• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کے عوام تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے غیرمعمولی شجاعت اور دلیرانہ مہارت کے ساتھ خالی ہاتھ مسلح باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں شکست فاش دی، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے چند گھنٹوں کے اندر ’’مسلح بغاوت‘‘ کو کچل ڈالا، انقرہ اور استنبول کی پولیس کی بجا طور پر تعریف کرنی چاہئے جنہوں نے بھاری جانی نقصان کے باوجود اپنی قومی، قانونی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کیا۔ عوام اور پولیس کا باہمی تعاون اور تال میل ہی تھا جس کی وجہ سے بغاوت فرو ہو گئی اور اس پر جلد ہی قابو پا لیا گیا۔ بغاوت کے اصل محرک پر ابھی کھل کر کچھ بھی نہیں کہا گیا لیکن جو کچھ ہمارے ٹی وی چینلز، تجزیہ کار اور حکومت کے وفادار کہہ رہے ہیں، ترکی کے صدر طیب اردوان اور ان کی حکومت کی رائے اس کے برعکس ہے، ہمارے لکھاری اور تجزیہ کار ترک حکومت کی اسلا م کی حمایت میں پالیسیوں کے خلاف فوج کے لبرل اور سیکولر طبقوں کا ردعمل قرار دے رہے ہیں جبکہ ترکی کے صدر اس کا الزام ’’فتح اللہ گولن‘‘ کی تحریک پر دھرتے ہیں۔ فتح اللہ گولن کو آپ ترکی کا ’’سید مودودی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے ترکی میں فوج کے جارحانہ سیکولر ازم کے خلاف بڑی مدلّل اور منظم مگر پرامن اور مؤثر تحریک چلائی۔ وہ ایک عرصہ تک طیب اردوان کی رہنمائی اور سرپرستی بھی کرتے رہے۔ ان کی ابتدائی کامیابیاں فتح اللہ گولن کے تربیت یافتہ لوگوں کی حمایت سے ممکن ہوئیں۔ بعد میں طیب اردوان کی سیاسی حکمت عملی او راقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ترک عوام کے دلوں میں ان کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں اور وہ مقبول عوامی لیڈر بن کر ابھرے۔ تب ان کے گولن کے ساتھ سیاسی اختلافات پیدا ہو گئے( جس طرح نوازشریف کے جماعت اسلامی کے ساتھ ہوئے تھے) چنانچہ طیب اردوان نے گولن کی تحریک سے متاثر لوگوں کو شہری انتظامیہ اور پولیس سے نکال باہر کیا۔ اب انہیں ایک اور سنہری موقع میسر آیا ہے کہ وہ عدلیہ اور فوج میں بھی ان کے حامیوں کو نکال باہر کریں۔ اب فوج میں بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا ۔ بعض آئینی ترامیم بھی بہت تیزی کے ساتھ جلد ہی متوقع ہیں جس سے ترکی میں فوج کا کردار اور بھی محدود ہو جائے گا۔ ترکی کے اردگرد حالات پاکستان کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں، ا سے بھی اپنے اردگرد بڑی طاقتوں، سازشی ہمسایوں اور علاقائی جارحیت کا سامنا رہتا ہے، لہٰذا ترکی بھی فوج کی تعداد اور قوت کوکم نہیں کر سکتا۔وہاں بھی فوج ہی قومی سالمیت کا سب سے بڑا عامل ہے۔ ترکی میں جمہوری حکومت کی کامیاب سیاسی ، اقتصادی پالیسیوں، سیاسی جماعتوں کے بہتر نظم و نسق، حکومت و اپوزیشن کی بقائے باہمی کے طریقہ کار نے جمہوریت کو مقبول او رمؤثر بنا دیا ہے۔ اس لئے ترکی میں مارشل لا کے امکانات آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ترکی کا نیٹو میں بھی کافی بڑا او رمؤثر کردار ہے۔ یورپی یونین سے قریبی تعاون بھی جمہوریت کے استحکام اور فوج کے سیاسی کردار کو محدود کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آج ترکی میں جمہوریت اور حکومت پاکستان کی طرح نہیں ہے۔ اردوان کی پارٹی منظم، مستحکم اور انہیں عوام میں بہت زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہے۔ پارٹی کارکنوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جو فوج کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے عوام اپنے لیڈر کی آواز پر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ عوام کے بے پناہ ہجوم میں کوئی چیز حرکت نہیں کر سکتی، خواہ وہ ٹینک ہی کیوں نہ ہوں جس کا نظارہ ہم سب نے گزشتہ روز ترکی کی سڑکوں پر دیکھا لیکن ہماری حکومتیں ابھی تک پارٹی کی سطح پر منظم ہیں نہ جمہوری اور نہ ہی عوام کے دلوں پر حکمران، بلکہ ہماری فوجی قیادت عوام کی سطح پر زیادہ مقبول اور پسندیدہ ہے۔ ترکی میں حالیہ بغاوت کو جمہوریت اور حکومت کے خلاف فوج کی بغاوت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا یہ ’’فوج کے اندر بغاوت تھی‘‘ چند مہم جو نوجوانوں کا وقتی اُبال۔ ترکی کی فوج عالم اسلام میں ایک طاقتور اور بڑی فوج ہے۔ یہ فوج تعداد، نظم وضبط اور پیشہ وارانہ مہارت میں پاکستان کے ہم پلہ خیال کی جاتی ہے، حالانکہ ترکی کی آبادی پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ترکی نیٹو کا ایک فعال ممبر ہے۔ نیٹو میں امریکہ کے بعد ترکی سب سے بڑی فوج کا حامل ہے۔ علاقائی سطح پر بھی روس کے بعد اس کی فوج سب سے بڑی اور پیشہ ور فوج ہے۔ ترکی میں تینوں مسلح افواج کی مجموعی تعداد ساڑھے چھ لاکھ کے قریب ہے۔ جمعہ کے دن فوج کے اندر باغیوں کی تعداد تین سے پانچ ہزار رہی ہوگی، اس میں زیادہ تر نوجوان افسر ہی شامل تھے۔ یہ سب کے سب فوج کی ’’چین آف کمانڈ‘‘ سے باہر کے لوگ تھے۔ نہ تو فوج کی سینئر کمانڈ ان کے ساتھ تھی نہ ہی استنبول اور انقرہ کے سوا دیگر چھائونیوں کی سپاہ نے ان کا ساتھ دیا، نہ حمایت کی بلکہ عوام پر گولیاں برسانے والے ہیلی کاپٹر کو حکومت اور کمانڈر انچیف کے وفادار فوجیوں نے مار گرایا۔ اس لئے اسے فوج کی بغاوت نہیں، فوج کے اندر بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے، جو نہ صرف حکومت بلکہ فوج کی قیادت پر بھی قبضہ جمانے کے ارادے سے نکلے تھے۔ اسے ایک بڑی ، طاقتور، منظم فوج کے اندر بچگانہ مہم جوئی ہی کہا جا سکتا ہے۔ نیم پختہ نوجوانوں نے یہ قدم مکمل تیاری، درست منصوبہ بندی اور قوت ِنافذہ کے بغیر اٹھایا۔ عوام، ذرائع ابلاغ، شہری انتظامیہ اور فوج کے 98 فیصد نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور یہ ٹینکوں کے اندر ہونے کے باوجود بیٹھی بطخوں کی طرح مارے گئے۔ ترکی میں حالیہ بعض فوجیوں کی بغاوت کو ترکی میں 1960، 1971اور 1980 کے مارشلائوں سے کوئی نسبت ہے نہ ہی اس کا پاکستان میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لا سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کو ترکی میں 2012 میں بعض فوجیوں کی بغاوت جو طیب اردوان کے خلاف ہوئی، اس کے مماثل کہا جا سکتا ہے یا پاکستان میں میجر جنرل عباسی اور بریگیڈیئر بلا کی کوشش کی طرح جو ظاہر ہونے سے پہلے ہی پکڑی گئی تھی، اس میں بھی فوج کے چند جونیئر مگر غیرمؤثر افراد ایک انقلاب کی تلاش میں نکلے تھے۔ اگرچہ حالیہ بغاوت کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا پھر بھی یہ مہم جوئی اگر طول پکڑ جاتی ہے تو یہ حقیقی مارشل لا نافذ ہو جانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان دہ اور تباہ کن ہو سکتی تھی۔ مارشل لا یا فوجی حکومت اگرچہ جمہوریت اور سیاسی نظام کیلئے تباہ کن ہے اور بعض اوقات قومی اقتصادیات کو بھی نقصان ہوتا ہے مگر یہ ریاست اور قومی دفاعی نظام کو تباہ نہیں کرتی۔ یہ محدود بغاوت طول پکڑ جاتی تو ترکی کی ریاست اور افواج کی صلاحیت کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی۔ فوج دو حصوں میں تقسیم ہو کر آپس میں الجھ پڑتی۔ اس وقت جب کرد علیحدگی پسند اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں ترکی کی سرحدوں پر پہلے ہی دستک دے رہی ہیں، ان حالات میں فوج کو پھر سے اصل حالت میں واپس لانا ممکن نہیں تھا۔ یہ بہت مبارک دن ہے کہ ترک عوام کی خوش قسمتی مہم جوئی کے آڑے آ گئی۔ طیب اردوان اور یلدرم کی حکومت یقیناً ترک عوام کی بھاری اکثریت نے منتخب کی ہے۔ عوامی خدمت کے بہترین ریکارڈ کی وجہ سے آج وہ عوام کے دلوں میں رہتی ہے۔ایسی حکومت کو چلتا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ کوئی فوج عوامی ردعمل کا اندازہ لگائے بغیر اس طرح کا احمقانہ قدم نہیں اٹھا سکتی۔ حکومت کو فوری انتقامی کارروائی کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس کے محرکات کا جائزہ لینا چاہئے۔ اس کے پیچھے اصل سازش اور سازشیوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ یہ صرف حکومت ہی نہیں فوج اور ریاست کے خلاف کوئی چال بھی ہو سکتی ہے۔ اس پورے خطے میں ترکی واحد مسلمانوں کی ریاست ہے جو شدید دبائو کے باوجود انتشار اور عدم استحکام سے بچ رہی ہے۔ آخر وہ کون ہے جو اس خطے میں یہ آخری مورچہ بھی سر کرنا چاہتا ہے۔ ایسی خوفناک سازش فتح اللہ گولن کے بس کی ہے نہ مفاد میں، اس لئے حکومت کو اس کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پاکستان اور ترکی مسلمانوں میں دو ہی ریاستیں ہیں جو جنگ کے میدان میں اپنے دشمنوں کا سامنا کرنے کی سکت رکھتی ہیں۔ ان دونوں پر دشمن کی نظر ہے، انہیں مزید جرأت اور احتیاط سے دشمن کی چالوں کا مقابلہ کرکے ملکی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنا ہے، غالب نے کہا تھا؎
کہیں ایسا نہ ہو یاں سے وہی کافر صنم نکلے
جب پردہ اٹھے گا تو یقیناً یہاں سے بھی وہی کافر صنم نکلے گا جس نے سب مسلمان خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو غیرمستحکم کرکے زیرو زبر کر رکھا ہے۔ جنہوں نے ترکی میں فوجی بغاوت کی خبر سن کر دبے دبے لفظوں میں ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا اور جب بغاوت ناکام بنا دی گئی تو پھر دونوں کی زبان پر مذمت کا لفظ آیا اور ترک حکومت کو اپنی حمایت کا یقین دلانے لگے!
تازہ ترین