• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حاجی اسلم پشاور کی معروف کاروباری شخصیت ہیں ان کے دسترخوان پر لیاقت بلوچ سمیت جماعت اسلامی کے کئی رہنما موجود تھے ، بحر اللہ ایڈووکیٹ جو جماعت اسلامی پشاور کے امیر ہیں ،انہوں نے خشونت بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، آپ میڈیا والوں کو جماعت اسلامی سے کیا پرخاش ہے؟ باقی سب سیاسی جماعتیں جو مرضی کرتی رہیں آپ خاموش رہتے ہیں مگر جماعت اسلامی سے کوئی معمولی غلطی بھی ہو جائے تو آپ معاف نہیں کرتے؟ میں نے بصد احترام عرض کیا،جماعت اسلامی کی مثال اس سفید کپڑے کی سی ہے جس پر کوئی معمولی سا داغ بھی لگ جائے تو دور سے دکھائی دیتا ہے مگر باقی جماعتیں ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں ،ان کے دامن پر پہلے سے اتنے دھبے ہوتے ہیں کہ ایک اور داغ لگ جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سراج الحق کے امیر منتخب ہونے پر میڈیا کے غیر معمولی ردعمل کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی۔ لاریب جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے جمہوری پارٹی ہے جسے ہم ایسے لوگ تعفن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا تازہ جھونکا سمجھتے ہیں مگر یہ انسانوں کی جماعت ہے جن سے غلطی ہو سکتی ہے۔ جماعت کے جن بہی خواہوں کا خیال تھا کہ تنقید و تعریض کے نشتر چلا کر مجھے صف دشمناں میں دھکیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے ،وہ اپنی تصحیح کر لیں ۔میں نہ کسی کا حریف ہوں نہ حلیف،نہ کسی کی محبت میں گھائل ہوں نہ کسی کی نفرت پر مائل، نہ کسی کے قصیدے پڑھتا ہوں نہ کسی پر ناحق الزام دھرتا ہوں، میرے قلم کا فلسفہ تو یہی ہے کہ جو محسوس کرتا ہوں وہی تحریر کرتا ہوں یہ سوچے بغیر کہ کوئی میرے گُن گائے گا یا کاٹنے کو آئے گا۔ سید منور حسن سے متعلق گزشتہ سے پیوستہ کالم بھی نفع نقصان سے بالاتر ہو کر لکھا گیا۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے جماعت اسلامی کے کارکنان کی جانب سے نہایت منفی ردعمل کی توقع تھی کیونکہ سچ ہمیشہ ناگوار اور تلخ ہوتا ہے مگر حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی کے کارکنان نہیں بیسیوں ارکان نے ٹیلی فون کر کے کہا کہ ہم تو تنظیمی نظم و ضبط کے کھونٹے سے بندھے ہیں ،اپنے جذبات و احساسات کا اظہار نہیں کر سکتے مگر آپ نے ہماری ترجمانی کی۔
یہ کالم فیس بک سے سیکڑوں افراد نے شیئر کیا اور تاثرات بھیجے اور ایک ہفتے میں 20ہزار افراد نے یہ کالم پڑھا۔ یہ غیر معمولی جوابی تاثرات مجھے رنجیدہ کر گئے کیونکہ جماعت کے ارکان اور کارکنان نے میرے خدشات کی توثیق کر دی۔ ابھی میں ان جوابی تاثرات پر حیران تھا کہ لاہور سے جماعت اسلامی کے ایک مرکزی رہنما اور سابق ایم این اے نے یہ کہہ کر پریشان کر دیا کہ اس بار خفیہ اداروں نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے اضلاع کی سطح پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ صحافتی اخلاقیات اجازت نہیں دیتی اس لئے میں جماعت کے اس قد آور رہنما کا نام ظاہر نہیں کر سکتا۔سید منور حسن نے نئے امیر کی تقریب حلف برداری میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہ دیا کہ اس بار پانچ ہزار ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ میرے سابقہ کالم پر چراغ پا ہونے والے بتائیں،کیا اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا کہ جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کے ارکان اہم ترین فیصلے سے یوں لاتعلق نظر آئے ہوں؟ آخر کیا وجہ تھی کہ اس بار پانچ ہزار بیلٹ پیپر کاسٹ نہیں ہوئے؟ کیا اب بھی کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے؟
