• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چودھری شجاعت حسین نے بات پتے کی کہی ہے مگر پلے کسی کے نہیں پڑی کیونکہ تعصبات، نفرتوں اور انتقام کے مرض میں مبتلا اس معاشرے میں ہرایک کا اپنا سچ ہے، اپنا آئین اور اپنے مفاد سے ہم آہنگ آئین کی شق، جس کو وہ مقدس جانتا ہے اور ہر ایک پر لاگو کرنے کا خواہشمند۔
ان دنوں یہ تقدس آئین کے آرٹیکل 6کو حاصل ہے۔ جس طرح صدر زرداری کے لئے 248مقدس تھا ا ور یوسف رضاگیلانی کے علاوہ چودھری اعتزاز احسن صبح و شام اس کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آرٹیکل 6کی بھی صرف ایک ہی شق مقدس اور واجب الاتباع ہے۔ شق 2اور 2A سے کسی کو سروکار نہیں۔ البتہ پرویز مشرف کے سوا کسی ا ور سے انتقام لینا مقصود ہوتا تو باقی شقیں بھی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا بنیادی نکتہ قرارپاتیں۔
آئین یہاں ہر دور میں باز یچہ ٔ اطفال رہا ہے۔ بھٹو صاحب نے اسے متفقہ طور پر منظور کرایا۔ یہ ان کا لازوال کارنامہ ہے مگر چند ماہ بعد ہی وہ اسے اپنے لئے جنجال اور حکمرانی کے لئے رکاوٹ سمجھنے لگے۔ آزاد عدلیہ، انسانی حقوق اور آزادی تحریر و تقریر کی شقیں بھٹو صاحب کو اتنی ناپسند آئیں کہ انہو ںنےچوتھی اور پانچویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کاحلیہ بگاڑ دیااور ایمرجنسی لگاکر انسانی حقوق والی شقیں معطل کردیں۔ یہ عملاً فرد ِ واحد کی حکمرانی تھی اور ایف ایس ایف کا راج۔
جنرل ضیا الحق فوجی آمر تھے اور آئین کو کاغذ کا معمولی ٹکڑا سمجھنے کے مرض میں مبتلا جسے وہ جب چاہیں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے مجاز۔ پرویز مشرف اپنے پیشرو فوجی حکمرانوں کے نقش قدم پر چلے تو منتخب سول حکمرانوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو رول ماڈل بنا کر آئین میںچیک اینڈ بیلنس کا سسٹم بلڈوز کیا اورمطلق العنان حکمرانی کو فروغ دیا جو ہمیشہ فوجی مداخلت کے خطرے سے دوچاررہتی ہے۔
آئین کی بالادستی اور عوام کی حاکمیت کے نام پر یہ کھیل برسوں سے جاری ہے اور ہر سول و فوجی حکمران مظلوم آئین کی کسی نہ کسی من پسند شق کا ڈھنڈورا پیٹ کر محروم، مجبور اور بدقسمت عوام کو بے وقوف بناتا، اپنا الو سیدھا کرتا اور اداروں کے مابین ٹکرائو کی شعوری یا غیرشعوری تدبیر کرتا ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ اسی آئین میں آرٹیکل 62,63بھی ہیں جو کسی بدکار، لٹیرے قانون شکن اور فوج و عدلیہ پر کیچڑ اچھالنے والے کو انتخاب لڑنے اور منتخب ایوانوں میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے مگر پچھلے سال انتخابات کےموقع پر آئین کے ان آرٹیکلز کی جس طرح مٹی پلید ہوئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
اسی آئین میں آرٹیکل 140A ہے جس کے تحت بلدیاتی اداروں اور ضلعی حکومتوں کا قیام اور انہیں سیاسی و معاشی خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کی آزادی فراہم کرنا صوبوں اور وفاق کی ذمہ داری ہے مگر منتخب حکمران ان اداروں کے انتخابات کرانے پر تیار نہیں تاکہ عوام کو اپنی دہلیز پر بنیادی سہولتیں نہ مل سکیں اور وہ مرکزی و صوبائی حکمرانوں، ان کے خویش و اقارب اور چیلے چانٹوں کے سامنے بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلائے حقوق کی بھیک مانگتے رہیں۔
آئین کے دو آرٹیکل 37,38تو آج تک کسی سیاستدان، حکمران، دانشور اور قانون دان نے شاید پڑھے ہی نہیں عملدرآمد کے بار ےمیں سوچنا بعد کی بات ہے۔ ان آرٹیکلز میں سماجی انصاف کے فروغ، عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، مفت سیکنڈری تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتوں کی فراہمی اور معاشرتی برائیوں از قسم ناخواندگی، ناانصافی، بیروزگاری،قحبہ گری، شراب و منشیات فروشی، بدکاری، سود، جوئے بازی اور فحش و عریاں مواد کاخاتمہ ریاست و حکومت کا فرض اولین قرار دیا گیا ہے مگر مجال ہے کہ آرٹیکل 6کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں سے کسی نے کبھی جھوٹے منہ تذکرہ ہی کیاہو۔ کتاب کے ایک حصے پر ایمان لانا اور دوسرے کا انکار ان کی عادت ہے۔
