• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر کی تمام مہذب اقوام کیلئے جمہوری افغانستان امید کی کرن ہے افغان عوام قابل مبارک باد ہیں جنہوں نے خوف اور بربریت کی فضا میں ظلم وجبر کی قوتوں کو مسترد کرتے ہوئے جمہوریت انسانی حقوق اور آزادیوں کے حق میں مہر لگا دی ہے۔ انتہائی نامساعد حالات اور بادوباراں بھی افغان عوام کے عزم کو متزلزل نہ کر سکے۔ افغان صدارتی انتخاب میں عوامی ٹرن آئوٹ 58فیصد رہا۔ 35فیصد خواتین اور 65فیصد مرد حضرات نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے وہ کر دکھایا جس کی توقع بہت کم لوگ کر رہے تھے ایک کروڑ 20لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 70لاکھ سے زائد نے خوف اور لالچ کو دھتکارتے ہوئے افغان جمہوری نظام پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ووٹرز کی یہ تعداد 2009ء کے بالمقابل 45لاکھ زیادہ ہے حالانکہ بوجوہ 211پولنگ اسٹیشنز بند کرنے پڑے اور 959پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ نہ ڈالے جا سکے ۔ چیف الیکشن کمشنر احمد یوسف نورستانی سمیت پولنگ کا تمام تر عملہ اور سکیورٹی فراہم کرنے والا 2لاکھ اہلکاروں پر مشتمل اسٹاف سب کے سب افغان تھے کوئی امریکی نہ تھا امیدواران میں ایک خاتون سمیت مختلف النسل وذہن 8رہنما جن میں قدامت پسند مجاہد رہنما عبدالرسول سیاف اور گلبدین حکمت یار کے نمائندے حزب اسلامی کے قطب الدین حلال بھی شامل تھے ۔ ٹرن آئوٹ کے علاوہ ان حضرات کی انتخابات میں شرکت جہاں انتخابی عمل کو تقدس بخشتی ہے وہیں جمہوری نظام پر اعتماد کی بھی مظہر ہے اور جمہوری افغانستان میں وسعت نظری اور آزادی و کشادگی بھی دلیل ہے ورنہ جمہوری ایران پر اتنی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک یہ اعتراضات موجود ہیں کہ ولایت فقیہہ کے زیر سایہ علما کی کمیٹی من پسند امیدواران کے علاوہ دیگر کے کاغذات مسترد کر دیتی ہے یہ وتیرہ روز اول سے ہے جب مہدی بازرگان جیسے قد آور بزرگ سیاست دان کو الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ افغانستان میں موجود مذہبی و نسلی افتراق کے باوجود سسٹم میں موجود وسعت کی جھلک ملاحظہ کی جا سکتی ہے یوں پشتونوں کے ساتھ ساتھ تاجک، ازبک اور ہزارہ میں کوئی تفاوت نہیں رکھا گیا ہے۔اگرچہ افغانستان جیسی قدامت پسند قبائلی سوسائٹی میں موجود نسلی تعصبات شدید تر ہیں جن کے مظاہر ہم افغان ’’اندرونی جہاد‘‘ کے دوران 1996ء میں اور مابعد نادرن الائنس اور طالبان کی خون خواری میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔2009ء کے انتخابات میں اگرچہ حامد کرزئی کو اتنی واضح کامیابی نہیں ملی تھی اور عبداللہ عبداللہ جیسے روشن خیال رہنما کیلئے بھی بھرپور عوامی حمایت موجود تھی مگر تنازعات اور ایک نئی خونریزی سے بچنے کیلئے عبداللہ عبداللہ نے جھگڑے کو طول نہیں دیا تھا نیز امریکیوں نے بھی محض افغانستان کو ایک نئے انتشار سے بچانے کیلئے حامد کرزئی جیسے غیر ذمہ دار، جذباتی اور کرپٹ شخص کو بطور صدر قبول کیا تھا ۔ ہماری رائے میں طالبان کو افغانستان میں بطور ایک جبری طاقت زندہ رکھنے میں جہاں دیگر فیکٹر ہیں وہیں حامد کرزئی کی نااہل انتظامیہ کا بھی پورا رول ہے۔موجودہ افغان صدارتی انتخابات پر طالبان کے عدم اعتماد کا جائزہ لینےسے قبل ہم پاکستان میں موجود طالبان کے چیف سپورٹر تحریک انصاف کے رہنما عمران خاں کے اظہار خیال پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں جن کا بیان ہے کہ
Election under US Presence will be tainted because it cannot be fair and transparent
اس بیان کو دیکھ کر ہمیں بہت افسوس ہوا کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی سوچ کس نہج پر ہے۔ افغان قوم تاریخ کے اہم ترین موڑ سے گزر رہی ہے اس مظلوم قوم کی نئی شیرازہ بندی ہو رہی ہے وہ تاریک قبائلی دور سے نکل کر ایک نئے آئینی، جمہوری پروگریسو اور ماڈرن دور میں اس خوف کے ساتھ داخل ہو رہی ہے کہ ظلم و جبر کی طرز کہن پر اترانے والے گدھ سب کچھ نوچ لینے کیلئے منڈلا رہے ہیں جبکہ ہمارے سابق کھلاڑی اور موجودہ سیاسی رہنما کی ’’بالغ نظری‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ پورے انتخابی عمل اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کو مشکوک اور ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے افغان سوسائٹی کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کیلئے بے چین ہیں۔