• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممتاز امریکی فلسفی اور دانش ور ’’ ول ڈیورانٹ ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ ہیروز کی تاریخ ‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ آیئے ! شیکسپیئر کے نا خوش بادشاہ سے انحراف کرتے ہوئے مل بیٹھیں اور اعلیٰ و عظیم مردوں اور عورتوں کی بہادرانہ کہانیاں سنائیں ۔ ‘‘ ول ڈیو رانٹ کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ جب چھوٹے اور بونے لوگ عظمت اور بڑائی کے دعوے دار ہوتے ہیں تو فکری بحران پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ان لوگوں کا تذکرہ کرنا چاہئے ، جن کی عظمت کو تاریخ اور وقت نے تسلیم کیا ہو ۔ ول ڈیورانٹ کی بات پر عمل کرتے ہوئے آج ایک پاکستان کے ہیرو کی کہانی پیش کی جاتی ہے ۔ یہ پاکستانی ہیرو ’’ میجر جیوفری ڈگلس لینگ لینڈز ‘‘ (Maj Geoffrey Douglas Langlands ) ہیں ۔ ان کا تعلق برطانیہ سے ہے لیکن انہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان کو دے دی ہے ۔ داستان گوئی میں اگر کسی تبصرے ، تجزیے اور رائے کو شامل کردیا جائے تو داستان گوئی کا مزہ نہیں رہتا اور اس داستان میں پوشیدہ حکمت اور دانش واضح نہیں ہوتی ہے ۔ لہذا یہاں ایک عظیم شخص کی صرف مختصرکہانی بیان کی جاتی ہے ۔ میجر لینگ لینڈز 1917ء میں انگلینڈ کے شہر ہل (Hull ) میں پیدا ہوئے ۔ 1918ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور 1928ء میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے بہت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی ۔ 1936ء میں انہوں نے انگلینڈ کے ایک اسکول میں ریاضی کے استاد کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔ وہاں ان کی تنخواہ 5 پاؤنڈز ماہانہ تھی ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ فوج میں بھرتی ہوئے اور برٹش انڈین آرمی کے ایک ’’ کمانڈو ‘‘ کی حیثیت سے 1944ء میں غیر منقسمہندوستان آئے ۔ 1947ء میں جب بر صغیر تقسیم ہوا تو ان کے دیگر ساتھی افسروں نے فوراً سامان باندھا اور برطانیہ واپسی کے لیے بحری جہازوں میں بیٹھ گئے ۔میجر لینگ لینڈز نے یہاں رہنا پسند کیا اور پاک فوج کی تربیت کی ۔ 7 سال تک وہ پاک فوج کے ایڈوائزر رہے لیکن ان میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ اپنے سابقہ پیشے تدریس کو دوبارہ اختیار کرلیں ۔ 1954ء میں وہ ایچی سن کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے اور ریاضی کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ 1980ء کے عشرے میں انہوں نے شمالی وزیرستان میں رزمک کیڈٹ کالج کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی ۔ 1989ء میں انہوں نے کوہ ہندو کش کے خوبصورت شہر چترال میں اپنے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ پہلے وہاں اسکول اور پھر کالج قائم کیا ، جو ان کے نام سے منسوب ہے ۔ انہوں نے اپنی تنخواہ صرف160 پاؤنڈز یعنی پاکستانی 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ۔ انہوں نے ساری زندگی شادی نہیں کی ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ اگر وہ کسی پاکستانی یا برطانوی خاتون سے شادی کرتے تو وہ خاتون پہلا مطالبہ یہ کرتی کہ واپس انگلینڈ چلو لیکن میں پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کیونکہ میرا مستقبل پاکستان سے وابستہ تھا اور میرے سارے رشتے پاکستان سے تھے ۔ ان کے بھائی گذشتہ 60 سال کے عرصے میں ان سے 4 بار ملنے آئے لیکن وہ شاید ایک آدھ بار ہی انگلینڈ جا سکے ۔ ان کے شاگردوں میں بڑے بڑے لوگ ہیں ، جن میں پاکستان تحریک انصاف کے صدر عمران خان، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور دیگر شامل ہیں ۔ ایک شاگرد نے انہیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ دینے کی بھی پیشکش کی لیکن وہ پھر بھی انگلینڈ نہیں گئے ۔ ان کی ساری زندگی کا اوڑھنا بچھونا تدریس ہی رہا ۔ وہ پاکستان کے بچوںکو انتہائی معیاری تعلیم دینے کی دھن میں مگن رہے ۔ انہیں یہ بھی پتا تھا کہ پاکستان کے حالات کیا ہیں ، اس کے باوجود انہوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا ۔ 1988ء میں انہیں اغواء بھی کرلیا گیا ۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں اغواء کاروں کے ساتھ مسلسل ساڑھے 6 گھنٹے تک پہاڑی علاقوں میں چلتا رہا ۔ آخرکار وہ مجھے ایک جگہ لے گئے ، جہاں چار افراد پہلے سے قید تھے ۔ میں ان میں وی آئی پی مغوی تھا ۔ فوج اس گاؤں پر حملہ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ حملے کی صورت میں اغواء کار ہمیں قتل کردیتے ۔ پاکستانی حکومت اور فوج نے علاقے کے بزرگوں سے رابطہ کیا ، جنہوں نے اغواء کاروں سے بات چیت کرکے اس شرط پر مجھے رہائی دلائی کہ اغواء کاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی ۔ ‘‘ یہ واقعہ میجر لینگ لینڈز کے لیے جواز فراہم کرتا تھا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جس وجہ سے برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے لوگ پاکستان نہیں آتے ہیں ، اسی وجہ سے میں پاکستان میں رہتا ہوں کیونکہ یہاں بہتری کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی لیے انہوں نے اپنے کالج کا اصول حکمت ( Motto ) یہ رکھا کہ ’’ بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے ۔ ‘‘ میجر لینگ لینڈز کی عمر اب 94 سال ہے ۔ انہوں نے انگلینڈ کی ایک خاتون مس شو فیلڈ کو کالج کا پرنسپل بنا دیا ہے اور خود ریٹائرمنٹ کی زندگی ایچی سن کالج لاہور کے احاطے میں ایک مکان میں گذارنا چاہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ انگلینڈ اس لیے واپس نہیں جا سکتے کہ انگلینڈ کے اخراجات کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور یوں بھی ان کے دوست اور سارے رشتے پاکستان میں ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے تمام صدور ، وزرائے اعظم اور فوجی حکمرانوں سے ملاقاتیں کی ہیں ۔ ان ملاقاتوں میں شاید انہوں نے اپنے ادارے کے لیے مالی امداد کی بات کی ہو گی ۔ بعض حکمرانوں نے اس ادارے کو امداد فراہم بھی کی ہو گی لیکن میجر لینگ لینڈز ریٹائرمنٹ کی زندگی برطانیہ میں نہیں گذار سکتے کیونکہ ان کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں ۔کہانی ختم ہوئی ۔ اب ہم تبصرہ کر سکتے ہیں ۔ تبصرہ کیا ہو سکتا ہے ۔ میجر لینگ لینڈز بھی سابق کمانڈو ہیں لیکن انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ کبھی نہیں لگایا ۔ ہم سب برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف بھاگنا چاہتے ہیں لیکن میجر لینگ لینڈز آخری سانس تک پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں ۔ بس مٹی اور انسانوں سے محبت ۔ ان کی عظمت کا اعتراف مشتاق لاشاری سے زیادہ کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ مشتاق لاشاری کا تعلق جھنگ کے ’’ جھوک ملئیاں ‘‘ سے ہے ۔ وہ عالم شباب میں برطانیہ چلے گئے تھے ۔ وہ برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما ہیں ۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ملکوں میں جمہوریت ، انسانی حقوق اور سماجی ترقی کے لیے وہ ’’ تھرڈ ورلڈ سالیڈیرٹی ‘‘ نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ وہ اس تنظیم کے بانی چیئرمین ہیں ۔ اس تنظیم کے تحت ہفتہ 12 اپریل 2014ء کو لاہور میں میجر لینگ لینڈز کے ساتھ ایک شام منائی جا رہی ہے ۔ اس تقریب میں انہیں انسانیت کی خدمت کا ایوارڈ بھی پیش کیا جائے گا ۔ یہ تنظیم دنیا میں ان لوگوں کو ایوارڈز دیتی ہے ، جو حقیقی معنوں میں عظیم ہیں اور ہمت ، جرأت ، امید اور خدمت کا نشان ہیں ۔ 28 سال میں یہ تنظیم صرف4 لوگوں کو ایوارڈز دے چکی ہے ۔ ان میں ایک ڈاکٹر امیر ماجد ہیں ، جن کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرہ سے ہے ۔ وہ نابینا ہیں اور انہوں نے قانون میں 3 ڈاکٹریٹ کی ہیں ۔ آج کل وہ لندن میٹرو پولیٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ دوسرا ایوارڈ علی اسماعیل عباس کو دیا گیا ، جو عراق میں پہلی امریکی بمباری کا نشانہ بنے تھے ۔ ان کے تمام اہلخانہ شہید ہو گئے تھے ۔ 9 سالہ علی اسماعیل عباس نہ صرف 90 فیصد جل گئے تھے بلکہ ان کے دونوں بازو بھی کٹ گئے تھے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے برطانیہ میں ان کا علاج کیا تھا ۔ وہ آج بھی بہتری کی امید میں حوصلہ مندی کے ساتھ جی رہے ہیں ۔ تیسرا ایوارڈبیرسٹر صبغت اللہ قادری کو دیا گیا تھا ، جو پہلے مسلمان اور پاکستانی ہیں ، جنہیں برطانیہ کی کوئنز کونسل میں شامل کیا گیا ۔ چوتھا ایوارڈ نصف صدی تک برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ رہنے والے لیبر پارٹی کے عظیم رہنما ٹونی بین کو دیا گیا ۔ مشتاق لاشاری کا شکریہ کہ ان کے سبب عظیم لوگوں کی کہانیاں سنانے کا موقع ملا ۔
تازہ ترین