ہمارے ہاں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کامفہوم بس یہ ہے کہ وقت پر عام اور ضمنی انتخابات ہوں، دھن، دھونس، دھاندلی، برادری ازم اور نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ مذہبی تعصبات کے ذریعہ جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار ،سمگلر، ذخیرہ اندوز، منشیات واسلحہ فروش، ریاستی مشینری کو ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کرلیں وہ حکمرانی کے حقدار ہیں اور ان مطلق العنان حکمرانوں کو یہ دائمی اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین کی جس شق پر عمل نہ کرنا چاہیں، قومی خزانے کو جس طرح بھائی بندوں، عزیز و اقارب میں بانٹنا چاہیں، سرکاری عہدوں پر جن کارندوں، ،خوشامدیوں اور مالشیوں کو مسلط کرناچاہیں اور اپنے مخالفین سے جس انداز میں انتقام لینا چاہیں ان کی صوابدید ہے کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔
پرویز مشرف کے معاملے میں جب بعض نابغے سوال اٹھاتے ہیں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں تو ہنسی آتی ہے شاید انہوںنے آئین کا آرٹیکل 248نہیں پڑھا یا وہ سابقہ دورِ حکومت میں کرپشن کے میگا سکینڈل سے بے خبر ہیں جن کے ذمہ داروں سے باز پرس موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں اور وہ اس بات کو جان بوجھ کر یا سادگی سے نظرانداز کر رہےہیں کہ قانون کی نظرمیں صرف پرویز مشرف برابر نہیں آرٹیکل 6 کی دفعہ 2اور 2-A کے تحت فوجی آمر کے مددگار، تابعدار اور پیروکار (Aid, abeyatter and colleborater) جرنیل، جج، سیاستدان اور بیوروکریٹ بھی برابر کے مجرم ہیں اور مستوجب سزا مگر یہاں حکومت اور عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت پنڈورابکس کھولنے سے ڈرتی ہے اور آرٹیکل 10Aکو فراموش کردیتی ہے جو ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔
عوام احتساب چاہتے ہیں ہر آئین شکن ، قانون شکن، لٹیرے، قومی دولت بیرون ملک منتقل کرنے والے اور آئین و قانون کو توڑ مروڑ کر اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے کا۔ وہ آرٹیکل 6کی تمام شقوں، آرٹیکل 37,38اور آرٹیکلز 62,63پر بلاامتیاز وتفریق عملدرآمد کے حق میں ہیں ان کی زد میں کوئی سابق آرمی چیف آئے سابق صدر، وزیراعظم اورکوئی وڈیرہ، سرمایہ دار اور منتخب عوامی نمائندہ، وہ سلیکٹو انصاف کے حق میں ہیں نہ آئین کی بالادستی کے نام پر جذبہ ٔ انتقام کی تسکین سے خوش۔
آئین کی بالاستی کا تقاضہ یہ ہے کہ صرف آج نہیں کل تک جو عدلیہ کی تضحیک، فوج کی تذلیل اور نظریہ پاکستان کی تنقیص کے مرتکب ہوئے انہیں بھی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور جن کی بدکاری، شراب نوشی اور جوئے بازی کا چرچہ پارلیمینٹ ہائوس کے علاوہ پارلیمینٹ لاجز میں ہر ایک کی زبان پرہے انہیں بھی جرم کی نوعیت کے مطابق سزا ملنی چاہئے تاکہ دنیا کوپتہ چلے کہ آئین کی ہر شق پر عملدرآمد کا آغاز ہوگیا ہے۔ اب کوئی بچ کر نہیں جائے گا، معاشرے کی تعمیر اور سسٹم کی تطہیر کے علاوہ قانون کی حکمرانی کا یہ بنیادی تقاضہ ہے۔
چودھری شجاعت حسین آرٹیکل 63 کی ذیلی شق بی پر عملدرآمد چاہتے ہیں مگر یہ بات شاید وہ بھول گئے کہ جس طرح پچھلے سال آرٹیکل 62,63 کو کسی نے مقدس نہیں جانا اب بھی کوئی اس کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ 37,38 کو بھی نہیں۔ صرف آرٹیکل 6 کی پہلی سطر مقدس ہے، قابل عمل اور آئین کی بالادستی کی مظہر باقی آئین جائے بھاڑ میں۔ ضیا الحق میں اتنی جرأت تھی کہ اسے کاغذ کا ٹکڑا کہہ سکیں اب کہتا کوئی نہیں، سمجھتا ہر ایک ہے اس لئے حکومت اور فوج کے مابین تنائو ہے اور عوام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
تازہ ترین