جب میں اصلی کراچی کی سڑکوں، گلی کوچوں میں گاتا پھرتا ہوں، یاد ماضی عذاب نہیں ہے یارب، مت چھیننا مجھ سے حافظ میرا۔ تب لوگ سمجھتے ہیں میں یکساں حالات کا مارا ہوا ہوں۔ میں ماضی میں بھی کنگلا تھا اور حال میں بھی کنگلا ہوں، وہ کہتے ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا اور میرا ماضی بڑا ہی شاندار اور شاندار ہوتا تب میں گاتا پھرتا، یاد ماضی عذاب ہے یارب، چھین لے مجھ سے حافظ میرا۔ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں، ٹھیک ہی سوچتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات نے میرا کچھ نہیں بگاڑا ہے اور نہ میں نے بدلتے ہوئے حالات کا کچھ بگاڑا ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ ستّر اسّی برس پہلے میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا اور آج بھی ایک فلیٹ میں رہتا ہوں۔ پہلے بھی میرے بال تھے، بچے نہیں تھے، اور ستّر اسّی برس بعد بھی میرے بال ہیں، بچے نہیں ہیں۔ میں نے حالات کے ہاتھوں نہ کچھ کھویا ہے اور نہ کچھ پایا ہے۔ اس لئے گاتا پھرتا ہوں، یاد ماضی بعید۔ ماضی قریب نہیں۔ انیس سو چھتیس سے آج تک کراچی میں گزارا ہوا ایک ایک لمحہ، ایک ایک گھڑی میری بیش بہا میراث ہے۔ اس شہر کے موسم اور ہر موسم کی مہک میری سانسوں میں بسی ہوئی ہے۔
ایسا رومانی ماضی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے، ہماری پوری نسل تھی جسے ایسا دلفریب، پرسکون، ایک دوسرے کا احترام کرنے والا اور انسانی قدروں اور انسانیت سے معمور ماحول ملا تھا۔ وہ کراچی کی تاریخ میں آخری نسل تھی جس کی پرورش آدرشی علوم پر ہوئی تھی۔کراچی میں مسلمان رہتے تھے، ہندو رہتے تھے، عیسائی اور یہودی رہتے تھے، پارسی رہتے تھے،سکھ رہتے تھے، جین،بہائی اور بدھ مت کو ماننے والے رہتے تھے نہ آپس میں لڑتے تھے، نہ جھگڑتے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے۔ مجھےنہیں یاد پڑتا کہ تقسیم ہند سے پہلے کراچی میں کسی نے مندر، مسجد یا گرجے کو آگ لگائی ہو بلکہ سبھی عقیدوں کے لوگ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے، ایک دوسرے کی حفاظت کرتے تھے۔ایک عقیدے کے لوگ خود کو بلندو بالا اور دوسرے عقیدے کے لوگوں کو حقیر نہیں سمجھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ مختلف عقیدوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف برسرپکار نہیں ہوتے تھے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہم آہنگی کے نام پر مختلف عقیدوں کے لوگوں نے خود کو ایک دوسرے میں تحلیل کردیا تھا اور اپنی اپنی انفرادیت کو چھوڑ دیا تھا۔ آتش پرست پارسیوں کے ٹیمپل تھے، گردوارے تھے، مختلف عقیدے کے لوگوں کی اپنی تنظمیں تھیں، ان کے اپنے اپنے جیم خانے تھے، مثلاً ہندو جیم خانہ، مسلم جیم خانہ، پارسی انسٹیٹیوٹ،کراچی گوانیئن ایسویشن، کراچی جیم خانہ وغیرہ۔ ان کے اپنے کرکٹ گرائونڈ ہوتے تھے۔ ہر سال دو زبردست کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلے جاتے تھے، ایک ہوتاتھا Quadrangular کواڈرینگولر ٹورنامنٹ یعنی چار ٹیموں کا ٹورنامنٹ جس میں ہندو جیم خانہ، مسلم جیم خانہ، کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ اور کراچی جیم خانہ کی ٹیمیں حصہ لیتی تھیں۔ کراچی جیم خانہ کی ٹیم میں انگریز کھلاڑی ہوتے تھے اور کچھ دیسی کرسچین، پاکستان کی پہلی غیر سرکاری یعنی ان آفیشل ٹیسٹ ٹیم اور پہلی آفیشل ٹیسٹ میچ کے لئے اوپننگ بیٹسمین بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے کھلاڑی روسی ڈنشا تھے جو کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ کی طرف سے کھیلتے تھے، روسی ڈنشا حال حیات ہیں، برصغیر کے اس حصے سے یعنی سندھ سے پہلے ٹیسٹ کرکٹر جے نائومل تھے جو انیس سو بیس چھبیس کے درمیان آل انڈیا ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے ممبر تھے۔ بہت اچھے کلاڑی پیدا کئے تھے، ہندو جیم خانہ نے مثلاً پمن مل پنجابی، لعل بائیں ہاتھ سے فاسٹ بالنگ کرتے تھے۔ رام چندرآل رائونڈر تھے، بعد میں شاید ہندوستان کیلئے کھیلے، انیل دلپت وکٹ کیپر، تقسیم ہند کے تھوڑے عرصہ بعد کراچی پولیس نے ہندو جیم خانہ کے کرکٹ گرائونڈ پر قبضہ کرلیا، آج کل وہاں سپاہیوں کیلئے بھدے فلیٹ بنے ہوئے ہیں، پچھواڑے میں ایس ایس پی ٹریفک کا دفتر ہے، ہندو جیم خانہ کی عمارت اور پویلین نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس والوں کے استعمال میں ہے، مسلم جیم خانہ جہاں حنیف محمد کے بڑے بھائی رئیس محمد اور وزیر محمد کھیلے تھے،شادی بیاہ کےاستعمال میں ہے۔صدر میں جہانگیر پارک کرکٹ کھلاڑیوں کی نرسری تھا جہاں ڈنکن شارپ، خالد وزیر، پرنس اسلم، صلاح الدین کھیلتے تھے، اب کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی آماج گاہ بن چکا ہے اور چرسیوں اور ہیرونچیوں کا ڈیرہ ہے۔
ربی شیلڈ انٹر اسکول ٹورنامنٹ نے پاکستان کو نامور ٹیسٹ کھلاڑی دیئے، مثلاً سندھ مدرسۃ الاسلام نے حنیف محمد اور اکرام الٰہی دیئے۔ سی ایم ایچ اسکول نے انتخاب عالم دیا جس نے پہلا ٹیسٹ کھیلتے ہوئے پہلے اوور کی پہلی گیند پر آسٹریلیا کے ٹیسٹ اوپنر میک ڈونالڈ کو کلین بولڈ کردیا تھا، سینٹ پیٹرک اسکول نے دیئے خالد وزیر، اینتائو ڈسوزا، والس میتھائس، ڈنکن شارپ اور وسیم باری۔
ہم رہتے تھے بارنس اسٹریٹ پر سعید منزل کے قریب ڈنشا آغا بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں۔ یاروں نے تبدیلی نام کے حوالے سے بارنس اسٹریٹ کا نام بدل کر جمیلہ اسٹریٹ رکھ دیا ہے۔ ڈنشا آغا بلڈنگ کا نام بھی اب بدل چکا ہے۔ اب وہاں فلیٹوں میں آدمی نہیں رہتے۔ جس فلیٹ میں ہم رہتے تھے وہ ٹائر ٹیوبوں کے گودام میں بدل چکا ہے، گردونواح میں جوبلی سینما، تاج محل سینما، پلازا سینما، ریوالی سینما ہوتے تھے۔ اب وہاں کاروباری مراکز کھل گئے ہیں۔ گھر کے قریب این جے وی اسکول تھا، اب بھی خستہ حالت میں ہے، اسکول کی عمارت پر طرح طرح کے محکموں نے قبضہ کرلیا ہے۔ این جے وی اسکول سے انیس سو تریپن میں، میں نے میٹرک کیا تھا، این جے وی اسکول سے چند گز کے فاصلے پر تاج محل سینما اور اس کے ساتھ کراچی تھیوسوفیکل سوسائٹی کا ہال، لائبریری اور ریڈنگ روم ہوتے تھے۔ میں ابھی اسکول میں تھا کہ تھیوسوفیکل سوسائٹی کے ہال میں مسز گول Gool مینوالا کے تھیو سوفی پر لیکچر سننے جاتا تھا۔ وہ اینی بینسٹ کے فلسفہ وحدانیت پر لیکچر دیتی تھیں،آسان لہجے اور آسان زبان میں ہر نکتہ سمجھاتی تھیں، ان کا لیکچر سننے کے لئے ہر عقیدہ کے لوگ آتے تھے، ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی، یہودی وغیرہ۔ وہ خود بھی پارسی تھیں۔ تھیوسوفیکل ہال موجود ہے اب وہاں لیکچر نہیں ہوتے، انتہاپسندوں نے انہیں دھمکیاں دیں کہ تم لوگ ایک اسلامی ملک میں کفر پھیلا رہے ہو۔ ان کے ایک ڈائریکٹر کو قتل کردیا۔ اب لائبریری نہیں ہے،ریڈنگ روم نہیں ہے، ہال کا نام بدل کر جمشید میموریل ہال رکھ دیا گیا ہے۔ انتہاپسند دہشت گردوں کے ڈر سے انہوں نے جمشید کے ساتھ ان کی ذات نسروانجی نہیں لکھا ہے۔ علم اور آگاہی دشمن معاشرہ جو اپنی رعونت کے ساتھ ابھرکر ہمارے سامنے آیا ہے اس میں ایک بیش بہا نایاب کتابوں سے بھری ہوئی لائبریری برسوں سے سرناگتی بلڈنگ میں بند پڑی ہیں، سرناگتی بلڈنگ، سرخ راجستھانی پتھر سے بنی ہوئی ہے اور پاکستان چوک کے قریب ہے، اسی بلڈنگ میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن کے آرٹ اور کلچر کی کراچی برانچ ہوتی تھی، اسی بلڈنگ میں مہاتما گاندھی آکر ٹھہرے تھے جب وہ اسٹیٹ بنک آف انڈیا کی سندھ برانچ کا افتتاح کرنے آئے تھے۔