ایک بزرگ نے جماعت کے نمائندہ اخبار میں کالم لکھا ’’بلال غوری کے مغالطے‘‘ میں ان کا ممنون ہوں کہ ایک مغالطہ تو وہ واقعتاً دور کر گئے۔ میں تو کسی حد تک تشکیک کا شکار تھا مگر موصوف نے ثابت کر دیا کہ واقعی جماعت ہر دور میں فوج کی بی ٹیم رہی ہے اب چونکہ ایک ایسا کپتان آ گیا تھا جسے سٹے بازی سے سخت نفرت تھی اس لئے اسے ہٹانا لازم ہو گیا تھا۔ لکھتے ہیں’’جماعت اسلامی نے فوجی آمر محمد ایوب خان کے دیئے گئے بنیادی جمہوری نظام کو قبول بھی کر رکھا تھا۔ملک بھر میں بی ڈی سسٹم کے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا‘‘۔ پھر آگے ایک اور ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے کا اعتراف کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں’’ضیاء الحق کی حکومت میں وزارتیں قبول کرنے والوں میں سید مودودی کے ہمدم دیرینہ چوہدری رحمت الہٰی بھی شامل تھے،آزمودہ کار محمود اعظم فاروقی بھی اور پروفیسر غفور احمد بھی‘‘۔ پرویز مشرف کے دور میں کیا ہوا یہ تو کل کی بات ہے اس لئے اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ جماعت اسلامی کو ویسے ہی وکیل میسر آئے ہیں جیسے پرویز مشرف کو۔ وہ سیاسی آلائشیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا، اگر انہیں دیکھنا ہے تو جماعت اسلامی کے سیاسی گڑھ لوئر دیر چلے جائیں۔ یہاں جماعت باقی سیاسی جماعتوں جیسی ایک جماعت بن چکی ہے جہاں عہدوں کے لئے کھینچا تانی ہوتی ہے، وفاداریاں بدلی جاتی ہیں، انتشار و افتراق کا یہ عالم ہے کہ یہاں جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ایک ایم پی اے سراج الحق سے خلاصی کی دعائیں کیا کرتے تھے کہ ان کی باری آئے۔جب ان کی سنی گئی اور سراج الحق امیر منتخب ہو گئے تو انہوں نے شکرانے کے نوافل ادا کئے کہ اب صوبائی وزارت پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آن گرے گی۔مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ان آلائشوں اور کثافتوں سے دامن نہیں بچایا جا سکتا۔
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ سیاست کے جوہڑ میں اتریں اور آپ کا دامن بچا رہے لیکن آدھا تیتر آدھا بٹیر کی سوچ گھر اور گھاٹ دونوں سے محروم کر دیتی ہے۔اب اگر جماعت اسلامی کے ارکان نے اپنا دستوری حق بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی مصلحتوں سے آشنا اور زیرک و معاملہ فہم امیر منتخب کیا ہے تو کسی کو کوئی حق نہیں اعتراض کرنے کا مگر آپ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر کیوں چھپاتے پھرتے ہیں؟ببانگ دہل اعتراف کریں اس بات کاآپ نے ایک مقبول سیاسی و عوامی جماعت بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہاں مگر اس فیصلے نے اندیشوں اور وسوسوں کی کوکھ سے جنم لیا یہ بات اب کسی ملمع کاری سے چھپنے والی نہیں۔ کہنے کو تو میں بھی وہی انداز تخاطب بروئے کار لا سکتا ہوں جو میرے حوالے سے استعمال کیا گیا مگر سفید بالوں کا تو میرا رب بھی احترام کرتا ہے۔ ’’اچھا اب بلال غوری جیسے لوگ ہمیں سمجھائیں گے‘‘ کی گردان کرنے والوں سے بس اتنا کہوں گا کہ حضور! آپ تو عقل کُل ہیں، معصوم عن الخطاء ،سراپا حق و سچ بھلا مجھ ایسے ناہنجار و خطا کار اور گنہگار آپ جیسے صاحب ابرار مگر غرور تقویٰ کا شکار، مودودی افکار مگر فوقیت و برتری کے مرض میں گرفتار مافوق الفطرت احرار کو سمجھانے یا بتانے کی گستاخی کرسکتے ہیں؟ میرے مخاطب تو وہ ناقص العقل انسان تھے جو میری طرح زمین پر ہی رہتے ہیں اور جماعت اسلامی کے ارکان کی فہرست میں شامل نہیں۔
تازہ ترین