• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سجاد سے میرا تعلق 10سال پرانا ہے۔ڈیرہ غازی خان دور دراز پہاڑی علاقے کا یہ مکین تعلیم میں تو آگے نہیں بڑھ سکا البتہ چھوٹی موٹی کھیتی باڑی کے ساتھ دیگر مشاغل میں مصروف رہتا ہے۔ گزشتہ چار سالوں سے میرا سجاد سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا دور دراز علاقے کا گاؤں اب بھی مواصلات کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔گزشتہ رات تاخیر سے اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی تو جانی پہچانی سی آواز سنائی دی۔ دوسری طرف سجاد مخاطب تھا۔ پریشانی کے عالم میں کہنے لگا کہ آج کافی عرصے بعد میں نے شہر کا رخ کیا اور تمہارا نمبر حاصل کیا ہے۔ دوسری باتوں کے بعد وہ تجسس سے پوچھنے لگا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ میں کتنا وقت باقی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا وہ خود ہی کہنے لگا ’’گزشتہ دو ماہ سے بذریعہ ڈاک سپریم کورٹ ایچ آر سی درخواست بھجوا رہا ہوں مگر ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ سجاد کی اس لاعلمی پر مبنی گفتگو نے مجھے حیران کر دیا۔ میرے کانوں میں تو سجاد کی گفتگو کی گونج تھی مگر مجھے اس کے الفاظ سن کر امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عہد یاد آگیا ۔جب دارالخلافہ سے سیکڑوں میل دور ایک علاقے کا چرواہا جنگل سے روتا پیٹتا بستی کی طرف آرہا تھا اور کہہ رہا تھاکہ لوگو! خلیفہ عمر بن عبدالعزیز منصب پر نہیں رہے۔ لوگوں نے اسے پاگل سمجھا اور کہا کہ تجھے یہ خبرکس نے دی کہ خلیفہ وقت کا اقتدار نہیں رہا تو اس نے جواب میں کہا کہ جب سے عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے اس وقت سے میری بکریوں کے ساتھ بھیڑئیے بھی ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ آج جب میں دوپہر کو بکریوں کوجنگل میں چھوڑ کر گھر آیا کچھ سستانے کے بعد واپس ریوڑ کی طرف گیا وہاں میں نے دیکھا کہ میری ایک بکری کم ہے سو مجھے یقین ہوا کہ بھیڑیا میری بکری کھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے مجھے یہ کہنے کی جرأت ہوئی ہے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ہم میں نہیں رہے۔میں ان اچانک خیالات سے واپس آیا اور سجاد کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تو گزشتہ سال دسمبر میں ریٹائر ہوچکے ہیں تم اب دوبارہ درست پتہ کے ساتھ اپنی درخواست ایچ آر سی کو بھیجو ۔سپریم کورٹ کا ایچ آر سی سیل اسی فعال انداز میں کام کر رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر تمہاری دادرسی کرے گا مگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کی بات سن کر تو شاید سجاد پر گہرا سکوت طاری ہو چکا تھا اور اس نے مایوسی کے عالم میں فون ہی منقطع کر دیا۔ فون بند ہونے کے بعد بھی میں سجاد کی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ پاس پڑی ہوئی اس کتاب کا خیال آگیا جو تاریخ کی ایک منفرد کتاب ہے۔اس عہد کی ایسی تصنیف جو ایک عہد ساز شخصیت پر ایک عام سے ڈرائیور نے تحریر کی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زندگی پر لکھی جانے والی پہلی کتاب جی ہاں!!!سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جواد ایس خواجہ کے ڈائیور سردار علی حسن نے تحریر کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان میں عدالتی تاریخ کو نئی جہت دینے والے عدلیہ کے سابق چیف جسٹس پر کوئی معروف وکیل رہنما کتاب لکھتے مگر سردار علی حسن نے وہ کردیا جو ملک میں آئین و قانون کے بڑے بڑے متولی بھی نہیں کر سکے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر اور بھی کتابیں لکھی جائیں مگر ان کا اور اس کتاب کا کوئی جوڑ نہیں ہو گا۔علی حسن کی تصنیف ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘کی اہم بات یہ ہے کہ کتاب میں تمام اہم واقعات راقم کے سابق چیف جسٹس کے روبرو ہونے والے انٹرویوز سے لئے گئے ہیں۔ افتخار محمد چوہدری نے پہلی مرتبہ اس کتاب کے توسط سے ان واقعات کا خود ذکر کیا ہے جنہیں سننے کے لئے لوگ بیتاب تھے کہ سابق چیف جسٹس نے آمر وقت کی لاقانونیت کو کیسے للکارا تھا۔ افتخار محمد چوہدری کی زندگی پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ گزشتہ ایک دہائی میں رونما ہونے والی اہم ترین واقعات سے بھری پڑی ہے۔
