کے کاغذات یوں مسترد کئے گئے جیسے جسٹس افتخار محمد چودھری نے طاہر القادری کیس کو نمٹایا تھا۔ راولپنڈی میں یوم عاشورہ پر صورتحال خراب ہوئی تو وزیراعظم کی بیرون ملک موجودگی کے دوران وزیر داخلہ نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا اور پورے ملک میں جنرل پرویز مشرف کی آڑ لے کر فوج کی کردار کشی ، تذلیل و توہین کا آغاز ہو گیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہر ٹی وی چینل پر فوج کو گالیاں دینے والے ایک شخص کو برطانیہ میں سفیر نامزد کیاگیا اور دوسرے کئی بانداز ِ دیگر نوازے گئے۔
پرویز مشرف پر سنگین غداری، بغاوت اور ملک سے بے وفائی (مستند لغات میں Treason کا یہی ترجمہ درج ہے) کے الزام میں اندراج مقدمہ، عدالتی کارروائی اور فردِ جرم کو حکومت کا تاریخی کارنامہ اور سول بالادستی کا مظہر قرار دینے والوں نے کس کی خدمت کی؟ اس کا فیصلہ وقت اور تاریخ کے ذمے۔
بلاشبہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں شریف خاندان نے دکھ اٹھائے، اقتدار سے معزولی، قید و بند اور جلاوطنی۔ جاوید ہاشمی کی طرح خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور پرویز رشید کو ذہنی، جسمانی اور روحانی اذیت سے گزرنا پڑا مگر کیا سیاست اور حکمرانی میں ذاتی جذبات اور احساسات اہمیت رکھتے ہیں یا قومی مفادات سیاسی و جمہوری اور ضرورتوں کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے پارلیمینٹ ہائوس کے سامنے جو کچھ کہا وہ شائد درگزر اور چشم پوشی کا مستحق تھا مگر حامد میر کے پروگرام میں خواجہ آصف کی بڑھکیں اور احتساب کا دائرہ پرویز مشرف کے حکم نامے پر انگوٹھا لگانے والوں تک وسیع کرنے کا اعلان خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا۔
ایک غیرمصدقہ مگر معتبر اطلاع کے مطابق پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کے سامنے حاضری اندرخانے یقین د ہانیوں کانتیجہ تھی کہ پھر ان کا نام ای سی ایل سے خارج ہوگا اور والدہ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جاسکیں گےمگر پرویز مشرف کی حاضری اور عدالتی فیصلے کے بعد حکومت اپنے وعدے سے مکر گئی جس پر فوجی قیادت کو یہ احساس ہوا کہ حکومت فریب کاری میں مصروف ہے۔ وعدہ خلافی کی پرانی عادت پر کاربند، پرویز مشرف محض بہانہ ہے، فوج اصل نشانہ اور 12اکتوبر سے3نومبر تک پنڈورا بکس کھولنے کی تیاری مکمل
مکہ مکرمہ میں کفار (یہ لفظ لکھتے ہوئے میں لبرل دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ وہ قرآنی اصطلاحات کا برا مناتے ہیں) نے حضور اکرمؐ اور اصحاب رسولؐ پر جو مظالم ڈھائے وہ مشرف دور میں مسلم لیگیوں پر ہونے والی زیادتیوں سے ہزار گنا زیادہ تھے مگر فتح مکہ کے موقع پر آپ نے عام عافی کااعلان فرمایا تاکہ معاشرہ توازن و اعتدال پر چلے اور ماضی کا اسیر نہ رہے۔ آپؐ تو خیر رحمتہ اللعالمین تھے، ماضی قریب میں 28 سال تک گوروں کی قید کاٹنے اور ہر طرح کی جسمانی، روحانی اذیتوں کا نشانہ بننے والے نیلسن منڈیلا نے ہمارے آقا و مولاؐ کے نقش قدم پر چلنے کو ترجیح دی اور تاریخ میں سنہرے حروف سے اپنا نام لکھوایا۔ یہ قانون کی حکمرانی سے انحراف یا آئین شکن ، قانون شکن، عوام دشمن اور نسلی امتیاز کے علمبردار گوروں کے لئے رعایت نہ تھی تو شاید کوئی ڈیل بھی نہیں۔ معاشرے کو ماضی کے اندھیروں سے نکال کر درست راستے پر چلانے کی سعی و تدبیر تھی مگر ہم؟
