• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً ہر ہی طبقے کے افراد حکومت کے بجٹ کے منتظر رہتے ہیں مگر سب سے زیادہ بے چین سرکاری ملازمین اور پنشنرز نظر آتے ہیں جن کی تنخواہ اور پنشن معیّن ہوتی ہے۔ وہ سال بھر کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کے اثرات کو اس امید پر برداشت کرتے رہتے ہیں کہ آنے والے بجٹ میں ان کی کچھ اشک شوئی ہوجائے گی۔ وزیرخزانہ کا یہ اعلان کہ 2014-15ء کے بجٹ میں سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشنوں میں کوئی اضافہ ممکن نہیں، متعلقہ حلقوں میں بم کی طرح گرا کیونکہ ملک میں افراط زر کی شرح 11فیصد کے قریب ہے اور مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک میں گندم کی بھرپور فصل ہوئی ہے۔خود سرکار نے گندم کی قیمت خرید 1200 روپے سے بڑھا کر 1250 روپے فی 40کلو کردی ہے۔ آٹے کی خوردہ قیمت میں دو روپے اضافہ ہوگیا ہے۔گھی کی قیمت میں 10روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا ہے۔ باسمتی چاول 140 روپے، مسور کی دال 120روپے، دال چنا 100روپے، آلو 50، پیاز، کھیرا 40، لہسن 80، ادرک 100، گائے کا ہڈی والا گوشت 300، بکری کا گوشت 700روپیہ کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔ یہ شرح کراچی کے ہیں اور سب سے حیرت ناک اضافہ دودھ میں ہے جو 70 روپے فی لیٹر کے مقررہ سرکاری نرخ سے بڑھ کر 80 اور 84 تک جا پہنچا اور صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
یہ سب کچھ ایسی صورت میں ہوا جبکہ وزیرخرانہ ملکی معیشت کی بحالی کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں۔ سال رواں کی سب سے اہم خبر ڈالر کی قدر پاکستانی روپے 110 روپے سے گر کر 98 روپے پر آگئی ہے اور قیمت خرید 96.97 روپے فی ڈالر ہے۔ اس حکومت کے ڈالر کے قرضوں میں 4ارب کی کمی ہوئی مگر اس کمی کا کوئی فائدہ عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا۔ سال رواں میں شرح نمو 3.5 اور 4 فیصد رہنے کی امید ہے۔ مبادلہ خارجہ کے ذخائر 10ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں 30جون تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر مالیاتی اداروں کی طرف سے آنے والی رقوم سے ان میں مزید اضافہ ہو گا۔ ریونیو کی وصولی کا ابتدائی 9 ماہ کا ہدف 1567 ارب روپے تھا جبکہ وصول ہوئی رقم 1576 ارب روپے رہی۔ سالانہ ہدف 2345 ارب ہے۔ وصولی اس کے قریب پہنچ جائے گی۔
ان حالات میں ملازمین او پنشنروں کو اضافے سے محروم کرنا بقول نمائندہ پی پی پی ’’ظلم ہے‘‘۔ ملازمین کی انجمنوں نے اس اعلان کے خلاف احتجاج کیا اور قلم چھوڑ ہڑتال اور ریلیوں کی دھمکی دی ہے چنانچہ وزارت خزانہ کی طرف سے لیپا ہوئی مثلاً اس اعلان کو فائنل قرار نہیں دیا گیا۔ خود وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر وقتی طور پر تسلی دینے کی کوشش کی کہ تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ کابینہ کو کرنا ہے بہرحال بجٹ پیش ہونے تک یہ مباحث چلتے رہیں گے۔
اگرحکومت نے یہ فیصلہ کرلیا کہ 2014-15ء کے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا تو کم از کم 7فیصد الائونس کی اس دوعملی کو تو ختم کیا جائے جو نئے اور پرانے پنشنروں کے درمیان موجود ہے۔ اس کی مختصراً تفصیل ذیل میں پیش ہے۔
(1) 1995ء میں حکومت نے No.F.1(40)-IMP/95(1) مورخہ 29جون 1995ء کے ذریعہ 1تا 22گریڈ کے جملہ ملازمین کیلئے بنیادی تنخواہ کا 7فیصد مہنگائی الائونس منظور کیا مگر پنشن کا حساب لگانے میں اس کو شامل نہیں کیا جائے گا (دیکھئے (2 (C) (2) NoF.13(10)Reg.6/2008/413 مورخہ 16 مئی 2011ء عدالت عالیہ کے حکم پر 7فیصد کا یہ الائونس پنشن کی رقم کا حساب لگانے میں شامل کیا جائے گا۔
(3) لیکنNo.F.4(1)Reg.66/2013-1375 مورخہ 16جولائی 2013ء تنخواہوں اور پنشنوں میں علی الترتیب 15-15 اور 20فیصد سالانہ اضافہ کے باوجود یہ الائونس جاری رہا مگر دوعملی یہ ہوئی کہ اس سے وہ ملازمین مستفید ہوں گے جو یکم جون 1995ء اور 30جون 2011ء کے درمیان ریٹائر ہوئے اور یکم جون 1995ء سے پہلے ریٹائر ہونے والوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
یہ دو عملی ہے گویا جون 1995ء سے قبل ریٹائر ہونے والے کافی خوشحال تھے اور وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں حالانکہ 1995ء سے قبل گریڈ ،بعد میں بڑھنے والے گریڈوں سے کم تھے لہٰذا نئے آنے والوں کے مقابلے میں پرانے ملازمین زیادہ مستحق ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ دکانوں کا کرایہ تو کرایہ داروں کی بساط سے باہر ہو گیا ہے۔پنشنر کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں، وہی جانتے ہیں۔
اس مطالبے کو صرف کالم نگار کا مطالبہ سمجھنا نہیں چاہئے کالم نگار سے کئی افراد ملنے آئے۔دوچار نے ٹیلیفون پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا لاہور سے ایک طویل شکایتی خط موصول ہوا۔ اس نے اگر لئے پنشنوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو کم از کم ان محروم پنشنروں کا مطالبہ قبول کرلیا جائے وہ وزیر خزانہ کو دعائے خیر میں یاد رکھیں گے۔ اگر وزارت خزانہ کے کسی افسر کی نظر اس کالم پر پڑ جائے تو اس کا فرض ہے کہ اسے وزیروں کے نوٹس میں لائے۔
تازہ ترین