• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
.....Oدوستی صرف برابر کی ہے باقی سب ’’گزارہ‘‘ ہے۔
.....Oپچاس برس بعد جائز اور ناجائز دانشور اپنا ماضی بھول جاتے یا ملتوی کردیتے ہیں۔
.....Oریاستیں مسلح شہیدوں کے ’’یوم شہدا‘‘ مناتی ہیں۔ بیگناہ قتل کئے جانے والے عوام مجرم یا مشکوک ہوتے ہیں۔
.....O’’متحمل مزاج‘‘ کے طور پر مشہور حضرات کی اکثریت ’’میسنوں‘‘ کی ہوتی ہے۔
.....Oغریب کو رحم کی چلتی پھرتی اپیل بھی کہا جاسکتا ہے۔
.....Oاخلاقیات بھی طاقتور کے حضور رحم کی اپیل ہی ہے!
.....Oخفیہ ایجنسیاں انسانوں کےباطنی عدم اعتماد نے تشکیل دی ہیں۔
.....Oاس صدی کے اختتام تک ’’حب الوطنی‘‘ ، ’’ملکی سالمیت‘‘، ’’جغرافیائی و نظریاتی سرحدیں‘‘ اور ’’کفار‘‘ جیسی اصطلاحات کی فکری اورعملی ایکسپلائٹیشن تاریخ کی مسترد داستانوں کاحصہ ہوگی۔
.....Oٹی وی چینلوں پر ’’آزادی ٔ صحافت‘‘ اور ’’عوامی فرائض‘ ‘ کے لیکچرار اپنی تصوراتی نمازیں ٹیڑھی صفوںپر ادا کرتے ہیں۔
.....Oطاقتور کامہینہ 20دن کا بھی ہوتا ہے ..... سلطان راہی نے بھی یہی کہا تھا۔
.....Oبعض لوگ ہر وقت ایسے مصروف نظر آتے ہیں جیسے پیٹھ سے استرا اٹھارہے ہوں۔
.....Oبدتمیزی اخباری رپورٹر کا زاد ِ راہ، کمزور کی ٹھکائی اور پولیس کا فخر ہے۔
.....Oشیخ رشید سیاسی تنہائی کا شکار ہے، سیاست کے محاذ پر اس کے پائوں کی پھسلن اسے ناکامی کے قریب تر کرتی جارہی ہے۔
.....Oپنجاب میں بلاول بھٹوزرداری کی متوقع آمد پیپلزپارٹی کے نظریاتی جیالوں اور’’سیاسی بکیوں‘‘ کے درمیان مقابلے کامیدان ہوگا۔’’سیاسی بکیوں‘‘ کے جیتنے کا امکان زیادہ ہے۔
.....Oبیورو کریسی اور ریاستی اہلکاروں کی تربیت کے لئے انہیں انسانی اخلاقیات کے گھٹیا معیارات کامجموعہ ازبر کرایا جاتا ہے۔
.....Oکتابوں کی زیادہ تر تقریباتِ رونمائی اپنی تخلیقی نالائقی اور علمی کمی کے گناہوں پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے۔
.....O’’شامت ِ اعمال‘‘ کا مکمل ترین لغوی اور معنوی مطلب پوچھنے کے لئے صوبے کے ’’آئی جی‘‘ اور صوبائی محکمہ اطلاعات کے ’’ڈی جی پی آر‘‘ سے زیادہ مناسب اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
.....Oبوڑھی ہیروئنیں فلم انڈسٹری کے زوال اور تباہی کی باتیں کرتے ہوئے دراصل اپنی جوانی کاسیاپا کر رہی ہوتی ہیں۔
.....Oلہری نے مرنے سے کچھ عرصہ قبل ایک جاننے والے سے حالت ِ فالج میں باتیں کرتے ہوئے کہا تھا ’’شہرت ایک سراب ہے‘‘ مگر پیارے لہری! دنیا بھی ایک سراب ہی ہے مگر دنیا دنیا ہے، ہم سب اس میں مبتلا رہتے ہیں۔
.....Oمذہبی حوالوں سے پیش گوئیاں کرنےوالے دو کالم نگار اپنی اپنی پیش گوئیاںفراموش کردینے کی ’’لازوال‘‘ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
.....Oنجومیوں، پیروں، عاملوں،سٹہ بازوں اور وغیرہ وغیرہ کے پاس دھڑا دھڑ جانے والی قوم اپنے مقدرپر بدقسمتی کی مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔
.....Oبعض لکھنے والوں کی اکثریت پاکستانیوں کے لئے ناگزیر عذاب ِ جاں کی حیثیت رکھتی ہے۔
.....Oخوبصورت عورت کو عظیم پنجابی وژنری صوفی اورشاعر میاں محمد بخش نے صندل کی سفید لکڑی سے تشبیہ دی ہے۔ پوری اردو شاعری میں یہ تشبیہ کسی نے استعمال نہیں کی۔
.....Oقائداعظمؒ، اقبالؒ اور لیاقت علی خان قیام پاکستان کی ابتدائی دہائی تک زندہ رہ جاتے تو انہیں پتہ چل جاتا ’’دایاں بازو‘‘،’’ مذہبی جماعتیں‘‘ اور ’’پاکستانی خفیہ ایجنسیاں‘‘ کس بھائو پڑتی ہیں؟
.....O’’ق‘‘ لیگ میں صلاحیتوں کے اعتبارسے اکیلا مشاہد حسین ’’ن‘‘ لیگ کے احسن اقبال، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق پر بھاری ہے۔ تقریر کرواکے، مضمون لکھواکے ،مذاکرہ کروا کے دیکھ لیں شرط صرف ایک ہے یعنی آمنےسامنے!