افتخار محمد چوہدری کوئٹہ کے ڈفرن اسپتال میں 12دسمبر 1948کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جان محمد صاحب نے بچے کا نام افتخار رکھا مگر وہ اس سے بے نیاز تھے کہ ان کا افتخار آنے والے وقتوں میں ملک و قوم کے لئے باعث افتخار ہوگااور اس کے ذریعے عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا۔ اپنی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب میں والدین کو یاد کرتے ہوئے افتخار محمد چوہدری کہتے ہیں کہ میری بس ایک ہی تمنا تھی کہ کاش والدین زندگی کی مزید کچھ بہاریں دیکھ لیتے۔ والدہ سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا پیار آج بھی ان کے دل میں ایسے موجزن ہے ،جیسے ایک زندہ شخص کرتا ہے۔ افتخار محمد چوہدری کہتے ہیں کہ ان کی والدہ محترمہ کی ہمیشہ خواہش رہی کہ افتخار ڈاکٹر بنے مگر شاید قدرت کو ان سے کچھ اور کام لینا تھااور وہ اس نے لیا بھی۔آج دنیا بھر میں جہاں بھی آئین و قانون کی بالادستی کی بات ہوتی ہے تو پاکستان کا ذکر افتخار سے کیا جاتا ہے۔جہاں تک رہی ڈاکٹر بننے کی بات تو مملکت خداداد نے وہ وقت بھی دیکھا کہ دنیا کی معروف جامعات نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینا اپنے لئے اعزاز سمجھا۔ ایس ایم لا کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے والے افتخار محمد چوہدری نے باقاعدہ پریکٹس کا آغاز بلوچستان سے کیا۔ وکالت میں جلد ہی آپ نے وہ مقام حاصل کرلیا کہ نواب اکبر بگٹی مرحوم جیسے زیرک شخص کی بھی خواہش تھی کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے کیس میں ان کی پیروی افتخار محمد چوہدری کریں۔ اگر افتخار محمد چوہدری کسی شخصیت کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں تو وہ نواب اکبر بگٹی مرحوم کی ذات ہے۔ بلوچستان میں ایڈووکیٹ جنرل اور پھر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے افتخار بننے تک کے تمام واقعات کا اس کتاب میں تفصیل سے ذکر ہے۔ عوامی مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ازخود نوٹسوں اور افتخار محمد چوہدری کے دور میں زیر سماعت رہنے والے تمام اہم کیسوں کو بھی اس کتاب میں تحریر کیا گیا ہے۔
اپنی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب میں افتخار محمد چوہدری نے مصنف کو انٹرویو دیتے ہوئے 9مارچ اور3نومبر 2007ء کو ہونے والے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔اسی کتاب میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا بھی ذکر ہے جو20مارچ کو لاہور ہائیکورٹ سے یہ کہہ کر منصب سے مستعفی ہوگئے کہ عدلیہ کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے گزشتہ دس دنوں کے حالات کے پیش نظر وہ عدالتی کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس کتاب میں آزاد عدلیہ کی معزولی سے لے کر ملک میں آئین و قانون کی بحالی تک کے تمام تاریخی واقعات کا ذکر ہے جو ایک کالم میں سموئے نہیں جا سکتے۔ EOBIاسکینڈل پر ازخود نوٹس لینا تو ایک اتفاق تھامگر اس کے بعدعدلیہ کے ادارے کی بالادستی قائم کرنے والے مرد طرح دار افتخار محمد چوہدری کی ذات کو اس طالبعلم کو انتہائی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہری باب تھے۔ جب بھی مورخ تاریخ لکھے گا تو اسے یہ لکھنے میں ہرگز ہچکچاہٹ نہیں ہو گی کہ پاکستان کے افتخار واقعی اس چمن کے دیدہ ور تھے اور شاید افتخار محمد چوہدری کے بارے میں ہی شاعر نے کہا ہے کہ
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی
تازہ ترین