• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحفظ پاکستان آرڈیننس 2014ء کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے کی حکومتی خواہش ان دنوں سیاسی ،پارلیمانی، صحافتی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث اور ہدف تنقید ہے اپوزیشن کی تمام جماعتیں اسے آئین و قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور اسلام کے نظام عدل و انصاف کے منافی قرار دے رہی ہیں مگر حکومت نہ صرف اسے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی واحد تدبیر سمجھتی ہے بلکہ 21خصوصی عدالتیں قائم کرکے اس نے یہ عندیہ بھی دیدیا ہے کہ وہ سینٹ سے منظوری کو ضروری نہیں سمجھتی اور آسماں گرے یا زمیں پھٹے اس آرڈیننس پر عمل کرکے چھوڑے گی۔
گزشتہ روز میں نے دوران مطالعہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا موازنہ انگریز دور کے بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ کے ساتھ کرنے کی کوشش کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جنگ عظیم اول کے موقع پر غاصب غیر ملکی حکومت نے باغیوں، دہشت گردوں، تخریب کاروں اور مشتبہ قانون شکنوں کے بارے میں جو خصوصی قانون سازی کی وہ آئین و قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور عدل وانصاف کے عالمی و اسلامی اصولوں کی نفی کے حوالے سے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا عشر عشیر بھی نہیں تھی مگر اس ایکٹ کی منظوری پر برصغیر کے عوام نے جلیانوالہ باغ میں جانوںکی قربانیاں دیں اور قائد اعظم نے بطور احتجاج امپریل لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا مگر یہاں؟
قائد اعظم نے مارچ 1919ء کے تیسرے ہفتے میں رولٹ مسودہ قانون (ضابطہ فوجداری، ہنگامی قوانین) کی منظوری پر وائسرائے ہند کے نام اپنے استعفیٰ میں لکھا ’’میری رائے میں وہ حکومت جو ایسے قوانین منظور کرتی ہے یا اس کی توثیق کرتی ہے وہ خود کو مہذب کہلانے کا حق کھو دیتی ہے ‘‘
18کروڑ جیتے جاگتے انسانوں پر مشتمل جس ریاست اور معاشرے کے تحفظ کا انحصار ایک ایسے کالے قانون پر ہو جس سے حکومتی گروہ کے سوا کوئی سیاسی جماعت متفق نہ قانونی برادری مطمئن، جو اسلام کے آفاقی اصولوں، قانون کے بنیادی تقاضوں اور شخصی آزادی کی طے شدہ جمہوری حدود وقیود سے قطعی طور پر متصادم ہے اس کا مستقبل کس قدر مخدوش ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں، مگر میاں نواز شریف اور ان کے بعض ساتھیوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ موجودہ آئین، قوانین اور عدالتی نظام ناکارہ ،ناقابل عمل اور دہشت گردوں، ملک دشمنوں، سفاک مجرموں کا مددگار و پشت پناہ ہے اس لئے خصوصی قوانین اور عدالتوں کا قیام ازبس ضروری ہے جو قانون شکنی کا سدباب کریں۔ اگر یہی بات طالبان کہیں تو ملک کے دشمن اور گردن زدنی ہیں۔
1997ءمیں بھی میاں صاحب نے بیورو کریسی کے مشورے اور اپنی افتاد طبع کے باعث خصوصی قوانین اور فوری سماعت کی خصوصی عدالتوں کا ڈول ڈالا اور کراچی میں چند افراد سزایاب ہوئے مگر چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ان قوانین اور خصوصی عدالتوں کو آئین، انسانی حقوق اور انصاف کے فطری تقاضوں سے متصادم جان کر کالعدم قرار دیدیا۔ سب سے زیادہ فائدہ میاں نواز شریف کو ہوا کہ ہائی جیکنگ کیس عام عدالت میں چلا اور ایک بہادر دیانتدار سیشن جج نے جنرل پرویز مشرف کی خواہش کو رد کرکے ملزم کی جان بچالی۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت پولیس، پیرا ملٹری فورس اور امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار دیگر اداروں کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی شہری کو مشتبہ و مشکوک قرار دیکر براہ راست گولی مار سکتے ہیں، تین ماہ تک کسی عدالت کو بتائے اور منظوری لئے بغیر زیر حراست رکھ سکتے ہیں اور اس شخص کو اپنے بے گناہ ہونے کا ثبوت فراہم نہ کرنے کی صورت میں کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر موت یا عمر قید کی سزا دلوا سکتے ہیں۔ پہلے سے زیر حراست افراد جنہیں مسنگ پرسنزقرار دیا جا چکا ہے اس شق کے تحت قانونی نظر بند سمجھا جائے گا اس کالے قانون کے تحت کسی شہری کی پاکستانی شہریت ختم کی جاسکتی ہے اور عدالتی اختیار محدود کر دیا گیا ہے اب انتظامیہ بھی عدلیہ کی حصہ دار ہو گی اور وہی یہ طے کریگی کہ کون سا شہری معصوم اور بے قصور ہے اور کس کا کردار، گفتار اور طرز عمل مشکوک و مشتبہ ہے ۔
