• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تربیلا میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان پر کور کمانڈوز کانفرنس نے مہر تصدیق ثابت کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ فوج کے رینکس اور فائلز میں پرویز مشرف غداری کیس کے حوالے سے بے چینی ہے اور وفاقی وزراء بالخصوص وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیا ن نے جلتی پر تیل ڈالا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟ وہ وفاقی وزراء کی گوشمالی کرتے اور خواجہ آصف سے وزارت دفاع کا منصب واپس لیتے ہیں یا اپنے آرمی چیف کے بیان کی وضاحت طلب کرتے ہیں جس طرح انہوں نے ایک بیان پر سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے مانگی اور جمہوریت پسند جرنیل نے استعفیٰ دیدیا۔
تیسری دنیا کے حکمرانوں کی یہ خوش فہمی ہمیشہ بگاڑ پیدا کرتی ہے کہ عوام کا مینڈیٹ انہیں ہر قومی ادارے کو تابع فرمان بنانے، ہر جائز نا جائز فیصلہ کرنے اور شاہی انداز میں معاملات چلانے کا حق دیتا ہے۔ 1997ء میں میاں صاحب کے عقاب صفت ساتھیوں نے انہیں یہی باور کرایا کہ عالمی حالات بدل چکے، فوجی مداخلتوں اور آمریتوں کا دور لد گیا اور ریاست چلانا اب فوج کے بس میں نہیں رہا اس لیے ’’میاں صاحب کڑاکے کڈھ دیو‘‘ مگر جب میاں صاحب کے کڑا کے نکالنا شروع ہوئے تو کوئی آس پاس بلکہ دور دراز نظر نہ آیا۔ آجکل ’’ تُن کے رکھو‘‘ گروپ حاشیہ نشین ہے۔
خواجہ آصف جیسے تند خوساتھی کو وزیر دفاع تو میاں صاحب نے ایک قانونی ضرورت کے تحت بنایا مگر حسن انتخاب کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ پچھلے دور حکومت میں انہوں نے اٹارنی جنرل کے منصب پر اس قانون دان کو فائز کیا جس کی اعلیٰ عدلیہ کے بعض ارکان سے بول چال بند تھی اور وزیر دفا ع ایسے ایسے رہے کہ جو حکومت اور فوج کے مابین پل بننے کے بجائے اختلافات کی خلیج بڑھاتے اور لگائی بجھائی کا شوق پورا کرتے رہے۔
خواجہ صفدر مرحوم جیسے مرد معقول کے فرزند خواجہ آصف اپنےنامور والد کے حوالے سے معذرت خواہی کا شکار ہیں اور مرحوم کے جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کا چیئرمین بننے پر شرمندہ حالانکہ ایوب خان کو ڈیڈی پکارنے اور ضیاء الحق کی روحانی اولاد کہلانے والوں میں سے کوئی شرمندہ ہے نہ معذرت خواہ۔ پاکستان میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے اور ملک کو کنگال اپنی اگلی چار چھ نسلوں کو خوشحال کرنے والوں کی اولا دمیں سے کسی نے قوم سے معافی مانگی نہ اظہار شرمساری کیا۔ حتی کہ ملک توڑنے کی سازش میں شریک یا سرغنہ سے نسبی اور خاندانی تعلق پر بھی نہیں۔
محمد خان جونیجو نے بطور وزیراعظم رانا نعیم کو وزیر دفاع برائے مملکت بنایا اپنی جمہوریت پسندی کا نقش جمانے اور وزیراعظم کو وفاداری کا یقین دلانے کے لئے انہوں نے اس ادارے کے بارے میں بیان بازی شروع کردی جس کا دفاع ان کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری تھی۔ پیمانہ صبر لبریز ہوا تو اپنے آپ کو ’’صابر سلطان‘‘ قرار دینے والے جنرل ضیاء الحق نے ایک تقریب میں وزیر دفاع کو مخاطب کیا ’’ہمیں ڈیفنڈرز درکار ہیں پراسیکیوٹرز نہیں‘‘ وزیر دفاع کے بیانات سے بھی شائد کور کمانڈرز کو یہ پیغام ملا کہ موصوف ڈیفنڈر کے بجائے پراسیکیوٹر کا کردار ادا کررہے ہیں تبھی تحفظات اور ناپسندیدگی کی اطلاعات منظر عام پر آئیں۔
پاکستان کو اس وقت اپنی آزادی، سلامتی، استحکام اور وحدت و یکجہتی کے حوالے سے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہےاورر یہ حکمرانوں سے درست ترجیحات اور ذمہ دارانہ سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ غربت کا یہ عالم کہ جہانیاں کی نور بی بی نے اپنا لخت جگر ملتان کی ایک سٹیج اداکارہ کو چودہ ہزار میں بیچ دیا ہے مائیں اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہی ہیں اور جنسی درندوں کے ہاتھوں عزتیں لٹوانے والی دوشیزائیں خودسوزی پر مجبور۔ دہشت گردوں نے عام آدمی کو عدم تحفظ کے شدید احساس میں مبتلا کردیا ہے مگر حکمرانوں کی ترجیحات میں اولیت واحد متحد اور مضبوط ادارے فوج پر بالادستی حاصل کرنا اور حیلوں بہانوں سے چھیڑ خانی کر کے اس کا ٹالرنس لیول چیک کرنا رہ گیا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف فرمایا کہ سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے چین سے ایک ارب کے سکینر منگوائے جو بےکار نکلے اطلاع یہ ہے کہ ایک ارب کے نہیں بارہ ارب کے سکینرز منگوائے گئے اور سات ارب روپے کی ادائیگی ہو چکی مگر وزیر داخلہ کرپشن کے اس میگا سکینڈل پر کارروائی کرنے کے بجائے محض پوائنٹ سکورننگ کر رہے ہیں نیب بھی خاموش ہے کیونکہ یہ ادارہ اب مجرموں کو سزا دینے نہیں بلکہ قانونی موشگافیوں کے ذریعے بریت کےسرٹیفکیٹ جاری کرنے پر مامور ہے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو زر بابا اور چالیس چوروں کے خلاف کارروائی کی یاد دہانی کرائی جائے تو جواب ملتا ہے ’’آپ چاہتے ہیں کہ کرپشن پر کارروائی کر کے ہم ایک اور محاذ کھول لیں۔ ہمارے پاس کرنے کو اور بھی بہت سے کام ہیں‘‘۔ ظاہر ہے پرویز مشرف کا کیس ترجیح اول ہے، اس پر انتقامی کارروائی کا شبہ کرنے والے فوجی افسروں اور جوانوں کو مشتعل کرنا دوسری اور پچھلے سال عام انتخابات میں بدترین دھاندلی پر پردہ ڈالنا تیسری ترجیح ہے نیا محاذ کھولنے کی فرصت کہاں؟
وزیر دفاع نے گزشتہ روز ارکان پارلیمنٹ کوجس جتھے بندی کی دعوت دی وہ کس کے خلاف تھی؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ بیشتر ارکان پارلیمنٹ یہاں جمہوریت کو پروان چڑھانے، ایک کرپشن فری،کرائم فری اور انصاف پسند معاشرہ وجود میں لانے کے لئے نہیں آئے اپنے ذاتی خاندانی، قبائلی اور گروہی مفادات کا تحفظ کرنے آئے ہیں اور کسی شفاف الیکشن کی پیداوار نہیں سینٹ کی داخلہ کمیٹی نے گزشتہ روز عام انتخابات میں بدترین دھاندلی کی تصدیق کی اور ایک نشان انگوٹھا پر ایک ہزار ووٹ ڈالنے کا انکشاف ، اسی بناء پر الیکشن ٹربیونل چار ماہ کا کام دس ماہ تک مکمل نہیں کرسکے۔ کس کس حلقے کے انتخاب کو کالعدم قرار دیں ہر جگہ جعلی ووٹوں کی بھرمار اور نشان انگوٹھا غائب۔
کہا یہ جاتا ہے کہ فوج کسی ملک اور قوم کا دفاع کرتی ہے اور ریاست کے علاوہ حکومت اس کی عزت و وقار کا تحفظ۔ مگر یہاں حکومت کا کام صرف ٹیکس وصول کرنا،8.25 فیصد مہنگی ترین شرح سود پر یورو بانڈ جاری کرنا رہ گیا ہے۔ جبکہ ترکی نے یہ بانڈ 4.37 اور سری لنکانے 4 فیصد پر جاری کیے یا پھر قومی خزانے کو ذاتی اور خاندان عیش و عشرت پر خرچ کرنا اور عوام کو دہشت گردوں، لٹیروں، ڈاکوئوں، قبضہ گروپوں اور اغوا برائے تاوان مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خواب خرگوش کے مزے لوٹنا ہے۔ ’’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘‘ قومی ادارے کو بھی اپنے وقار کا تحفظ خود کرنا پڑیگا۔ وزیر دفاع کا کام صرف فوجی اہلکار کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا ور ٹی وی چینلز پر ذاتی دکھ بیان کرنا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانے والوں کا استدلال یہ ہے کہ ازاں بعد کسی فوجی مہم جو کو مارشل لاء لگانےیا سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کی جرات نہ ہوگی مگر حکمرانوں کےلچھن اور روز بروز سیاسی محاذ آرائی میں اضافے کے علاوہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس میں بڑھوتری دیکھ کر اعتدال و مفاہمت کا مشورہ دینے والوں کو خدشہ ہے کہ جب خدا نخواستہ پانی سر سے گزرا تو یہی سزا اور عدالتی فیصلہ مداخلت کا بہانہ بن سکتا ہے اور اب کی بار شائد آئین معطل نہیں منسوخ ہو اور آرٹیکل چھ کا تیاپانچہ کرنے والے اس کھونٹے پر ناچنے والے افراد اور اداروں سے بھی ناشائستہ انداز میں نمٹیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
1998ء میں جنرل جہانگیر کرامت کا بیان میاں صاحب کو گراں گذرا اور انہوں نے جنرل سے استعفیٰ طلب کیا۔ اب لاہور سے تعلق رکھنے والے دوسرے جرنیل کے بیان پر لے دے ہورہی ہے اور وجہ نزاع ایک بار پھر فوج کا ایک سابق آرمی چیف ہے۔ خدا خیر کرے۔ دیکھیں خواجہ آصف جتھے بندی میں کامیاب رہتے ہیں اور میاں صاحب کو ’’تن کے رکھو‘‘ کا مشورہ دینے والے سرخرو؟یا جمہوریت کے تسلسل کے لئے دانشمندی اور احتیاط کی راہ دکھانے والے فاختہ صفت جنہیں بالعموم جمہوریت کا مخالف اور بزدل تصور کیا جاتا ہے۔
تازہ ترین