• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان میں صدارتی انتخاب کا مرحلہ بخیر خوبی انجام کو پہنچ چکاہے۔ یہ انتخابات جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے کامیاب انعقاد کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔بظاہر کچھ مغربی اور پاکستانی دانشور اپنی کوتاہ نظری سے ان انتخابات کو امریکہ کی بڑی فتح اور طالبان کی ناکامی پر منتج کر رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں امریکہ مخالف قوتوں کی یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی ہے کہ افغانستان میں پُرامن انتخابات کے ذریعے اقتدار آنے والی حکومت کے سپرد کر کے غیر ملکی افواج سے جان چھڑائی جائے۔ افغان طالبان نے بھی اسی منصوبہ بندی کا سہارا لیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی صدارتی انتخابات کے کامیاب انعقاد پر افغان قیادت کو مبارکباد کا پیغام دیا ہے۔ اگرچہ طالبان نے صدارتی انتخابات کے متعلق اپنے تحفظات کااظہارکیا ہے اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی میں افغانستان میں شفاف اور منصفانہ الیکشن ممکن نہیں ہو سکتے لیکن ایک قابل غور بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی طرف سے افغان صدارتی انتخاب کے دن پورے ملک میں کہیں شدید مزاحمت بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یوں طالبان نے ایک کامیاب گیم پلان کے ذریعے امریکہ و نیٹو فورسز کے افغانستان میں مزید قیام کے جواز کو ناکام بنادیاہے۔اب غیر ملکی افواج کو اپنے طے شدہ اعلان کے مطابق افغانستان سے اپنابوریابستر سمیٹناہے۔امریکی ونیٹوممالک کی افواج کوافغان صدارتی انتخاب کاہی انتظار تھا۔اب بہت جلد ان کاباقاعدہ انخلاء شروع ہونے والا ہے۔2014ء کے اختتام تک اکثروبیشتر غیر ملکی افواج افغانستان سے رخصت ہوجائیں گی۔افغانستان میں امریکی ونیٹوممالک کی ڈھائی لاکھ فوج موجود ہے۔شنید ہے کہ امریکہ اس میں سے صرف 10ہزار فوجی وہاں رکھے گا۔غالب امکان ہے کہ باقی فوجی بھی امریکی عوام کے دبائوکی وجہ سے زیادہ عرصہ تک افغانستان میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔افغانستان سے مکمل فوج کے نکالنے کیلئے امریکی صدر اوباما پر اس وقت زبردست عوامی دبائو موجود ہے۔امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے خاتمے کے بعد پاکستان کے حالات بھی معمول پر آنا شروع ہوجائیں گے۔اس کام کی ابتداء ہوچکی ہے۔نوازشریف حکومت نے وقت اور موقع کی مناسبت سے قبائلی علاقوں میں امن کے قیام کیلئے دیرپا اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ طالبان سے حکومت کے مذاکرات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کی بالغ نظری سے دوطرفہ مذاکراتی عمل آخری مرحلے میں داخل ہوچکاہے۔
اسلام آباد میں سول اور عسکری قیادت کے اجلاس میں ایک بار پھر اس بات پر اتفاق کیاگیاہے کہ طالبان سے امن مذاکرات جاری رہیں گے اور طالبان کے مطالبات کے حل کیلئے حکمت عملی بھی تیار کرلی گئی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت سول اور عسکری قیادت کے اس اعلیٰ سطحی حالیہ اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار،آرمی چیف جنرل راحیل شریف،ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ظہیر الاسلام اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔اس اہم اجلاس میں خطے کی صورتحال،اندرونی سلامتی ،طالبان سے مذاکرات اور امریکی ونیٹوفروسز کے انخلاء کے بعد پاکستان کے کردار پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا۔ واقفان حال کاکہناہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے طے کرلیا ہے کہ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء کے بعد بھارت کوکسی بھی طور پر افغانستان میں صورتحال سے فائدہ اٹھانے کاموقع نہیں دیا جائیگا۔ امریکہ پر بھی پاکستانی حکومت زور ڈال رہی ہے کہ وہ بھارت کی افغانستان میں مداخلت کوختم کرے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کی بڑی وجہ افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کاموجود ہوناہے۔پاکستان امریکہ پر یہ دبائو بھی ڈال رہاہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کاکردار اداکرے اور بھارت کوسلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے مجبور کیاجائے۔