اس قانون کی پارلیمینٹ سے منظوری کی صورت میں سب سے زیادہ بے اطمینانی اور بے چینی کا شکار بلوچستان، سندھ اور کراچی کے علاوہ خیبرپختونخواہ کے قبائلی عوام ہوں گے جن کے پیارے پہلے ہی سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں اور ان کے عزیز واقارب کو کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ، مشتبہ و مشکوک شخص کو گولی مارنے کا اختیار ملنے کے بعد سکیورٹی فورسز بے لگام ہو کر عام شہریوں سے وہی سلوک کریں گی جو کراچی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور اور سرفراز شاہ کے ساتھ رینجرز نے کیا۔ذاتی و سیاسی عناصر اور ناپسندیدگی کے علاوہ اپنے حقوق کے لئے سرگرم اور حکومتی پالیسیوں سے ناراض خیال سیاسی کارکنوں، ٹریڈ یونین سے وابستہ عناصر کی سرکوبی کے لئے یہ پولیس و انتظامیہ اور دیگر اداروں کا موثر و کارآمد ہتھیار ہو گا اور اسے وہ بے رحمی کے ساتھ استعمال کرنے میں آزاد ہوں گی، دلیل، اپیل، وکیل کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
گواہوں اور ججوں کو تحفظ فراہم کرنا، ملزموں کے خلاف کافی ثبوت اور شواہد پیش کرنا اور قصور وار کو قانونی تقاضوں کے مطابق سزا دلانا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر وہ اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے عدلیہ سے توقع کرتے ہیں کہ تفتیشی اداروں کی خودساختہ ،جھوٹی اور ذاتی عناد و مفاد پر مبنی کہانیوں کو شہادت تصور کرکے ملزموں کو وہ سزا سنائیں جس کا مطالبہ پراسیکیوٹر اوپر کی ہدایت پر کرتا ہے۔
ججوں پر دبائو کی بات بھی خوب ہے ایک طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آزاد عدلیہ کے دلیر اور جرات مند جج کسی خوف، ترغیب اور دبائو کی پروا نہیں کرتے، آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف، آئی جی ایف سی کو طلب کرنا اور وزیر اعظم کو سزا سنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ پرویز مشرف کو بالاخر عدالت کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا مگر دوسری طرف یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ جج دہشت گردوں کے خوف، دبائو اور دھمکیوں کی بنا پر مقدمات نہیں سنتے ، فیصلوں میں تاخیر کرتے اور شک کا فائدہ دیکر عادی مجرموں، دہشت گردوں کو رہا کر دیتے ہیں تو پھر سچ کیا ہے؟
کب کھلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد
تحفظ پاکستان آرڈیننس کی ایک ایک شق بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ کے مقابلے میں زیادہ وحشیانہ، سنگدلانہ اور بے رحمانہ ہے مگر جمہوری حکومت عملدرآمد پر مصر ہے اور 1997ء کے واقعات بھول گئی ہے اپوزیشن بھی زبانی کلامی احتجاج میں مصروف ہے اور میڈیا اس کا ہدف طالبان کو سمجھ کر کافی حد تک خاموش ہے۔پارلیمینٹ کے اندر یا باہر کوئی قائد اعظم ؒ نہیں جو اس آرڈیننس کی منظوری اور توثیق پر برملا کہہ سکے کہ حکومت مہذب کہلانے کے حق سے محروم ہو گئی ہے اور ایوان کی رکنیت سے استعفیٰ دیکر تاریخ میں ایک قانون پسند اور شہری حقوق کے محافظ کے طور پر نام لکھوالے، عمران خان، اعتزاز احسن، ڈاکٹر بابر اعوان، مخدوم جاوید ہاشمی، راجہ ظفر الحق اور سید ظفر علی شاہ میں سے کوئی ایک بھی نہیں ؟
قائد اعظم نے رولٹ ایکٹ کی منظوری پر قانون ساز ادارے کی رکنیت ترک کر دی قائداعظم ثانی کے دور میں رولٹ ایکٹ سے بدتر قانون پارلیمینٹ کے ایک ایوان نے منظور کر لیا ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ جمہوریت، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق فروغ و استحکام کی منزلیں طے کرنے میں مصروف ہیں۔ریاست کو سکیورٹی سٹیٹ کون بنا رہا ہے اور آئین کی بالادستی کا تصور کون مجروع کر رہا ہے ۔
حکومت کی نیت پر مجھے کیا کسی کو بھی شک نہیں مگر بدمست ریاستی اداروں کو بے محابا اختیار ملنے کے بعد نیت بدلتے کتنی دیر لگتی ہے؟
تازہ ترین