• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل کی بات ہے کہ لاہور کی ایلیٹ کلاس (جو صرف پیسے کے زور پر دو نمبر طریقے سے مال کما کر بنی ہے اپنے علم و ہنر پر نہیں) کے علاقے میں چند ملنے والوں کے پاس بیٹھا تھا جو سب کے سب اس پاک وطن کی وجہ سے نودولتئے ہوگئے۔ ایک نے کہا یار میں نے تو اپنا گھر 47 ہزارا سکوائر فٹ کورڈ ایریا کا بنا لیا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ چھوڑ میں تو ایک لاکھ اسکوائر فٹ کا گھر بنا رہا ہوں۔ تیسرا بولا چھوڑو یارو اس شہر ملک میں ایسے گھر بھی ہیں جن کے بیڈ رومز کا سائز پچھتّر ضرب ایک سو بیس ہے اور باتھ روم فٹنگ پر سونےکا پانی چڑھا ہوا ہے۔ یعنی دو کنال کے پلاٹ کا سائز۔ اس سے پہلے کہ ہمارا پیمانہ ٔ صبر لبریز ہوجاتا ہم وہاں سے اٹھا کر چلے آئے۔
راستے میں اشرافیہ کا بڑی ترتیب سے بنا ہوا قبرستان پڑتا تھا۔ ہم وہاں رک گئے اور گورکن سے پوچھا کہ قبر کتنے اسکوائر فٹ کی ہوتی ہے۔ اس نے کہا بائو جی سیدھا سا حساب ہے تین ضرب چھ یعنی اٹھارہ اسکوائر فٹ۔ بڑے بڑے شہنشاہ18 اسکوائر فٹ میں پڑے ہیں۔ اب تو صرف ان کی ہڈیاں ہی رہ گئی ہوں گی۔ زندہ ہے زندہ ہے اپنے لیڈروں کے نعرے لگانے والوں کے لیڈر بھی 18اسکوائر فٹ میں پڑے ہیں۔ 47ہزار اسکوائر فٹ یا ایک لاکھ مربع فٹ پر گھر بنانے والوں کو کیوں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں مربع فٹ پر بننے والے گھر، محلات، حویلیاں، فارم ہائوسز اور قلعہ نما رہائش گاہیں سب یہیں رہ جائیں گی۔ دنیا میں بعض لوگوں کو یہ 18 اسکوائر فٹ جگہ بھی میسر نہیں ہوتی۔ کوئی ہوائی جہاز تباہ ہونے سے اور کوئی سمندری جہاز غرق ہونے سے مر گیا۔ اپنے گھروں کے اندر قبریں بنانے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح قبریں روشن اور پرسکون نہیں ہوتیں۔ جو لوگ زندگی میں اچھے کام کرتے ہیں ان کی قبریں ہمیشہ روشن رہتی ہیں۔ قبر کے اوپر ہزار واٹ کا بلب جلانے سے قبر کے اندر روشنی نہیں آتی۔ اس فانی دنیا میں عارضی قیام گاہ کے لئے پتہ نہیں لوگ کیوں اپنی قبریں اندھیری کر رہے ہیں، کاش کوئی سمجھ سکے۔
آج ملک کی سب سے بڑی یہ بدقسمتی بن چکی ہے کہ شعبہ صحت سو فیصدی کمرشل ہو چکا ہے۔ لوگوں کے دکھوں اور بیماریوں میں اس ملک کے بعض بڑے بڑے ڈاکٹرز مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ درس دینے والے، تبلیغ کرنے والے، جہاد کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غریبوں کا علاج مفت کریں گے، اخبارات میں فوٹو سیشن کرانے والے ان ڈاکٹروں کا غریب مریضوں کے ساتھ رویہ انتہائی حقارت آمیز ہوتا ہے۔ یہ بیوروکریسی اور لٹیرا ایلیٹ کلاس کے پائوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے ہر جائز ناجائز کام اور مریض کو سہولت دینے کے لئے جان لڑا دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ آج ملک کے بعض ڈاکٹر لوٹ مار کے لئے جہاد کر رہے ہیں۔ غلط علاج کے بعد لوگوں کی بچیوں اور بچوں کو مارنے کے بعد مسکرا مسکرا کر تصاویر بنواتے ہیں۔ انہیں 18 مربع فٹ کی جگہ یاد نہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے بعض پرائیویٹ اسپتالوں کے مالکان اور ان میں کام کرنے بعض سرکاری ڈاکٹروں کو سرکاری کمیٹیوں اور بورڈز میں رکھا ہوا ہے۔ خدا شاہد ہے اس ملک میں صحت کے مسائل کو جی پی ڈاکٹرز نے اتنا برباد نہیں کیا جتنا سرکاری ڈاکٹروں نے اور پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے بڑے بڑے پروفیسروں نے کیا ہے۔ پرائیویٹ پریکٹس کے قواعد و ضوابط میں لکھا ہے کہ کوئی سرکاری ڈاکٹر کسی پرائیویٹ اسپتال کا مالک نہیں بن سکتا اور پرائیویٹ پریکٹس اپنے گھر پر کر سکتا ہے لیکن آج کیا ہو رہا ہے۔ بلکہ آج سے چند برس قبل جب اس ملک میں پرائیویٹ اسپتال بنانے کی وبا چلی تو اس کام کا آغاز کرنے والے بھی بعض نامور سرکاری پروفیسرز اور ڈاکٹرز ہی تھے۔اگلے روز ہم نے راولپنڈی میں میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی (جنگ) کے زیر اہتمام جوڑوں کی بیماریوں پر پبلک ہیلتھ سیمینار منعقد کروایا جس میں لاہور، کراچی، راولپنڈی اور پشاور کے نامور روماٹالوجسٹ یعنی ماہرین جوڑ نے شرکت کی۔ مریضوں کی کثیر تعداد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ جوڑوں کی بیماریاں کس تیزی سے پھیل رہی ہیں اور دوسری طرف اس شعبے کے ماہرین کی شدید کمی ہے۔ ڈاکٹر جاوید محمود ملک نے بتایا کہ پورے ملک صرف 25 روماٹالوجسٹ ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ 22 کروڑ آبادی کا ملک ہے اور یہ ماہرین بھی صرف لاہور، کراچی، پنڈی اور ملتان میں ہیں۔ بلوچستان، کے پی کے اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے لوگ جہاں غربت کا عالم یہ ہے کہ ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی وہاں ہڈیوں کے ماہر بالکل نہیں اور ہڈیوں کی بیماریاں غذاتی قلت کی وجہ سے بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ جوڑوں کی تبدیلی کے آپریشن کوئی سستا کام نہیں، صرف ایک گھٹنا کی تبدیلی کا آپریشن 3 لاکھ میں ہوتا ہے۔ کوئی متوسط طبقے کا مریض بھی یہ آپریشن افورڈ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں گنٹھیا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے، گنٹھیا سے شوگر، بلڈ پریشر اور کئی دیگر بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جو موت کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہاتھوں کی انگلیوں کے چھوٹے چھوٹے جوڑ تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جوڑوں کے دردوں کی دو سو سے زیادہ اقسام ہیں۔ اگر علاج بروقت ہو جاتے تو انسان بچ سکتا ہے۔ مگر علاج تو تبھی بروقت ہوگا جب ماہرین میسر ہوں گے۔ دوسرے آرتھرائٹس یعنی گنٹھیا 60 سال کی عمر میں 20 فیصد لوگوں کو 70 سال کے بعد ہر تیسری عورت اور پانچویں مرد کو ہو رہا ہے۔ ہر جوڑ کا علاج سرجری نہیں، بروقت علاج سرجری کی تکلیف اور اخراجات سے بچا جاسکتا ہے۔ جدید میڈیکل سائنس اب جدید حیاتیاتی ادویات یعنی بائیلوجیکل ڈرگز کی طرف جارہی ہے یہ ادویات انسان کو جوڑوں کی تکلیف سے نجات دلانے میں بڑی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو شعور دیا اور آگاہی دی جائے۔ اصل صورتحال یہ ہے ہمارے ملک میں خصوصاً بعض ٹیچنگ اسپتالوں، ڈسٹرکٹ اسپتالوں اور چھوٹے شہروں میں کہیں بھی ڈرماٹالوجسٹ نہیں ہیں۔ ہماری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس سلسلے میں خصوصاً ہدایات دیں کہ ہر صوبے میں جوڑوں کے ماہرین پیدا کئے جائیں اور ان ماہرین کا فرض ہے کہ وہ بھی اس شعبے میں ماہرین پیدا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ آئندہ چند برسوں میں گنٹھیا کے مرض میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ان حالات میں غریب لوگ کیا کرینگے؟ وہ لوگ جو اپنے ہاتھ اور ٹانگوں کی مدد سے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور غیر مناسب غذا اور ماحول کی وجہ سے اور موروثی وجہ سے بھی ان کے جوڑ جلدی گھس جاتے ہیں وہ ان کا علاج بھی نہیں کروا سکتے اس طرح عمر بھر کی معذوری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ کبھی ہمارے حکمرانوں نے اس بارے میں سوچا۔ اشرافیہ تو یو کے اور یو ایس میں جا کر ’’گوڈے‘‘ تبدیل کروا لیتے ہیں لیکن غریب کہاں جائیں؟ اس شعبے میں صرف چار خواتین ڈاکٹرز ہیں جبکہ ہمارے میڈیکل کالجوں میں 70 فیصد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں لیکن عوام سوال کرتے ہیں کہ وہ 70 فیصد لڑکیاں کہاں ہیں جو فیلڈ میں نظر نہیں آتیں۔ یہ 70 فیصد لڑکیاں شادی کرا کے صرف گھر داری کر رہی ہیں، کیا یہ حکومتی وسائل کا ضیاع نہیں۔ کئی برس پہلے ایک جسٹس صاحب جو ریٹائر ہو چکے ہیں کسی خاص وجہ سے ایک غلط فیصلہ دیا کہ تمام میڈیکل کالجوں میں کوٹہ سسٹم نہیں ہوگا اوپن میرٹ ہوگا۔ آج اوپن میرٹ کی وجہ سے میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی بھرمار ہے اور فیلڈ میں لیڈی ڈاکٹروں کا فقدان ہے۔ آئندہ کالم میں آپ کو بتائیں گے کہ کس کس فیلڈ میں لیڈی ڈاکٹرز نہیں ہیں اور یا صرف ایک یا دو ہیں۔ کوئی فیصلہ اور کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ جانا تو صرف 18 مربع فٹ میں ہے۔
تازہ ترین