طالبان سے مذاکرات کے سلسلہ میں سول اور فوجی قیادت جس طرح ایک پیج پر موجود ہیں۔جنرل(ر)پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں یہ کیفیت دکھائی نہیں دے رہی۔آرمی چیف فوج کے وقار کے تحفظ کے تازہ ترین بیان سے ملک میں سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔ فوج پاکستان کا ایک مضبوط اور باوقار ادارہ ہے۔پوری قوم اس قابل فخرادارے کااحترام کرتی ہے۔پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے یہ لازمی ہے کہ ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں۔جہاں تک جنرل (ر)پرویز مشرف کےمقدمے کامعاملہ ہے اسے فوجی قیادت کو ادارے کے طور پر نہیں لیناچاہئے۔پرویزمشرف نے دومرتبہ آئین توڑا۔یہ ایک فرد کامعاملہ ہے جس نے آئین شکنی کی اس بارے میں عدالت عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق جوفیصلہ دے گی اس کوتمام اداروں کو خوش دلی سے قبول کرناچاہئے۔ملک کے سنجیدہ سیاسی وقومی حلقوں کا کہناہے کہ اگرجنرل راحیل شریف کو کوئی تحفظات تھے تو وہ وزیر اعظم سے براہ راست ملاقات کرکے انہیں ختم کرسکتے تھے۔ بیانات سے اداروں کے درمیان ٹکرائو پیداہوتاہے جوکہ جمہوری نظام کیلئے کسی طورفائدہ مند نہیں۔ پرویزمشرف کامقدمہ حکومت کیلئے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔اگر ان کے خلاف مقدمے کا قانون کےمطابق فیصلہ ہوگا توآئندہ کسی طالع آزماکوآئین شکنی کی جرأت نہیں ہوسکے گی اور پاکستان میں جمہوریت مضبوط ومستحکم ہو گی۔ 11مئی کے الیکشن میں نوازشریف حکومت کو پاکستان کے عوام نے نام نہاد امریکی جنگ سے نکلنے کیلئے مینڈیٹ دیا تھا۔ پاکستان کے عوام ملک میں امن چاہتے ہیں اس لئے وہ مذاکراتی عمل کی کامیابی کیلئے دعاگو ہیں۔حکومت پاکستان کو مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیوں بروئے کارلانا چاہئے۔آپریشن فوبیاکی شکار چند جماعتیں اور دانشور اپنی دکان چمکانے کیلئے مذاکراتی عمل کی مخالفت کررہے ہیں۔حالانکہ حکومت، طالبان دوطرفہ جنگ بندی سےدہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ بم دھماکے سے بھی طالبان نے اظہار لاتعلقی کیا ہے۔ یہ واقعہ دہشت گرد عناصر اور مذاکرات مخالف بیرونی قوتوں کی کارستانی لگتا ہے مگر فہم و فراست سے عاری بعض دانشوروں کے رویّے پر صرف افسوس ہی کیاجا سکتا ہے جنہیں اب بھی ملک میں امن کی فضا میں بہتری سجھائی نہیں دے رہی اور وہ اب بھی مسئلے کےحل کیلئے صرف فوجی آپریشن کے خواہشمند ہیں۔ ان بزرجمہروں سے پوچھناچاہئے کہ پاکستان میں آج تک جتنے بھی ملٹری آپریشن ہوئے ان کانتیجہ کیانکلا؟سوات اور بلوچستان میں آپریشنوں سے حالات میں کوئی بہتری ہوئی وہ مزید خراب ہوئے۔ ویسے بھی جنوبی ایشیاء کے موجودہ منظرنامے میں پاکستان ملٹری آپریشن کامتحمل نہیں ہوسکتا۔اگرہم افغانستان سے امریکی ونیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر قابو پالیتے ہیں تو آئندہ آنے والے دس سالوں میں پاکستان گوادر پورٹ اور اپنے معدنی وسائل کی بدولت ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتاہے۔ اگرچہ بھارت نے نائن الیون کی آڑ میں خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے اب تک بھرپور فائدہ اٹھایاہےاور وہ امریکہ کی سرپرستی میں تعمیر نو کے ’’بہانے‘‘ افغانستان میں اپنے قدم بھی جما چکاہے لیکن مستقبل کے افغانستان میں اس کی چالیں کامیاب نہیں ہو سکیں گی اور اسے منہ کی کھاناپڑے گی۔ بھارت امریکہ کی سرپرستی میں آج تک افغانستان میں بیٹھ کر سازشیں کرتا رہاہے۔بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھارت نے دہشت گردی کے ذریعے حالات کومسلسل خراب کئے رکھا اور وہ اس زعم میں مبتلا تھا کہ پاکستان کے داخلی انتشار میں الجھے رہنے سے اسے مسئلہ کشمیر پربات کرنے کی فرصت ہی نہیں ملے گی لیکن افغانستان میں امریکی ونیٹو افواج کی ناکامی امریکہ اور بھارت کایہ مذموم ایجنڈا بھی ناکامی سے دوچار ہو گا۔ حکومت اور طالبان مذاکراتی عمل کی کامیابی کیلئےدونوں فریقوں کوبیگناہ قیدیوں کوفی الفور رہا کر دینا چاہئے۔ حکومت نے طالبان کے کچھ قیدیوں کو رہا کیا ہے۔یہ قابل تحسین امر ہے کہ فریقین میں اعتماد سازی سے معاملات ٹھیک سمت میں چل رہے ہیں۔ مذاکرات کے اس فیصلہ کن مرحلے میں طالبان کو بھی اپنی تحویل میں غیر عسکری افراد کوحکومت کے حوالے کرناچاہئے اور جنگ بندی کادورانیہ بھی تین ماہ یااس سے زیادہ بڑھاناچاہئے۔اس سے مستقل امن کے قیام میں پیشرفت ہوسکے گی۔
تازہ ترین