ہماری نظر میں یہ بہترین موقع تھا کہ تمام افغان گروہ مسلح یا غیر مسلح عدم تشدد کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ایکا کرتے ہوئے عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرلیتے عبدالرسول سیاف اور گلبدین حکمت یار کی طرح طالبان بھی افغان اسلامی آئین کے تحت انتخابی عمل کا حصہ بن جاتے جب انہیں اعتماد ہے کہ وہ افغان عوام کے حقیقی نمائندے ہیں تو پھر وہ براہ راست ان کے پاس جاتے نہ یہ کہ انہیں خوفناک دھمکیاں دیتے ہوئے انتخابی عمل سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی۔ اس حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرنیشنل میڈیا کےسامنے جو کچھ کہا ہے وہ مستقبل میں ان کے عزائم آشکار کرنے کیلئے واضح ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’ہم جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے، اس لئے غیر ملکی فوج کی موجودگی میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کی کوئی اہمیت نہیںطالبان افغانستان میں مغربی جمہوریت کی بجائے اسلامی نظام نافذ کریں گے ‘‘۔ ’’یہ طالبان کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کو آزاد کرائیں اور اس میں اسلامی نظام نافذ کریں ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے جان ومال اور خون سے آزادی کی جدوجہد اور جہاد میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لہٰذا ہمارا یہ حق ہے کہ اصل فیصلہ ہم کریں اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ملک کیلئے نظام منتخب کریں‘‘۔اس سوال پر کہ انتخابی مہم میں صدارتی امیدواروں کے جلسوں میں طالبان کے حملوں اور دھمکیوں کے باوجود ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ہے تو کیا طالبان لوگوں کے اس جمہوری حق کو تسلیم نہیں کرتے طالبان ترجمان کا جواب پڑھئے اور سردمہینے ’’جن لوگوں نے انتخابی جلسوں میں شرکت کی ہے وہ درحقیقت سیاسی امور کا ادراک نہیں رکھتے اور شہروں میں دشمن کی چھتریوں تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ پیسوں اور سازشوں کے ذریعے لاکھوں لوگ بھی دھوکہ کھاسکتے ہیں ‘‘ ایسے لوگوں کے حق میں اس آرزو کے ساتھ دعائے ہدایت بھی کی جاسکتی ہے کہ کم از کم ان طالبان کے اساتذہ ہی جو خود کو ان کے گاڈ فادر خیال کرتے ہیں، سمجھائیں اور انہیں راہ راست پر لائیں کیونکہ ان بےچاروں کے پاس سوائے خلوص کے اور کچھ نہیں ہے ۔ طالبان سے یہ کوئی ہمدردی نہیں ہے کہ انہیں جوشیلی راہوں پر ڈالتے ہوئے کچلے جانے کیلئے چھوڑ دیا جائے جس کا انجام سوائے بربادی کے اور کچھ نہیں ان کے جو ہمدرد انہیں یہ پٹیاں پڑھا رہے ہیں کہ جونہی امریکی گئے افغانستان کا اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح تمہاری جھولی میں آن گرے گا یہ لوگ ان کے ہمدرد نہیں ۔ بلاشبہ اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ہمیں ایک مرتبہ مسلم لیگ ن کے رہنما جناب احسن اقبال جیسے دانشور سیاسست دان نے یہ کہا کہ آپ کے روشن خیال تو افغانستان میں ڈانواںڈول ہو کر رہ گئے ہیں اور طالبان بڑی حد تک چھا چکے ہیں۔عرض کی کہ خوفناک خانہ جنگی ہو گی قبضہ پھر بھی ان کا نہیں ہو گا ۔آج بہت سے ہمدرد موجود ہیں جو خطے میں سارے فتنے کی جڑ امریکی مداخلت اور اتحادی افواج کی موجودگی کو قرار دیتے نہیں تھکتے ہم سوچتے ہیں کہ اس نوع کے تجزیے کرنے والوں کو ان تلخ حقائق کے پس منظر کا کوئی نالج نہیں ہے وہ نائن الیون سے آگاہ ہیں نہ اس کی وجوہ اور اثرات سے آشنا ۔ اگر ہم مستقبل کی خانہ جنگی و خونریزی کو کم سے کمتر کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم افغان قوم کو آئین ، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کی پٹڑی پر چڑھانے میں معاونت کریں اس کا راستہ انتخابی عمل پر اعتماد سے ہی پھوٹ سکتا ہے نتیجے میں پختون رہنما اشرف غنی احمد زئی صاحب جیتیں یا عبداللہ عبداللہ جیسے آدھے پختون آدھے تاجک، امن اور سلامتی کی راہ یہی ہے امکانات یہی ہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی 50فیصد تک نہ پہنچ پائے گا لہٰذا افغان آئین کی مطابقت میں کلیئر میجارٹی ثابت کرنے کیلئے ہر دو قابل صد احترام رہنمائوں میں سیکنڈ رائونڈ ہو جائےگا۔ طالبان حملوں کا خوف تو آئندہ بھی رہے گا لیکن جو خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے ان سے خاصا بچائو رہا ہے۔ اگرچہ افغان انتخابات میں کچھ حملے ہوئے بھی ہیں اور ان میںسکیورٹی والوں کےساتھ غیر ملکی میڈیا پرسن بھی ٹارگٹ بنے ہیںلیکن بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ انتخابی پراسس میں عالمی میڈیا نے جس لیول کی شرکت کرنا تھی جو انتخابی شفافیت کو واضح کرنے کیلئے ضروری تھی وہ ممکن نہیں ہوسکی۔
تازہ ترین