جنرل راحیل شریف کے بیان میں کسی دوسرے ادارے کے بارے میں منفی ایک حرف نہ کہا گیامگر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا ہونے کی دعوت دی تاکہ پارلیمینٹ اور اس کے ارکان مل جل کر اپنا دفا ع کرسکیں۔ جس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ سول آرمی تعلقات میں بہتری کے بجائے دیگر ریاستی اداروں کو اپنا تابع مہمل بنانے اور آرمی چیف کو گریڈ 22 کا افسر بنا کر آئی جی پولیس کی طرح احکام صادر کرنے کے ارادے اٹل ہیں اور میاں نوازشریف حکمرانی کے حوالے سے اپنے تازہ رول ماڈل طیب اردوان کے نقش قدم پر چلنے ، بعض سابق جرنیلوں کو جیلوں کی سیر کروانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور پرویز مشرف آغاز ہے انجام خدا جانے۔
کوئی مانے نہ مانے جمہوریت اپنے ثمرات سے اب تک عام آدمی کو مستفید نہیں کرسکی۔ جمہوریت کے بنیادی اجزا قانون کی حکمرانی، فیصلوں میں اجتماعیت اور شفافیت اور گڈگورننس کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور غریب آدمی کی زندگی اجیرن ہے۔ سپریم کورٹ کو گزشتہ روز کہنا پڑا کہ حکومت اگر غریب کو سستا آٹا فراہم نہیں کرسکتی تو چوہے مار گولیاں ہی دے دے۔ مگر محاذ آرائی اور اداروں کے درمیان کشمکش کے شوقین لاپرواہ ہیں۔
سول بالادستی کے چشمے مشرف کیس سے نہیں طالبان حکومت مذاکرات سے پھوٹتے ہیں اور جمہوری نظام کی مضبوطی یا کمزوری کا زیادہ تر انحصار بھی ان مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی پر ہے۔ امریکہ، بھارت اور ہمارے دوسرے مہربانوں کی طرح اگر فوج ان مذاکرات سے خوش نہیں تو معلوم کرناچاہئے کہ اس ناراضگی کا سبب کیا ہے؟ اس ضمن میں حکومت اور فوج ہم آہنگ ہیں یا پینٹگان اور جی ایچ کیو Same page پر؟ یہ تحقیق بھی ہونی چاہئے۔
ان دنوں پرویز مشرف اورطالبان کے حوالے سے کوئی معقول بات کرنا آسان ہے نہ کوئی اطمینان اور خوشدلی سےسننے پر آمادہ مگر جمہوری نظام کے تسلسل اور حب الوطنی کا تقاضہ یہی ہے کہ دونوں معاملات میں حکومت اور فوج مل جل کر اعتدال، عفو و درگزر اور مفاہمت کی راہ نکالیں کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی کارگزاری سے نالاں اور انداز ِ کار سے مایوس عناصر اپنا غصہ پرویز مشرف کی آڑ میں نہیں نکالیں گے۔ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی بساط الٹا کر اپنے وجود کا ثبوت دیں گے اور پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور دوسرے جمہوریت پسندوں میں سے کوئی حکومت کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آئے گا۔ جمہوریت اور میاں نوازشریف کے حقیقی خیرخواہ ذاتی انتقام کی آگ میں جلنے والے عقاب صفت نہیں جو انہیں حسینہ واجد کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ آخری تجزیئے میں صرف وہی اعتدال پسند جو نیلسن منڈیلا کا ذکرکرتے ہیں۔
تازہ ترین