.....Oانگریزی زبان کے دوسینئر کالم نگاروں ایاز میر اور خالد حسن مرحوم کی شاعرانہ نثر پڑھ کر اکثر پاکستان ٹائمز کے محمد ادریس اور زیڈ آئی مرزا یادآ جاتے ہیں!
.....Oمستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں کی تعداد زیادہ ہے، عطاالحق نے سفرزیادہ کئے ہیں، فارمولا تو مستنصر صاحب کے پاس ہوا۔
.....Oمیز کے دوسری طرف بیٹھا ہوا شخص جب چاہے اپنے سامنے موجود پرلے درجے کا نااہل اور بیوقوف ثابت کرسکتاہے اس کی وجہ قابلیت نہیں ’’ٹیکنیکل پوزیشن‘‘ ہے۔
.....Oجن کالم نگاروں کی بارگینگ پوزیشن نہیں ہوتی، وہ ایک نہیں چار چار ’’دیالو‘‘ حضرات کے دروازوں پرآشیرباداور منظوری کا کشکول لئے کھڑے رہتے ہیں!
.....Oننانوے فیصد اچھے یا برے، نیک یا بد، دولت مند مفلس او ر ضرورت مند کے لئے ذہنی اور سماجی عذاب ہوتے ہیں۔
.....Oضرورت مند اور مقروض، صاحب ِ حیثیت اورر قرض خوا ہ کے سامنے اکثر خواہ مخوا بتیسی نکال کر اپنے منہ کے زاویئے خراب کرتاہے۔ دونوں حضرات اس کی تمام تر ’’محنت‘‘ کے باوجود اس سے سخت بوریت محسوس کرتے ہیں۔
.....Oموجودہ جمہوری نظام عوام کے حق ووٹ اور حق عزت کا اولین دشمن ثابت ہوچکا ہے۔ طاہر القادری کے نظریات پر وقت نے سچائی کی چھاپ لگا دی ہے۔
.....Oنوسر باز سرکاری درباروں اور محکموں کےبرآمدوں جبکہ درماندہ اور مقہور عوام گیٹوں کے باہر ہوتے ہیں۔
.....Oسابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور آزاد عدلیہ کا عملی نتائج کا ریکارڈ مرتب ہو رہا ہے۔ عوامی دانش کی بیلنس شیٹ میں’’عدل کی منزل‘‘ کے سوا عظیم داستانوں کا مینابازار لگا ہوا ہے۔
.....Oریاست واقعی ماں جیسی ہوتی ہے۔ اعتزاز نے درست یاددہانی کروائی لیکن نالائق اولاد اس کے پائوں کے نیچے سے جنت چھین لیا کرتی ہے۔
.....Oفوج، طالبان اور سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کے حوالے سے سنیٹر فیصل رضا عابدی نہ جانے کیوں پاکستان کے گلی محلوں کا عمومی مکالمہ بنتے جارہے ہیں ۔
.....Oاقبالؒ، قائداعظمؒ اور مذہبی جنونیت کے موضوعات پر یاسر پیرزادہ کی نظریاتی تحریریں دائیں بازوں کے فکر کی تنگ و تاریک اندھی گلی میں روشنی کا تازہ ترین شاہکار ہیں۔
.....O’’پاکستان کی دھرتی پر قیامت تک کسی اتاترک کی پیدائش ناممکن ہے۔ اگر پیدا ہو بھی گیا تو چند گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا! حسن نثار کو اطلاع ہو!
تازہ ترین